نور وجدان
لائبریرین
انہماک کا کوئی قاعدہ ہوتا ہے؟ انہماک گہرائی پیدا کرنے سے وجود میں آتا ہے. جب بچہ نَیا نَیا اسکول جاتا ہے تو اسکو حروفِ تہجی کی ابجد کا علم نَہیں ہوتا ہے . اک اچھا استاد حروف تہجی کے تصور کی گہرائی ذہن میں پیدا کرتا ہے. وہ "گانے " کی، tracing کی، mimes اور حروف تہجی کی کردار نگاری کرتے گہرائی پیدا کرتا ہے. بچہ کے اندر جیسے گہرائی پیدا ہوجاتی ہے، اسکا انہماک پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں. اسکو ہم "دھیان "کی قوت بھی کہتے ہیں. جدید تعلیمی نظام میں پڑھانے کے انداز میں جدت جس قدر پیدا ہوئی ہے، اسی قدر ماضی میں دھیان کی قوت (cram)رٹے سے لگواتے پیدا کی جاتی ہے. رٹے سے انہماک تو پیدا ہوجاتا ہے مگر گہرائی پیدا نَہیں ہوتی اور انسانی سوچ سطح پر رہتی ہے. اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری بچے جب کسی فیلڈ میں جاب کرنے جاتے ہیں، وہ کچھ عمدہ کر نہیں پاتے. تعلیمی نظام کا اصل مقصد گہرائی اور انہماک پیدا کرنا ہے تاکہ سوچنے کی قوت سے بچہ تعلیمی مدارج طے کرسکے.
قران پاک کو بھی ہم گہرائی اور انہماک کی قوت سے سمجھتے ہیں. اکثر میں ٹی وی پروگرامز میں دیکھتی ہوں کہ انہماک "اللہ ھو " کی ضرب لگوا کے پیدا کیا گیا ... اک مخصوص تعداد میں اوراد اذکار کرنے سے اللہ تک پہنچنے کی سعی کا نقطہ سمجھایا گیا ... میرے نزدیک یہ رٹا ہے، ایسا رٹا جو ہمیں اللہ کے قریب تو لے جاتا ہے مگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو صلب کرلیتا ہے.
اس بات کی وضاحت میں اسطرح سے کرسکتی ہوں. اللہ اک خیال واحد ہے اور اس خیال واحد سے ننانوے ذیلی خیالات نکلتے ہیں. ان ننانوے خیالات نے کائنات کی تنظیم و تعمیر، کاروبار کائنات کو چلائے رکھنے میں کردار ادا کیا ہوا ہے. اللہ نے جب سوچا کہ کائنات تخلیق کی جائے تو اس کے ارادے کی قوت نے خیال کی تجسیم کردی. یہ ارادے کی قوت ان ننانوے ناموں کی خصوصیات لیے ہوئے ہے. چنانچہ ہر تخلیق میں اس کے چند ناموں کی اک مخصوص صلاحیت جمع ہے. ہمیں خود وہ صلاحیتیں پہنچاننی ہیں تاکہ ہم اپنے منبع خیال سے اس تک پہنچ سکیں ..اللہ تک پہنچنے کے لیے، خود پہ غور و فکر کرنا لازم ہے. میں کس لیے پیدا کیا گیا؟ میرے اندر کونسی صلاحیتیں ہیں ...یہ صلاحیتیں ہماری گہرائی میں چھپی ہیں .. اس کے لیے ہم میں گہرائی کا پیدا ہونا ضروری ہے ...اللہ کا تصور یا تصوارت ہمیں درون میں ابھارنے ہیں تاکہ ان احساسات سے اللہ کو ھو الشاھد سے ھو الشہید تلک کے مراحل تک جان سکیں.
اللہ پاک نور ہے..سورہ النور میں اس نے یہی فرمایا ہے کہ
اللہ نور السماوات والارض
اللہ آسمانوں زمین کا نور ہے
نور کیا ہے؟ نور مثبت سوچ ہے ..مثبت سوچ احساس تشکر سے ابھرتی ہیں، یہ اسکے امر میں راضی رہنے سے ابھرتی ہے، یہ قربانی، ایثار، رواداری جیسے جذبات سے پنپتی ہیں ...اس نور کو ہم خود میں خود پیدا کرسکتے ہیں اگر اسکے دیے گئے غموں پر راضی ہوجائیں اور اسکی دی گئ نعمتوں کے بارے میں سوچنے میں زیادہ وقت صرف کردیں ..
دلوں میں نور کا پیدا ہونا اس بات پر شاہد ہوتا ہے کہ ہم نے اللہ کی سوچ /تخییل سے خود کو ملالیا ہے. یہ گہرائی کا پیدا ہوجانا خود انہماک پیدا کرتا ہے. قران پاک میں جگہ جگہ ہمیں غور و فکر کی ہدایت کی گئی ہے. ہمیں کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ ماسوا ایمانیات کو نکال کے غور و فکر چھوڑ دو. بلکہ یہ کہا گیا کہ ہر بات میں آیت ہے، ہر چیز اسکی نشانی ہے. ہمیں اسکی کائنات کی ہر شے سے اپنے ساتھ ربط پیدا کرنا ہے ...
ربط پیدا کس طرح کیا جاتا ہے؟ ہم کبھی درختوں کے پاس بیٹھ کے سکون محسوس کرنے لگتے ہیں تو کبھی ہمیں غاروں میں سکون ملنے لگتا ہے، غرض اس کی جتنی آیات ہیں ان سے سکون کا رشتہ تلاشنا ہے. انسانوں سے انسانوں کا ربط بھی اس سکون کے رشتے تلاشنے کی غرض سے ہونا چاہیے
جب ہم مظاہر سے ہوتے، اسکی آیات سے ربط پیدا کرتے قران پاک پڑھتے ہیں تو اسکے کلام سے ہمارے اعمال سیدھے ہونے لگتے ہیں، احکامات کو عمل کرنے میں آسانی پیدا ہونے لگ جاتی ... ہمارا مقصد حیات یہی ربط ہے، یہی آسانی ء عمل ہے، یہی سوچ کا سوچ سے ربط ہے ..یہی قران پاک پڑھنے کا طرز ہے جو مومن کے درجے پر فائز کردیتا ہے
نور
قران پاک کو بھی ہم گہرائی اور انہماک کی قوت سے سمجھتے ہیں. اکثر میں ٹی وی پروگرامز میں دیکھتی ہوں کہ انہماک "اللہ ھو " کی ضرب لگوا کے پیدا کیا گیا ... اک مخصوص تعداد میں اوراد اذکار کرنے سے اللہ تک پہنچنے کی سعی کا نقطہ سمجھایا گیا ... میرے نزدیک یہ رٹا ہے، ایسا رٹا جو ہمیں اللہ کے قریب تو لے جاتا ہے مگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو صلب کرلیتا ہے.
اس بات کی وضاحت میں اسطرح سے کرسکتی ہوں. اللہ اک خیال واحد ہے اور اس خیال واحد سے ننانوے ذیلی خیالات نکلتے ہیں. ان ننانوے خیالات نے کائنات کی تنظیم و تعمیر، کاروبار کائنات کو چلائے رکھنے میں کردار ادا کیا ہوا ہے. اللہ نے جب سوچا کہ کائنات تخلیق کی جائے تو اس کے ارادے کی قوت نے خیال کی تجسیم کردی. یہ ارادے کی قوت ان ننانوے ناموں کی خصوصیات لیے ہوئے ہے. چنانچہ ہر تخلیق میں اس کے چند ناموں کی اک مخصوص صلاحیت جمع ہے. ہمیں خود وہ صلاحیتیں پہنچاننی ہیں تاکہ ہم اپنے منبع خیال سے اس تک پہنچ سکیں ..اللہ تک پہنچنے کے لیے، خود پہ غور و فکر کرنا لازم ہے. میں کس لیے پیدا کیا گیا؟ میرے اندر کونسی صلاحیتیں ہیں ...یہ صلاحیتیں ہماری گہرائی میں چھپی ہیں .. اس کے لیے ہم میں گہرائی کا پیدا ہونا ضروری ہے ...اللہ کا تصور یا تصوارت ہمیں درون میں ابھارنے ہیں تاکہ ان احساسات سے اللہ کو ھو الشاھد سے ھو الشہید تلک کے مراحل تک جان سکیں.
اللہ پاک نور ہے..سورہ النور میں اس نے یہی فرمایا ہے کہ
اللہ نور السماوات والارض
اللہ آسمانوں زمین کا نور ہے
نور کیا ہے؟ نور مثبت سوچ ہے ..مثبت سوچ احساس تشکر سے ابھرتی ہیں، یہ اسکے امر میں راضی رہنے سے ابھرتی ہے، یہ قربانی، ایثار، رواداری جیسے جذبات سے پنپتی ہیں ...اس نور کو ہم خود میں خود پیدا کرسکتے ہیں اگر اسکے دیے گئے غموں پر راضی ہوجائیں اور اسکی دی گئ نعمتوں کے بارے میں سوچنے میں زیادہ وقت صرف کردیں ..
دلوں میں نور کا پیدا ہونا اس بات پر شاہد ہوتا ہے کہ ہم نے اللہ کی سوچ /تخییل سے خود کو ملالیا ہے. یہ گہرائی کا پیدا ہوجانا خود انہماک پیدا کرتا ہے. قران پاک میں جگہ جگہ ہمیں غور و فکر کی ہدایت کی گئی ہے. ہمیں کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ ماسوا ایمانیات کو نکال کے غور و فکر چھوڑ دو. بلکہ یہ کہا گیا کہ ہر بات میں آیت ہے، ہر چیز اسکی نشانی ہے. ہمیں اسکی کائنات کی ہر شے سے اپنے ساتھ ربط پیدا کرنا ہے ...
ربط پیدا کس طرح کیا جاتا ہے؟ ہم کبھی درختوں کے پاس بیٹھ کے سکون محسوس کرنے لگتے ہیں تو کبھی ہمیں غاروں میں سکون ملنے لگتا ہے، غرض اس کی جتنی آیات ہیں ان سے سکون کا رشتہ تلاشنا ہے. انسانوں سے انسانوں کا ربط بھی اس سکون کے رشتے تلاشنے کی غرض سے ہونا چاہیے
جب ہم مظاہر سے ہوتے، اسکی آیات سے ربط پیدا کرتے قران پاک پڑھتے ہیں تو اسکے کلام سے ہمارے اعمال سیدھے ہونے لگتے ہیں، احکامات کو عمل کرنے میں آسانی پیدا ہونے لگ جاتی ... ہمارا مقصد حیات یہی ربط ہے، یہی آسانی ء عمل ہے، یہی سوچ کا سوچ سے ربط ہے ..یہی قران پاک پڑھنے کا طرز ہے جو مومن کے درجے پر فائز کردیتا ہے
نور