زندگی کے سفر کو بُرا نہ کہو یہ سفر بھی اُسی طرح کاہے جوہم اکثر و بیشتر کر رہے ہوتے ہیں کار، بس، ٹرین یا ہوائی جہاز کاسفر ۔۔ ہر گزرتا لمحہ وقت کی دھند میں گُم ہو رہا ہے اور آنے والے وقت پر نظریں جمی ہیں سفر کو آسان بنانے کے لئے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے اور بہت احتیاط سے ہر قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ ہم ٹریفک قوانین
کی کتنی پابندی کرتے ہیں جبکہ وہ سفر تو بہت چھوٹا سا ہوتا ہے۔ گاڑی آپ خود چلا رہے ہوں تو اور بھی احتیاط کرتے ہیں سامنے والی گاڑی کے انڈیکیٹر پر ہر پل نظر رہتی ہے جہاں توجہ بٹی وہیں سامنے والی گاڑی سے جا ٹکرائے۔ ضروری ہے کہ راستے کی دشواریوں کا آپ کو بخوبی علم ہو جبھی سفر سہولت سے کٹے گا ورنہ کوئی بہت خوفناک حادثہ آپ کے لئے ایک خوفناک یادگار کی صورت زندہ رہ جائے گا ۔ جب ہم سفر کر رہے ہوتے ہیں تو ہر منظر یکساں رفتار سے پیچھے کی طرف بھاگ رہا ہوتا ہے۔اور دُور ہوتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوجاتاہے۔ ہمارا ہر گزرتا لمحہ بھی ویسا ہی ہے ابھی گزرا تو یاد ہے کچھ دن گزرتے ہی دھندلانے لگتا ہے اور آخر کار ہمیشہ کے لئے محو ہوجاتا ہے! بھولا بسرا ماضی بن جاتا ہے ۔ ماضی وقت کی وہ دھنُد ہے جس میں وقت ہلکا ہلکا جھلکتا دِکھائی دیتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دھندلاہٹ بڑھتی ہی جاتی ہے وقت کے نقوش مدھم پڑتے جاتے ہیں اورآخر کار مٹ ہی جاتے ہیں ماسوائے اُ ن کے جو ہمارے لئے امتحان ثابت ہوئے یا پھروہ بے انتہاخوشی کے لمحات جو ذہن پر ہمیشہ کے لئے نقش ہو گئے۔ گاڑی میں سفر کے دوران منزل پر نظر ہوتی ہے کہ کب یہ سفر کٹے اور منزلِ مقصود پر پہنچ جائیں۔سفر کرتے ہوئے وہی چیزیں یاد رہ جاتی ہیں جو کچھ خاص حیثیت رکھتی ہیں جیسے بلند و بالا عمارت، کوئی عجیب الخلقت شے یا کوئی انہونی بات یا واقعہ جو تا دیر ہمارے ذہن پرچھایا رہتا ہے ۔ہم راستے میں گزری ہوئی کسی عام شے کو خاطر میں یوں نہیں لاتے کہ یہ تو گزر جائے گا ہمارا اس سے کیا واسطہ! لیکن اگر اسی راستے سے واپسی کے سفر کا بھی امکان ہو تو ہم غور کرتے ہیں اور واپسی کی نشانیاں باندھتے چلتے ہیں کہ واپسی میں آسانی رہے ۔ ہم پیدل سفر کرتے میں بھی راستے کی دیکھ ریکھ کرتے چلتے ہیں راستے کی کیچڑ سے دامن بچاتے چلتے ہیں نجاست کے ڈر سے بے ڈھنگی چال بھی گوارا کر لیتے ہیں کہ کہیں لباس داغدار نہ ہو جائے۔ لیکن زندگی کے سفرکا معاملہ فزوں تر ہے ہمیں اس پر واپس بھی نہیں آنا پر خیال بھی رکھنا ہے احتیاط بھی کرنی ہے۔ ہمیں زندگی گزارنے کے لیے بھی انڈیکیٹرز دیئے گئے ہیں مگر ہم ان پر کما حقہ توجہ نہیں دیتے اورآخر کار بدی کی گاڑی سے جا ٹکراتے ہیں کوئی نہیں جانتا کہ اُس کی زندگی کا کتنا سفر باقی ہے اور کب تمام ہو جائے گا ۔ ’’سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں ‘‘۔ انسان ساری زندگی وہ کچھ جمع کرتا رہتا ہے جو وہ اپنے ساتھ لے جا نہیں سکتا اور جو لے جا سکتا ہے اُس کی پروا نہیں کرتا۔ دونوں ہاتھوں سے اِتنا سمیٹتا ہے کہ گھر بھر جاتا ہے پر عجیب بات یہ ہے کہ ہاتھ پھر بھی خالی ہی رہتے ہیں۔ اُس اَن دیکھے خزانے پر اُس کی نظر ہی نہیں پڑتی جو اُس کے بالکل سامنے پڑا ہوتا ہے وہ چاہے تو اُسے پل بھر میں پا لے جِس میں اُسے کسی قسم کا آگ کا دریا بھی پا ر نہیں کرنا، کوئی کشٹ بھی نہیں کاٹنا، لوگوں کی بُری بھلی بھی نہیں سُننی! بس دنیا کی غلاظت سے اپنے آپ کو بچانا ہی تو ہے۔کیا ہم اتنی مشقت کے روادار بھی نہیں! ؟ ہم اپنے چھوٹے سے سفر کی تو اتنی احتیاط کرتے ہیں پر زندگی کے طویل سفر پر چلنے کے اشارے ہمیں یاد نہیں رہتے جو حدود ہمارے لیے متعین کر دی گئی ہیں اُن کا خیال نہیں کرتے۔ وہ راستہ کیوں اختیار نہیں کرتے جس میں ہر طرف عزت ہی عزت اور دونوں جہاں میں سربلندی ہے ہم اس منزل کے لیے اپنی بہترین کوشش کیوں نہیں کرتے جس کا راستہ ہمیں بتا دیاگیا ہے! اور ہر سمت میں انڈیکیٹر ز لگادیئے گئے ہیں، کہ ہماری منزل آسان ہو۔ اگر ہم خلوص سے اُس راستے پر چل پڑیں تو منزل پر یقین اور بھی بڑھ جائے گا اور راستہ بھی آسان لگے گا ۔یہ سارے خزانے اُس کے بتائے ہوئے راستے پر بے مول ہی مل جاتے ہیں ۔زندگی کا سفر کتنا آسان اور خوشگوار ہوجائے اگر ہم دکھوں پر صبر کریں اور ہر حال میں اُس کا شکر کریں ۔
گُل بانو