یوسف-2
محفلین
انٹرنیٹ کی دنیا: خطرناک رجحانات
سید وقاص جعفری /عامر شہزاد
انٹرنیٹ کی دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والے سرچ انجن گوگل کی فحش مواد(pornography)کی سرچ کے حوالے سے پاکستان کے دنیا میں سر فہرست ہونے کے چرچے اس وقت مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا میں بھی کیے جارہے ہیں۔ یہ رپورٹ گذشتہ سال، یعنی ۲۰۱۱ء کے اعداد و شمار کی بنیا د پر ترتیب دی گئی ہے لیکن کوئی بھی شخص گوگل ٹرینڈز (Google Trends) کے ذریعے کسی بھی سال اور کسی بھی خاص علاقے کے حوالے سے کسی بھی لفظ کی سرچ کا ڈیٹا دیکھ سکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس وقت میڈیا نے واویلا کیا تھا جب جولائی ۲۰۱۰ء میں متعصب مغربی خبررساں ادارے فاکس نیوز کی طرف سے گوگل کے اس ڈیٹا کی بنیاد پر پاکستان کے فحش مواد تک رسائی میں سر فہرست ہونے کی خبر سامنے آئی تھی۔ بعد ازاں گوگل کے ترجمان نے اسی ماہ یہ کہہ کر اس کی تردید بھی کردی تھی کہ اس طرح کی کوئی بھی رپورٹ اغلاط سے مبرا نہیں ہوسکتی۔ فاکس نیوز نے اس رپورٹ کی بنیاد پر اپنی خبر کی شہ سرخی میں پاکستان کو پورنستان (Pornistan) قراردیا تھالیکن گوگل کے ترجمان تھیریسے لم (Therese Lim) نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنا ایک بہت محدود نمونے (sample)کو بہت بڑے پیمانے پر عموم دینے (generalize) کے مترادف ہے۔سید وقاص جعفری /عامر شہزاد
گوگل کی حالیہ رپورٹ پر بھی کئی اعتراضات کیے جاسکتے ہیں، بلکہ قارئین خود گوگل ٹرینڈز کے ذریعے ہمارے ان اعتراضات کا ثبوت حاصل کرسکتے ہیں جو ہم ذیل میں پیش کررہے ہیں:
۱۔کئی فحش الفاظ ، یا ایسے الفاظ جو فحش مواد تک رسائی کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں، کی سرچ (تلاش) میں اگرچہ پاکستان سرفہرست ہے، تاہم کئی اور ممالک ایسی اصطلاحات کی تلاش میں پاکستان سے بہت آگے ہیں۔ ان میں ویتنام ، فلپائن ، جنوبی افریقہ ، برطانیہ ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ یہ وہی ممالک ہیں جنھوں نے انفرادیت ، شخصی آزادی ، تفریح اور لائف سٹائل کے خوب صورت عنوانوں سے یہ انسانیت سوز’ تحائف‘ دنیا کو دیے ہیں۔ یہ اعدادو شمار شہروں کے حوالے سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں جن میں دہلی ، بنگلور، چنائی ، ممبئی، سڈنی، میلبورن، ہنوئی ، لاس اینجلس اور ڈیلا س سر فہرست ہیں۔
۲۔ یہ تمام ڈیٹا گوگل کے ذریعے فحش مواد کی تلاش میں فی کس تلاشوں(Per person searches) پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے ایک اعتراض یہ ہے کہ اگرچہ گوگل فی الواقع اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی ایک سرچ انجن ہیں جن کے ذریعے انٹرنیٹ پر تلاش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں گوگل کے ذریعے زیادہ سرچ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں دیگر سرچ انجن زیادہ معروف نہیں۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی ویب سائٹ کا براہِ راست نام نہ جاننے والے ہی سرچ انجنوں میں الفاظ کے ذریعے تلاش کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو براہ راست ویب سائٹس کا تعارف ہو، وہ اس کا ایڈریس درج کر کے براہ راست اس تک پہنچ جاتے ہیں ۔
۳۔ دنیا کی چھٹی سب سے بڑی آبادی ہونے کے ناطے سبھی دائروں اور شعبوں میں پاکستان کے صارفین و استعمال کنندگان کا زیادہ ہونا ایک بدیہی امر ہے۔
۴۔گوگل ہی کی رپورٹ کی مطابق بہت سے دیگرمثبت الفاظ بھی ہیں جن میں پاکستان سرفہرست یا دوسرے تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ مثلاًلفظ'Muhammad(PBUH)'، ’اسلام‘، ’اللہ‘ اور ’قرآن ‘،’ایجوکیشن ‘، ریسرچ، جابز کے الفاظ کو گوگل ٹرینڈز پر دیکھیے۔ اس بات کو مغربی میڈیا اور اس کی پیروی میں پاکستانی میڈیا دونوں گول کردیتے ہیں۔
گوگل کی رپورٹ پر اعتراضات اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں گذشتہ عشرے میں نہ صرف انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد تک رسائی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے بلکہ ہر قسم کے فحش مواد تک ہر عمر کے افراد کی رسائی میں بھی خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ۱۵سے ۲۰ملین لو گوں کی انٹر نیٹ تک رسائی ہے۔ بازاروں میں ہر طرح کی سی ڈیز، ڈی وی ڈیز بلا قید عمر فروخت کی جارہی ہیں۔ موبائل کے ذریعے نوجوان بچے اور بچیاں اس مصیبت میں دھڑادھڑ گرفتار ہورہے ہیں اور کیبل پر دکھائے جانے والے نیوز اور تفریحی چینل بلاتفریق ہر ناظر کو اشتعال انگیز مناظر دکھارہے ہیں۔ ڈراموں، فلموں یہاں تک کہ اشتہارات تک میں عریانیت اور فحاشی معمول بنتی جارہی ہے۔ مخلوط تعلیمی ادارے اور ان میں بلا روک ٹوک نوجوان طلبہ و طالبات کے مخلوط کلچرل شو جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ سڑکوں پر لگے بل بورڈز ایک خاص کلچر کی نمایندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسرسوشل میڈیا نے پوری کردی ہے جو ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ ہر اچھے موبائل پر دستیاب ہے اور جس کے ذریعے سے ہر رطب و یابس کو پلک جھپکتے شیئر کیا جاسکتا ہے۔ اس سیلاب بلا کو روکنا جن کی ذمہ داری تھی، وہ خود اس میں پھنسے ہیں۔ عوام ہیں کہ انھیں یہ احساس تک نہیں ہورہا کہ ہماری آیندہ نسلوں کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔
جہاں تک انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کا معاملہ ہے ،ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق Pakistan Telecommunication Authority(پی ٹی اے) نے ۱۳ہزار ایسی ویب سائٹس کو بلاک کردیا ہے ، جو بظاہر خوش آیند ہے کہ ان ذمہ داروں کو کچھ تو احساس ہوا ہے۔ لیکن جب اس کاموازنہ انٹرنیٹ پر موجود ایسی فحش ویب سائٹس سے کیا جاتا ہے جو اس وقت موجود ہیں یا روزانہ کی بنیاد پر ان میں ہزاروں کا اضافہ ہورہا ہے تو اس رکاوٹ کی وقعت بہت کم رہ جاتی ہے۔ نیزپی ٹی اے کے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری براے انفارمیشن ٹکنالوجی نواب لیاقت علی خان نے یہ بھی اعتراف کیا کہ حکومت پاکستان کے پاس ان ویب سائٹس کو روکنے کا کوئی فول پروف مکینزم موجود نہیں ہے ۔دوسری طرف یہ معاملہ انٹرنیٹ سروس دینے والی مقامی کمپنیوں (ISPs) کے کاروبار سے بھی جڑا ہے۔ ایک ایسی ہی کمپنی کے افسر نے بتایا کہ اس وقت گھروں میں لگے ان کے کنکشنوں پر ۳۰سے ۴۰فی صد افراد فحش مواد تک رسائی چاہتے ہیں۔ اگر وہ ان ویب سائٹس کو بلاک کرتے ہیں تو ان کے کاروبار کو نقصان ہوسکتا ہے۔گویا سرمایہ داری نظام کی سوچ کے عین مطابق حکومت کا کاروبار چونکہ ISPsکے ساتھ وابستہ ہے اور ان کا کاروبار اس قسم کے مواد کی ترویج یا کم از کم اجازت کے ساتھ، لہٰذا اعلانات سے آگے بڑھ کر کوئی بھی عملی اقدامات کرنے کو تیار نہیں۔