انٹیلی جنس گیمز - intelligence games

الف نظامی

لائبریرین
ہمیں ان لوگوں سے زیادہ ہوشیار رہنا چاہیے جو چہرے پر دوستی کا نقاب ڈالتے ہیں ، روزمرہ زبان میں یوں کہہ لیجیے کہ جو اپنے جملے کے شروع، آخر اور درمیان میں "سَر" لگاتے ہیں۔
جو لوگ کھل کر سب کہہ دیتے ہیں وہ کم نقصان دہ ہوتے ہیں بہ نسبت ان لوگوں کے جو بظاہر اچھے اور بے ضرر محسوس ہوتے ہیں لیکن در پردہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔
یہ عجیب سا کھیل ہے۔ مغرب نے اس میں کمال حاصل کیا ہے۔ میں تقربیا ایک سال پہلے ہاوس آف لارڈ میں اسلام پر بات کرنے کے لیے مدعو تھا۔ دو تین بار پہلے بھی انہوں نے مجھے وہاں اسلام پر بات کرنے کے لیے بلایا تھا۔
ایک لارڈ نے مجھ سے پوچھا
"آپ جو ہر وقت یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ اسلام امن کا دین ہے اور دشمن سے بھی محبت کرنا سکھاتا ہے۔ دوسری طرف ہمارا فوجی چلتی سڑک پر ذبح کر دیا گیا۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟"
میں نے عرض کیا
" آپ نے بجا فرمایا۔ میں ذاتی طور پر ہر ملک و مذہب کے فوجیوں کا احترام کرتا ہوں ، ان سے محبت کرتا ہوں کیوں کہ دشمن ملک کا فوجی بھی اس لیے قابلِ احترام ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیے لڑ اور جان دے رہا ہے۔ مجھے اُس ذبح ہونے والے فوجی کے لیے افسوس ہے لیکن یہ کہنے سے پہلے کہ مسلمانوں نے اسے گرا کر ذبح کیا ، گہرائی سے تحقیق ہونا چاہیے۔"
میں نے ان سے کہا
انگریز کا ایک پہلو ایسا ہے جس سے مسلمانوں کا بہت کچھ سیکھنا چاہیے
I take my hats off for that skill
کیوں کہ آپ نے اس skill میں بہت excel کیا ہے۔
میں نے انگریزوں کو انہی کا ایک قصہ سنایا
دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی گوروں کے قابو میں نہیں آ رہا تھا تو گوروں نے جرمنی کو دھوکا دینے کے لیے ایک انٹیلی جنس گیم سوچی ، جرمنی کو دھوکا دینے کے لیے ایک پلان تیار کیا۔ ایک بیماری ایسی ہے جس میں مبتلا انسان مر جائے اور اس کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پانی میں ڈوبنے سے اس کی ڈیتھ ہوئی۔ گوروں نے تمام ہسپتالوں میں ایسے مریض کی تلاش کی۔ بالآخر ایسا مریض مل گیا جو قریب المرگ تھا۔ Hospital انتظامیہ سے درخواست کی گئی کہ اس شخص کی ڈیتھ کے بعد لاش فوری طور پر ہمیں دے دینا۔
دوسری طرف گوروں کی انٹیلی جنس ایجنسی نے ایک پرائمری سکول میں اس شخص کا نام بچے کے طور پر داخل کرایا۔ پھر اس نام سے GCSE کوالیفائی ہوا۔ اس کی فوج میں ریکروٹمنٹ اور کمیشنگ show کی گئی۔ پھر بطور میجر اس کی پروموشن ظاہر کی گئی۔ اس کی ایک گرل فرینڈ show کی گئی جو انٹیلی جنس ایجنسی میں ہی تھی اور اس میجر نے اسے رہنے کے لیے ایک اپارٹمنٹ لے کر دیا ہوا تھا۔ ایک لانڈری شاپ پر اس میجر کے نام کی کپڑوں کی رسیدوں کا ریکارڈ maintain کرایا گیا۔ اسی طرح tailor کے پاس اس کی درزی کی سلائی کا ریکارڈ رکھا گیا۔ اس کی ایک کلب کی ممبر شپ اُس date سے create کی گئی جس date سے فوج میں اُس نے کمیشن حاصل کیا تھا۔ ہر مہینے اس کے بل کی ادائیگی کا ریکارڈ رکھا گیا۔
جیسے ہی اس مریض کی ڈیتھ ہوئی تو انٹیلی جنس ایجنسی نے فورا اُسے لیا۔ اُسے ایک میجر کی یونیفارم پہنائی۔ فوج کا طریقہ ہے کہ اگر افسر کو ایسا بیگ carry کرنا ہو جس میں اہم ڈاکومنٹس ہوں۔ اُس بیگ کے ہینڈل میں ہتھکڑی کا ایک سوراخ ڈالا جاتا ہے جب کہ ہتھکڑی کا دوسرا سوراخ کلائی بیلٹ میں ڈالا جاتا ہے تا کہ اگر کوئی بیگ چھیننا چاہے تو اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے۔ انٹیلی جنس ایجنسی نے اسی طریقے سے بیگ اس کے ہاتھ میں پکڑایا اور two seater ائیر کرافٹ میں اُسے اڑا دیا۔
ناروے اور ڈنمارک ان دنوں غیر جانبدار تھے۔ ان کے ساحلی علاقے سے ڈیڑھ میل پہلے اس جہاز کو سمندر میں گرا دیا گیا۔ پائلٹ کو bail out کر دیا گیا جب کہ میجر کو جہاز ہی میں رہنے دیا گیا۔ ساحل پر موجود کوسٹل گارڈز نے صبح کے وقت گرا ہوا ائیر کرافٹ دیکھا تو دفتر رپورٹ کر دی۔ فورسز آئیں اور ائیر کرافٹ ریکور کر لیا۔
جب یہ بات پھیلی کہ اس ائیر کرافٹ سے برٹش آرمی کے میجر کی لاش ملی ہے تو جرمن ایمبیسی بہت ایکٹو ہوگئی۔ بہت تگ و دو کے بعد اس بیگ میں موجود war plans کی فوٹو کاپی حاصل کر کے جرمنی بھیجی گئی۔ جرمن انٹیلی جنس ایجنسی نے اس document کو examine کیا تو انہیں بہت حیرت ہوئی کہ وہ ایک بڑے حملے کا plan تھا جب کہ جرمن کسی دوسرے پوائنٹ پر حملہ expect کر رہے تھے۔ جرمن انٹیلی جنس ایجنسی میں ایک واحد افسر convinced تھا کہ یہ سب plotted چیزیں ہیں جن کا مقصد جرمن آرمی کو مس گائیڈ کرنا ہے لیکن دیگر آفیسرز نے اس کے ساتھ اتفاق نہ کیا اور انہوں نے ساری فوجیں اصل پوائنٹ سے ہٹا کر فرضی پوائنٹ پر لگا دیں۔ برٹش یہی چاہتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ برٹش آرمی کو فتح ہو گئی اور جنگ کا رخ مڑ گیا۔
میں نے ہاوس آف لارڈز میں یہ قصہ سنایا کہ جس طرح آپ نے مہارت اور خوبصورتی سے انٹیلی جنس گیم کے ذریعے دشمن کو دھوکا دیا ، کیا اسی طرح یہ امکان نہیں کہ آپ کے فوجی کو جن دو صاحبان نے ذبح کیا وہ محض نام کے مسلمان ہوں؟ یہ اسلام کے کسی دشمن نے انٹیلی جنس گیم create کی ہو!
میرا خیال تھا کہ میری اس مدلل بات پر انگریز تلملائے گا نہیں لیکن وہ بری طرح تلملایا اور اس کے غصے کا اظہار اس وقت ہوا جب لیکچر کے آخر میں ایک لارڈ نے مجھ سے کہا
well, you look that bad. why do you come here? why don't you leave us alone.
آج میں موضوع سے ہٹ رہا ہوں کیوں کہ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ چیزوں کو اُسی طرح لیا جاتا ہے جیسے وہ دکھائی دے رہی ہوتی ہیں۔
(نوائے فقیر از سید سرفراز شاہ ، صفحہ 109)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
انڈین انٹیلی جنس را کے ڈائریکٹر نے اپنی کتاب میں بہت سی ایسی انٹیلی جنس گیمز کا ذکر کیا ہے جو انڈیا نے پاکستان کے خلاف کھیلیں۔ ایک گیم یہ بھی تھی کہ انڈین گورنمنٹ نے را کو یہ ٹاسک دیا کہ پاکستانیوں میں war fever پیدا کریں۔ ڈائریکٹر انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ ہم نے بہت study اور سوچ بچار کے بعد 1965ء کی جنگ میں پاکستان آرمی کی طرف سے کیے جانے والے بہادری کے کارناموں کے قصوں کو پاکستانی عوام میں بہت شدت سے ابھارا۔ اس کے بعد ہم نے crush india کے کروڑوں کی تعداد میں سٹکرز چھپوائے اور پاکستانیوں میں تقسیم کر دیے۔ ہر ویگن ، رکشا ، گاڑی ، موٹر سائیکل کے پیچھے crush india کے سٹکرز دکھائی دینے لگے۔ اس war fever سے پاکستانی گورنمنٹ پریشر میں آ گئی اور پاکستان آرمی نے eastern border پر half hearted attack کر دیا۔
معاملات کو سطحی نظر سے دیکھنے کے بجائے ہمیشہ گہرائی اور فراست سے دیکھنا چاہیے۔
آپ ﷺ کا ارشاد ہے "مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور کی مدد سے دیکھتا ہے"
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم مومن ہوں اور ہماری نگاہ معاملے کی تہہ تک نہ پہنچے۔ محض سطحی حد تک محدود رہ جائے؟
(نوائے فقیر از سید سرفراز شاہ ، صفحہ 110)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ایک اور قصہ 1971ء کی جنگ کے دوران انڈین جہاز کا ہے۔ ہم نے اپنی سادہ لوحی سے دشمن کو کشمیری مجاہدین سمجھ لیا۔ ہمارے ایک لیڈر نے ائیر پورٹ جا کر اُن کشمیری مجاہدین کے حق میں دھواں دھار تقریر بھی کر دی۔ اُس سیاسی لیڈر کے visit کے بعد دشمن نے جہاز اڑا دیا۔ ہم ان نام نہاد کشمیری مجاہدین کو کندھوں پر بٹھا کر جلوس نکالتے رہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ انڈین انٹیلی جنس کے ایجنٹ تھے۔
یہ مسلمان کی اپروچ نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ رب کے نور کی مدد سے دیکھنے والا معاملات کو گہرائی تک نہ جانچ سکے؟ اپنے اندر مومن کی فراست پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر سے جذباتیت نکال دیں۔ ہم بہت جذباتی لوگ ہیں۔
(نوائے فقیر از سید سرفراز شاہ ، صفحہ 111)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عنوان سے ایسا لگتا ہے کہ ایسے گیمز کے بارے میں ہے جو انسانی ذہانت بڑھانے میں کارگر ہوتے ہیں ۔ جیسے میموری ڈرلز وغیرہ کے گیمز ہوتے ہیں ۔
انٹیلیجینس گیم پلانز ہو نا چاہیئے نام ۔ شاید ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پروفیسر عبد العزیز کہتے ہیں:
میں نے میٹرک کا امتحان دیا تو پہلی پوزیشن حاصل کی ، ایف اے کیا تو اعزاز کے ساتھ ، بی اے کیا تو وہ بھی اعلیٰ درجے میں ، پھر ایم اے انگریزی میں بھی پوزیشن لی۔ اس کے بعد میں نے فوج میں اپلائی کر دیا۔ بڑی آسانی سے میری سلیکشن ہوگئی۔ کاکول اکیڈمی سے فراغت کے بعد میری پوسٹنگ بلوچ رجمنٹ میں ہوئی۔ یہ نواب آف بہاولپور کی رجمنٹ تھی جو ون یونٹ کے بعد پاک آرمی میں ایمرج ہو گئی۔
ان دنوں یہ رجمنٹ آزاد کشمیر میں تتہ پانی کے قریب کالا دیو کے جنگل میں تعینات تھی۔ اس وقت سیز فائیر لائن کی صورتحال بہت خراب تھی۔ روزانہ بھارتی مورچوں سے آزاد کشمیر کی آبادیوں پر فائرنگ ہوتی تھی۔ جوابا ہم بھی اپنی توپوں کے منہ کھول دیتے جس سے کبھی کبھار تھوڑا بہت جانی نقصان بھی ہوتا۔
ایک رات بھارتی فوجیوں نے سیز فائر لائن کراس کی اور آزاد علاقے میں آ کر اپنی چوکی قائم کر دی۔ دوسرے روز جب ہمیں خبر ہوئی تو ہم نے جوابی تیاریاں شروع کر دیں۔ حالات بہت خطرناک صورت اختیار کر رہے تھے جس سے خدشہ تھا کہ کہیں یہ جھڑپیں پورے علاقے کو جنگی لپیٹ میں نہ لے لیں۔ اسی شام میں ٹہلتا ٹہلتا دشمن نے علاقے میں چلا گیا۔ ادھر سے میرے پیروں میں فائرنگ کی گئی تو میں نے ہاتھ اوپر اٹھائے اور تیزی سے بھارتی مورچوں کی طرف بڑھنے لگا۔ یہ دیکھ کر ایک ہندو میجر نے میگا فون پر مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو اور ادھر کیوں آ رہے ہو؟ میں نے چیخ کر کہا میرا نام "رام لعل" ہے۔ میں انڈین انٹیلی جنس میں آفیسر ہوں اور آفیشل ڈیوٹی پر پاکستان گیا تھا۔ اب دشمن کے قیمتی راز چرا کر لایا ہوں۔
یہ سن کر میجر مورچے سے باہر آ گیا اور میری تلاشی لے کر مجھے کیمپ میں لے گیا جہاں مجھے میس کے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔
ساتھ ہی میری شناخت کے لیے دہلی پیغام بھیج دیا گیا۔ یہ ایک بہت خطرناک کھیل تھا جس میں میری جان جانے کا سو فیصد امکان تھا لیکن ایک غیر مرئی قوت میرے ساتھ تھی۔ اس وقت مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ لوگ میرا بال بیکا نہیں کر سکتے۔
شام کو ڈائننگ ہال میں لایا گیا۔ ہال ہندو آفیسرز سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے بریگیڈ کمانڈر کے سامنے بٹھا دیا گیا۔ اس نے دیکھتے ہی میرا انٹرویو شروع کر دیا۔ اس کے لہجے سے یوں محسوس ہوا جیسے اس کو میری اصلیت کا علم ہو چکا ہے۔ لہذا میں نے مزید جھوٹ بولنے یا رسک لینے کے بجائے نیپکن کھولتے ہوئے کہا
میرا نام کیپٹن عزیز ہے نائنتھ عباسیہ بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھتا ہوں اور میں آپ لوگوں سے مذاکرات کرنے آیا ہوں۔
میرے اس انکشاف سے جونیئر آفیسرز کے ہاتھوں سے چمچ پھسل کر پلیٹوں میں گر گئے اور وہ غصے سے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے۔ بریگیڈیر نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بیٹھنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی سالن کا ڈونگا میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ، میرا نام بریگیڈیر جسونگ سنگھ ہے۔ تم سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ کہاں کے رہنے والے ہو۔ میں نے ڈونگا پکڑتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہا "چکوال"
"ہوں"
بریگیڈیر نے ہنکار بھرا اور کہا پھر تو تم میرے گرائیں ہوئے۔ میں "بھون" کا رہنے والا تھا تقسیم کے بعد ادھر آ گیا۔ اب چکوال کیسا ہے؟ اور پھر اس کے ساتھ ہی چکوال کی باتیں شروع ہو گئیں۔ بریگیڈیر جسونگ سنگھ اپنی جنم بھومی کے سلسلے میں بڑا جذباتی تھا۔ وہ تقریبا گھنٹہ بھر اپنے بچپن ، اپنی سکول لائف ، پھر اپنے کیرئیر کے ابتدائی دنوں اور اپنے پرانے دوستوں کی باتیں کرتا رہا۔ میں درمیان میں اسے ٹوک کر نئی صورتحال کے بارے میں مطلع کرتا رہا۔ کھانے کے بعد ہم نے چائے پی پھر وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گیا۔ وہاں بھی یہی گپ شپ ہوئی۔ رات گئے جب ہم اپنے اصل ٹاپک پر آئے تو میں نے اسے سیز فائر لائن کی صورتحال ، بھارتی قبضے اور اس کے نتائج کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا۔ جس سے اس نے اتفاق کرتے ہوئے اپنے جوانوں کو پرانی پوزیشن پر لانے کی یقین دہانی کرا دی۔ دوسرے روز مجھے باعزت طریقے سے واپس بھیج دیا گیا۔ میں اپنی یونٹ واپس آیا تو مجھے فورا گرفتار کر لیا گیا۔ پھر ایک لمبا ٹرائل ہوا جس میں ، میں نے ساری واردات کھول کر بیان کر دی۔ چند روز بعد جب بھارتی دستے پسپا ہو کر پرانی پوزیشنوں پر چلے گئے تو میرے سینئرز کو میری بات پر یقین آ گیا۔ لہذا میری رپورٹ جی ایچ کیو بھیج دی گئی جہاں سے 23 مارچ 1960 کو میری پروموشن کا آرڈر آ گیا۔ میں میجر ہو کر ایجوکیشن کور میں چلا گیا تھا۔
( متاع فقیر ، اہل اللہ کی باتیں اور ملاقاتیں از ڈاکٹر تصدق حسین ، صفحہ 214 )
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
حضرت مولانا میر مقصود علی خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا قلب بھی سیاسی بصیرت سے لبریز تھا۔ جس زمانہ میں آپ ہائی اسکول پربھنی میں برسرِکار تھے ایک واعظ صاحب پربھنی پہنچے اور ایک مسجد میں ایسی تقریر کی کہ مسلمان دو حصوں میں بٹ گئے اور جھگڑے کی نوبت آگئی۔ اسی دن شام میں اس عالم کی آمد پر حاکم ضلع نے مختلف حکام اور علماء کو کھانے پر جمع کیا۔ جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے اور مختلف مسائل پر باہم گفتگو ہونے لگی تو مولانا علیہ الرحمۃ نے اس عالم سے سوال کیا کہ پچھلے ستر سال قبل یمن کے چند یہودی گھرانے ملک شام منتقل ہوئے ہیں ، کیا ان گھرانوں سے آپ کا تعلق ہے؟
اس عالم نے تاڑ لیا کہ میرا راز فاش ہوگیا۔ دوسرے دن صبح ہوئی تو وہ عالم صاحب لاپتہ ہوگئے۔
مولانا علیہ الرحمۃ کی سیاسی بصیرت تھی کہ انگریز اپنے دور میں قوم میں انتشار پیدا کرنے کی خاطر جاسوس تیار کرتے اور جس قوم کا جاسوس ہوتا ، ان کے مذہب ، تہذیب ، زبان پر عبور حاصل کرتا اور ان کے مذہبی قائد کی حیثیت سے ایسی باتیں کرتا کہ آپس میں فساد ہو جائے۔
( تذکرہ حضرت محدثِ دکن صفحہ 612 )
 
Top