Aasim Shams Aasim
معطل
’التجا‘
خلق تو نے،
کیا ہے مجھے،
اور کیا تیری تخلیق،
مٹی میں رل جانے کے لیے ہوگی؟
(تو پھر)
مجھے ترتیب پھر سے دے،
(کہ جس طرح سے سازندے،
بگڑے سازوں کو،
ترتیب نو بخشتے ہیں)
کہ مرا انجام سبک روی سے،
میری جانب بڑھ رہا ہے،
قضاء اور میں،
اک دوجے کی جانب،
بانہیں پھیلائے دوڑے جاتے ہیں،
مرا مسرت انگیز ماضی،
محض کل کی بات لگتا ہے،
اور میں،
اپنی ٹمٹماتی آنکھوں سے،
کہیں اور دیکھ پانے کا،
تصور تک کر نہیں سکتا،
کہ،
رفتگاں میں مایوسی،
اور فردا میں اجل،
وہ قہر آلود نگہ،
مجھ پہ ڈالتی ہیں،
کہ شدت خوف سے،
مرے وجود کا تعفن زدہ گوشت،
جھڑ جھڑ کے گرے جاتا ہے،
اور یہ متعفن وجود،
گناہوں کا وزن لیے،
جہنم کے ابدی گڑھے کی طرف،
جھکے جاتا ہے،
تو پھر،
آسماں کی رفعتوں میں
مری امیدوں کا دیا،
صرف تو ہے،
اور جب جب تری رضا سے،
میں تری جانب نگہ کر پاتا ہوں،
صرف جب ہی،
قعر مذلت میں ایڑیاں گھستا،
مری امیدوں کا لاشہ،
سر اٹھا پاتا ہے،
مگر وہ راندہِ درگاہ،
مرا غنیم ازل،
نت نئے حیلوں سے،
اس اس طرح،
اکساہٹوں کے وارکرتا ہے،
کہ،
اک ساعت بھی
اس کے وار سہہ پانا،
قیامت ہے،
تو پھر کاش،
تری رحمت کے بال و پرمجھ کو،
اس کی عیاریوں سے ورے،
اڑا لیے چلے جائیں،
اور تو،
کسی آہن ربا کی مثل،
مرے قلب چمقاق کو،
خود میں کشش کر لے۔۔۔
مترجم: عاصمؔ شمس
خلق تو نے،
کیا ہے مجھے،
اور کیا تیری تخلیق،
مٹی میں رل جانے کے لیے ہوگی؟
(تو پھر)
مجھے ترتیب پھر سے دے،
(کہ جس طرح سے سازندے،
بگڑے سازوں کو،
ترتیب نو بخشتے ہیں)
کہ مرا انجام سبک روی سے،
میری جانب بڑھ رہا ہے،
قضاء اور میں،
اک دوجے کی جانب،
بانہیں پھیلائے دوڑے جاتے ہیں،
مرا مسرت انگیز ماضی،
محض کل کی بات لگتا ہے،
اور میں،
اپنی ٹمٹماتی آنکھوں سے،
کہیں اور دیکھ پانے کا،
تصور تک کر نہیں سکتا،
کہ،
رفتگاں میں مایوسی،
اور فردا میں اجل،
وہ قہر آلود نگہ،
مجھ پہ ڈالتی ہیں،
کہ شدت خوف سے،
مرے وجود کا تعفن زدہ گوشت،
جھڑ جھڑ کے گرے جاتا ہے،
اور یہ متعفن وجود،
گناہوں کا وزن لیے،
جہنم کے ابدی گڑھے کی طرف،
جھکے جاتا ہے،
تو پھر،
آسماں کی رفعتوں میں
مری امیدوں کا دیا،
صرف تو ہے،
اور جب جب تری رضا سے،
میں تری جانب نگہ کر پاتا ہوں،
صرف جب ہی،
قعر مذلت میں ایڑیاں گھستا،
مری امیدوں کا لاشہ،
سر اٹھا پاتا ہے،
مگر وہ راندہِ درگاہ،
مرا غنیم ازل،
نت نئے حیلوں سے،
اس اس طرح،
اکساہٹوں کے وارکرتا ہے،
کہ،
اک ساعت بھی
اس کے وار سہہ پانا،
قیامت ہے،
تو پھر کاش،
تری رحمت کے بال و پرمجھ کو،
اس کی عیاریوں سے ورے،
اڑا لیے چلے جائیں،
اور تو،
کسی آہن ربا کی مثل،
مرے قلب چمقاق کو،
خود میں کشش کر لے۔۔۔
مترجم: عاصمؔ شمس