انمول موتی

ایم اے راجا

محفلین
احادیث اور اقوالِ زریں ہمارا بیش بہا سرمایہ ہیں، یہ ہمیں بہترین زندگی گذارنے کا درس دیتے ہیں۔ میں نے آج سوچا کہ کیوں نہ ایک دھاگہ شروع کیا جائے جس میں بہترین احادیث اور اقوال پوسٹ کیئے جائیں، آپ تمام احباب سے گزارش ہیکہ اس دھاگہ کو کامیاب بنانے کے لیئے متواتر یہاں اقوال اور احادیث ( اگر حوالہ بھی ہو تو بہتر) پوسٹ کریں، اگر ایک بھی شخص انکی وجہ سے اچھا کام کرے گا تو اسکا یہ عمل ہمارے لیئے صدقہ جاریہ ہو گا۔ حدیث ہیکہ ، حدیث کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا سب سے بہتر کام ہے۔ اور یہ بہترین تبلیغ بھی ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
علم حاصل کرو چاہے اسکے لیئے چین جانا پڑے۔ ( حدیث مبارکہ)
جہالت سے بڑی غریبی کوئی نہیں۔ ( قول)
بیکار ہے وہ علم جس پر عمل نہ کیا جائے۔ ( قول)
علم انسان کی تیسری آنکھ ہے۔ ( قول)
 
علم حاصل کرو چاہے اسکے لیئے چین جانا پڑے۔ ( حدیث مبارکہ)
جہالت سے بڑی غریبی کوئی نہیں۔ ( قول)
بیکار ہے وہ علم جس پر عمل نہ کیا جائے۔ ( قول)
علم انسان کی تیسری آنکھ ہے۔ ( قول)
" علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے "
یہ حدیث نہیں ہے
 
یہ آپ نے کیوں کہا، کیا ترجمہ غلط ہے یا آپ کو سند میں شک ہے.
اس کی سند کمزور ہے
 
یہ آپ نے کیوں کہا، کیا ترجمہ غلط ہے یا آپ کو سند میں شک ہے.
اِس روایت کی دو اور سندیں بھی ہیں :

جن کا ذِکر إِمام عبدالرحمن السیوطی رحمہُ اللہ نے """ اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة """ میں کیا ہے ،

جِن میں سے ایک میں"""یعقوب بن اِسحاق بن اِسماعیل العسقلانی"""نامی راوی ہے جِسے اِمام شمس الدین الذہبی رحمہُ اللہ نے"""جھوٹا"""قرار دِیا ،

اور دوسری سند میں"""احمد بن عبداللہ الجُویباری """نامی راوی ہے جِسے خود اِمام السیوطی رحمہُ اللہ نے"""حدیث گھڑنے والا"""کہا ہے ،
 

الشفاء

لائبریرین
" علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے "
یہ حدیث نہیں ہے


اگر کسی حدیث کی سند کمزور ہو تو اس کے حدیث ہونے کا ہی انکار نہیں کر دیتے ، میرے بھائی۔ اس کی الگ اصطلاحات ہیں۔۔۔:)
 
اگر کسی حدیث کی سند کمزور ہو تو اس کے حدیث ہونے کا ہی انکار نہیں کر دیتے ، میرے بھائی۔ اس کی الگ اصطلاحات ہیں۔۔۔:)
لسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہُ ،

اللہ تبارک وتعالیٰ اسے ہر پڑھنے والے کے لیے خیر کا سبب بنائے ،

ہمارے ہاں عموماً کچھ باتوں کو بطور حدیث سنایا اور پڑھایا جاتا ہے ، اور مکھی پر مکھی مارنے کے مصداق ان باتوں کی کوئی تحقیق کیے بغیر ، حسنء ظن اور نام نہاد عقیدت و محبت کی بِناء پر انہیں جُوں کا تو مان لیا جاتا ہے ،

انہی باتوں میں سے ایک یہ بات بھی ہے جو بطورِ حدیث سنائی جاتی ہے کہ ((( اُطلُبُوا العِلمَ و لَو بِالصِّینِ ::: عِلم طلب کرو خواہ چین سے(یعنی خواہ چینChina جانا پڑے) )))

گو کہ اِس مقولے کی کمزوری کے عقلی دلائل بھی دیے جا سکتے ہیں لیکن دِین کے معاملات کو، اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب خبروں کو عقل پر پرکھنا دُرُست منھج نہیں ، لہذا ایسی پرکھ عموماً غلطی کا باعث ہوتی ہے، اِسی لیے ایسی خبروں کی پرکھ کے لیے اُن خبروں کے نقل ہو کر آنے والے ہر ذریعے کو جانچنے پرکھنے کے لیے کسوٹیاں مقرر کی گئیں ، اور ان کسٹیوں پر پرکھ کے مطابق خبر کو قُبول یا رد کیا گیا ،

اِن شاء اللہ ،بات کو موضوع سے جُڑے ہوئے رکھنے کے لیے اور اختصار کے پیش نظر میں ِاس وقت خبروں کی نقل کے ذرائع اور ان کی پرکھ کی کسوٹیوں کے بارے میں کچھ بات نہیں کروں گا ،اور یہاںصِرف اِس مذکورہ بالا روایت ، یا مقولے کی حقیقت کے بارے میں اُمت کے اِماموں رحمہم اللہ جمعیاً کی تحقیق ذِکر کروں گا ، اِن شاء اللہ ۔

::::: اِمام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ا ِس مقولے کے بارے میں """ الموضوعات"""میں اِمام ابن حبان رحمہُ اللہ کا قول ذِکر کیا کہ"""یہ بات باطل ہے اور اِس کی کوئی اصل نہیں"""،
غور فرمایے ، قارئین کرام کہ إِمام صاحب رحمہُ اللہ کی اِس نرمی کے باوجود اگر وہ کسی حدیث کو کمزور یا باطل قرار دیں تو اُنکی بات کافی مضبوط ہوتی ہے،

یہ ، چین میں جا کر عِلم حاصل کرنے والی مندرجہ بالا روایت ، مذکورہ ذیل کتابوں میں روایت کی گئی ہے ،

اِمام ابو نعیم الاصبہانی رحمہُ اللہ کی""" اخبار اصبھان """، اور ، اِمام ابن علیک رحمہُ اللہ کی"""الفوائد"""، اور ،

اِمام الخطیب البغدادی رحمہُ اللہ کی"""تاریخ بغداد"""،اور ، اِمام البیہیقی رحمہُ اللہ کی"""المدخل"""،

اور اِمام ابن عبدالبر رحمہُ اللہ کی"""جامع بیان العِلم"""، اور پھر کئی دیگر کتابوں میں نقل کی گئی ، سب روایات کی سندیں ایک مُقام پر مشترک ہو کر یہ ایک سند بن جاتی ہے:::

"""حسن بن عطیہ کے ذریعے ، کہ اُس نے ابو عاتکہ طریف بن سلیمان سے سُنا ، کہ وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ کے ذریعے روایت کرتا کہ ،،،،،،"""،

قارئین کرام ، اِس سند کے مرکزی اور مشترک راوی ابو عاتکہ طریف بن سلیمان کے بارے میں أمیر المؤمنین فی الحدیث إِمام محمد بن إسماعیل البخاری رحمہ اللہ و رفع درجاتہُ نے اپنی معروف کتاب """تاریخ الکبیر"""میں فرمایا کہ """مُنکر الحدیث""" ہے ، یعنی اِسکی بیان کردہ روایت (حدیث)مُنکر ہے، یعنی ناقابل یقین اورنا قابل اعتماد ہے ، انکار کیے جانے کی مستحق ہے ،،

"""الجرح و تعدیل"""میں اِمام ابو حاتم محمد بن اِدریس الرازی رحمہُ اللہ نے"""ضعیف الحدیث""" قرا دِیا ، ،،یعنی اِس کی بیان کردہ حدیث کمزور ہے ،،،

اِس روایت کی دو اور سندیں بھی ہیں :

جن کا ذِکر إِمام عبدالرحمن السیوطی رحمہُ اللہ نے """ اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة """ میں کیا ہے ،

جِن میں سے ایک میں"""یعقوب بن اِسحاق بن اِسماعیل العسقلانی"""نامی راوی ہے جِسے اِمام شمس الدین الذہبی رحمہُ اللہ نے"""جھوٹا"""قرار دِیا ،

اور دوسری سند میں"""احمد بن عبداللہ الجُویباری """نامی راوی ہے جِسے خود اِمام السیوطی رحمہُ اللہ نے"""حدیث گھڑنے والا"""کہا ہے ،

اختصار کے پیش نظر میں نے تفصیل سے حوالہ جات کا ذِکر نہیں کِیا ، کِسی کے پاس اگر اِس مِن گھڑت روایت کی اِن ناقابل اعتبار سندوں کے عِلاوہ کوئی اور سند ہو براہِ مہربانی مجھے اُس کی اطلاع کرے اور اگر نہیں ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات پاک سے محبت کے صرف ز ُبانی دعوے مت کیجیے ، بلکہ اُس محبت کے عملی تقاضے پورے کیجیے ، جن میں سے ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذاتِ مبارک سے کوئی ایسا قول یا فعل منسوب ہونے سے روکیے جو نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں ثابت نہیں ہوتا-

نہ ہی ہر کوئی کام یا بات جو نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب ہو کر سامنے آئے اسے مانیے اور نہ ہی اسے کہیں نشر کیجیے جب تک وہ صحیح نہ ھو ، ہمیشہ یاد رکھیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ

(((((مَنْ كَذَبَ عَلَىَّ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ:::))))

جس نے مجھ پر جھوٹ بولا (یعنی میرے بارے میں کچھ جھوٹ بولا )تو اُس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا )))))

صحیح بخاری /حدیث/107کتاب العلم/باب 38،

و السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ
 
Top