شمشاد
لائبریرین
آج ہم جس شخصیت سے آپ کی ملاقات کروانے چلے ہیں یقیناً ہم سے زیادہ آپ انہیں جانتے، پہچانتے ہوں گے کہ ان کی کوکئی ایک حیثیت تو ہے نہیں۔ یہ شاعر ہیں۔۔۔ نثر نگار ہیں۔۔۔ ایک مدیر اخبار ہیں۔۔۔ سنجیدگی بیزار ہیں اور نل جانے کتنی ادبی مجلسوں اور سماجی تنظیموں کے اہل کار ہیں۔۔۔ جب ہم نے پہلے پہل ان کی تحریریں۔۔۔ شگفتہ شگفتہ تحریریں پڑھیں تو نہ جانے کیسے یہ یقین سا ہو گیا کہ یوسف ثانی ان کا قلمی نام ہو گا۔ اور یہ بھی ان کی مزاح نگاری سے محفوظ نہیں رہ سکا ہو گا۔ ہو نہ ہو موصوف۔۔۔ شکل کے مالک ہوں گے۔ تبھی تو نام "یوسف ثانی" رکھ لیا ہے کہ اصلی مزاح نگار وہی ہوتے ہیں جو اپنا مذاق اڑانے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان کی ایک خوبی کا البتہ اندازہ ہوا کہ ناموں کی کتر بیونت کرنے کے کافی شوقین ہیں اور ساتھ ہی خاصے ذہین بھی۔ اب دیکھئے نا معروف ادیبہ سلمیٰ یاسمین نجمی کو تو محض "سین" تک محدود کر دیا ہے۔ جبکہ خود محمد یوسف رضوی کی آڑ میں "میر" بن بیٹھے ہیں۔ گویا دیوان میر پر ہاتھ صاف کر جائیں تو کون انہیں روکنے والا ہے۔ ہم تو شکر کرتے ہیں کہ ہماری والدہ مھترمہ نے ہمارا نام گوہر پروین نہیں رکھ دیا ورنہ ممکن ہے کہ موصوف آج انٹرویو دینے کی بجائے ہمیں "گپ" کہہ کر ٹرخا دیتے تو ہم کیا بگاڑ لیتے میر ثانی صاحب کا، ہمارا مطلب ہے یوسف ثانی صاحب کا۔ ہمارے مختلف سوالوں کے جوابات انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ سوالات کو جوابات کے بین السطور میں تلاش کرنا قارئین کی اپنی ذمہ داری ہو گی۔