انور مسعود کی نظم ”افتاد“

عباس رضا

محفلین
بہت سے لوگ رستے میں کھڑے تھے
کسی کے تین مصرعے گر پڑے تھے

وہاں اک بھیڑ تھی اہلِ سخن کی
سُنی میں نے بھی اِک اِک بات اُن کی

چِھڑی تھی ایک بحثِ بے کرانہ
فسانہ در فسانہ در فسانہ

کوئی بولا یہ صنفِ ماہیا ہے
بڑی پُرسوز سی طرزِ ادا ہے

دُھواں اٹھتا ہو جیسے چُوبِ تر سے
پگھل جاتے ہیں دل اس کے اثر سے

معًا اک سمت سے آواز آئی
نہیں ہے ماہیا ہرگز یہ بھائی

یہ نظمِ نازک ونغز ونِکو ہے
یہ منظومہ سراسر ہائیکو ہے

اسے اک صنفِ خوش اوزان کہیے
سخن کی لعبتِ جاپان کہیے

اگر از بحر آں بیروں نرفتی
بہ ترتیبِ عروض پنج ہفتی

یہ سن کر گفتگوئے عالمانہ
یہ تنقیدِ فقید وفاضلانہ

ہوا اک شخص یوں توصیف پیرا
[arabic]جزاك الله في الدارين خيرا
[/arabic]
بڑے پائے کی رائے آپ کی ہے
یہ رائے بوعلی کے ناپ کی ہے

اگرچہ آپ کا ہے ووٹ میرا
پہ ہے اک اختلافی نوٹ میرا

جب اس پر ماہیے کا شائبہ ہے
ہم اس کو مائیکو کہہ لیں تو کیا ہے

یہ نکتہ تھا نہایت بحث انگیز
ہوا پھر ایک شاعر یوں نوا ریز

مری ایک بات بھی سن لو ذرا سی
کہ یہ صنفِ سخن تو ہے ثلاثی

ثلاثی کی حمایت لازمی ہے
کہ لفظوں کی کفایت لازمی ہے

رباعی سے یہ قدرے مختصر ہے
یہ اک پیرایۂ علم وہنر ہے

کہ اس میں فکر بھی احساس بھی ہے
یہ رُوحِ عصر کی عکّاس بھی ہے

کوئی سُنتا نہیں فریاد میری
یہ نوعِ شعر ہے ایجاد میری

کوئی گونجی صدا اس کھلبلی میں
ابھی پچھلے دنوں پچھلی گلی میں

یونہی اک مسئلہ تھا اختلافی
ہوئی تھی اس پہ بھی تکرار کافی

دلائل کچھ اِدھر کے کچھ اُدھر کے
مخالف زاویے نقد ونظر کے

بہم دست وگریباں ہوگئے تھے
سخن شمشیر بُرّاں ہوگئے تھے

کوئی اک بات ایسی کہہ گیا تھا
تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا تھا

وہاں بھی واقعہ ایسا ہوا تھا
کوئی انشائیہ سا گر پڑا تھا
 
آخری تدوین:
Top