انوکھی بات

بہت سی باتیں ہیں کہنے کو اور سننے کو ۔ مگر ان سب باتوں میں بہت سی باتیں اور تجربات یا تو سنے ہوئے ہوتے ہیں یا پھر قریباً مشترک ہوتے ہیں ۔ یعنی ایک ہی کیفیت سے گزرے ہوئے لوگوں کے تجربات یقیناً ملتے جلتے ہی ہوں گے ۔
مگر ان کے احساسات اور ان کا ردِ عمل مختلف ہو سکتا ہے ۔ حالات میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی ہو سکتی ہے ۔ مگر کلی طور پر ان میں یکسانیت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے ۔
میرا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے جب میں بات کرنے لگتا ہوں تو مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ بات کتنی لا یعنی ہے ، شاید میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں ۔ یا شاید کوئی اسے مجھ سے پہلے ہی سنا چکا ہے ۔
عجیب اک شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے خود سے ۔ اور چاہتا ہوں کہ جب بھی کوئی بات کروں تو اس میں ایک انوکھا پن ایک نیا پن ہو ۔ مگر یہ انوکھا پن یا نیاپن کہاں سے آئیگا ۔ جبکہ میں نہ تو ذہین ہوں اور نہ ہی فطین ۔
سوچتا ہوں کوئی نئ بات کروں ۔ پر نئ بات کیلیے کچھ نیا تجربہ ہونا چاہئے ۔ کوئی نئے احساسات ہونے چاہئیں ۔ کوئی نیا ماحول ہونا چاہئے ۔ اور اپنا یہ حال ہے کہ جیسے پنجرے میں کوئی پنچھی بند ہو جو سب کچھ اپنے صیاد کی مرضی کے مطابق کرنے پر مجبور ہے۔
اس ساری تمید کا مطلب یہ ہے کہ شاید جو میرے احساسات ہیں اس ماحول میں اور وقت میں شاید وہی احساسات کسی دوسرے شخص کے بھی ہپوں ۔
پرانے دور میں سنا ہے لوگ قصے کہانیاں سنا کرتے تھے ۔ یا دور سے جب کوئی مسافر آتا تو اس سے اس کے دیس یا پردیس کی باتیں سنتے تا کہ وہ اپنے احساسِ تحیر کی تسکین کر سکیں ۔ اور ان کو سننے کو کوئی نئ بات کوئی انوکھا اور ان جانا واقعہ سننے کو ملے ۔ اور وہ اس واقعے سے روشناس ہوں ۔
شاید شاعری بھی اسی تصور سے انسان کی تہذیب میں وارد ہوئی ہے کہ وہ اپنے تخیلات اور تصورات کی دنیا سے دوسروں لوگوں کو روشناس کرائے ۔ اسی لئے جو لوگ حساس ہوتے ہیں انہیں شاعری اپنی جانب کھینچتی ہے ۔ یا کچھ میرے جیسے دیوانے بھی ہورتے ہیں جو کسی نئ بات کسی نئے احساس کو پرھنے جاننے یا سمجھنے کیلئے اس سمت راغب ہو جاتے ہیں ۔
اور کبھی کبھی تو میرے پاس خود کو بھی کہنے کو کچھ نہیں ہوتا ۔ نہ کوئی تسلی جو خود کو دے سکوں کوئی حوصلہ کوئی جرات کچھ بھی نہیں سو کبھی کبھی انسان خود سے بھی خاموش رہ کر اپنی ذات کے گرد اجنبیت کا دائرہ کھینچ لیتا ہے ۔
سو ایسے عالم میں میرا دل کرتا ہے کہ میں خود اپنی ذات سے اور دوسرے لوگوں سے بھرپور باتیں کروں ۔ بقول شاعر
؂
بات کچھ سوجھی نہیں ہے تجھ سے کہنے کیلئے
یہ تحیر بھی بہت ہے زندہ رہنے کیلئے
آؤ بے سوچے زمانے بھر کی ہم باتیں کریں
عمر تو ساری پڑی ہے کچھ نہ کہنے کیلیے
 
زندگی ایک ایسی جوگن لگی مجھے جو در بدر بھٹکتی ہر چیز، نا چیز سے بات کرتی اور ہر ایک کو اس کی اوقات اور ظرف کے مطابق نوازتی اس زمین پر مسلسل سفر میں ہے ۔
کسی عاشق کو یہ محبت کی صورت میں ملتی ہے ۔ کسی سوداگر کو یہ اک انمول جنس کی مانند ملتی ہے ۔ ایک طالب علم کیلئے یہ ایک ایسے مضمون کا سوانگ رچا لیتی ہے جو نہ صرف دلچسپ ہو بلکہ یہ ہر پہلو سے ایک نیا رخ لئے اپنے جلوے اس پر آشکار کرتی رہتی ہے ۔ اور اسے دنیا کی اونچ نیچ اور رموز سے آشنا کرتی رہتی ہے ۔
کسی شرابی کو یہ شراب کی مانند ملتی ہے ۔ اور ایسی صد سالہ کہنہ شراب جس کا ایک قطرہ ہی اس کے وجدان اور روح کو وہ تسکین بخشتا ہے کہ اس کے لئے باقی سب کچھ ایک پرِ کاہ کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے ۔ اور وہ زندگی کے جام سے آخری قطرہ تک اپنے حلق سے نیچے اتار لینے چاہتا ہے ۔
کسی منصف کو یہ انصاف کی صورت ملتی ہے ۔ جو کہ بہت قیمتی ہے ۔ اور اسے یہ نکتہ تعلیم کرتی ہے کہ دیکھو زندگی کے ہر لمحہ سے حساب کرنا اور انصاف سے اسے ،اس کی اہمیت کے پیشِ نظر بسر کرنا ۔ کیونکہ اس کا ہر لمحہ صرف تمہارا نہیں بلکہ اس پر تمہارے علاوہ دوسروں کا بھی حق ہے ۔ سو دوسروں کو ان کے حق سے محروم مت کرنا ۔ کیونکہ یہ انصاف نہیں اور انصاف کے بغیر تم منصف نہیں ۔
کسی جواری کو یہ ایک ایسے جوے کی مانند ملتی ہے کہ وہ لاکھ چاہے تو بھی اس پونجی کو وہ داؤ پر نہیں لگاتا ۔ کیونکہ یہ اس کی سب سے قیمتی پونجی ہوتی ہے ۔
کسی جنگجو کو یہ ایسے سپہ سالار کے روپ میں ملتی ہے جو بہت تجربہ کار اور آزمودہ ہو ۔ اور یہ اسے دنیا کے میدانِ حرب میں ایسی جنگی چالیں اور پینترے سکھاتی ہے کہ وہ خود کو ایک کارآمد سپاہی تصور کرتا ہے ۔
کسی عالم کو یہ ایک ایسی کتاب کی صورت میں ملتی ہے کہ جس کے ہر صفحہ پر ایک ایسا دلچسپ اور نیا مضمون ہے کہ وہ عالم ہوتے ہوئے بھی اس کے ہر مضمون اور صفحے کو پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور کوئی بھی مضمون اسے یکساں محسوس نہیں ہوتا ۔ اور نہ ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اس کتاب کے کسی حصے کو پہلے ہی پڑھ چکا ہے ۔
اسی ظرح ایک ایڈوینچر کے شائق کو ایک ایسے ایڈوینچر کی صورت ملتی ہے کہ اسے ہر لمحہ ایک ان دیکھے ان جانے اورنہ سوچے ہوئے ایڈوینچر سے سامنا کرواتی ہے ۔
زندگی کی جوگن ہزار بہروپ بھرتی ہے اور ہر بہروپ میں یہ اتنی کامل ہوتی ہے کہ انسان کی ہر حس کو یہ مکمل تسکیں بخشتی ہے ۔ اور یہ جوگن کہ اس کی قربت انسان کو سرخوش مخمور رکھتی ہے اور جب یہ جوگن اپنا سامان سمیٹ کر اسے یہ بتاتی ہے کہ بس اب اس کا ساتھ اتنا ہی تھا تو وہ ایک تہی دست مسافر کی مانند اپنی جھولی خالی پاتا ہے ۔ جس کا سب متاع اس کا سب سے پیارا لے گیا ۔ اور اسے باقی کا سفر اب تنہا کرنا ہے ۔ اور وہ بھی ایسا سفر جس کا حکم اسے ایسی ذات نے دیا ہے کہ اس کے حکم پر چوں چاں کرنے یا عذر بنانے کی جرات کسی ذی روح میں بھی نہیں ۔
؂
ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں
لیکن کسی مقام پر پسپا نہپیں ہوئے
 
Top