راشد اشرف
محفلین
سندھ اور پنجاب کی سرحد پر واقع قصبہ محمد آباد، تحصیل صادق آباد، ضلع رحیم یار خان۔۔۔۔۔ یہاں ہوتے ہیں سید انیس شاہ جیلانی جن کی کتاب "سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان" کے مطالعے کے بعد راقم الحروف بے اختیار ان سے ملاقات کی غرض سے نکل کھڑا ہوا تھا۔ یہ بات ہے سن 2005 کی کہ جب آتش ‘نادان‘ تھا اور اس نادانی میں مظفر گڑھ سے ایک رات محمد آباد کا پر خطر سفر محض اس لیے اختیار کیا کہ شاہ صاحب کے درشن کیے جائیں. انہی دنوں انیس صاحب کا ایک طویل خط ارشاد احمد حقانی مرحوم اپنے کالم میں من و عن بعنوان ‘ایک ناراض بزرگ کا خط‘ شائع کرچکے تھے.
تحصیل صادق آباد، ضلع رحیم یار خان اور دھول اڑاتا محمد آباد نامی قصبہ۔۔۔۔۔۔
ویرانے میں ایک دیوانے کا خواب مبارک لائبریری کی شکل میں ایستادہ نظر آیا
سید انیس شاہ جیلانی 23 اکتوبر 1937 کو محمد آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ سن 1926 میں ان کے والد سید مبارک شاہ جیلانی نے محمد آباد میں "مبارک لائبریری" قائم کی۔ لق و دق صحرا جہاں اردو بولنے والا تو کجا، ٹھیک سے سمجھنے والے بھی یکسر ناپید تھے ۔
انیس اپنے والد کے بارے میں لکھتے ہیں:
""اونچی آواز میں بہت کم بولتے تھے۔ ۔۔۔غصہ پینے میں بلا نوش تھے۔ ۔۔۔بڑا بیٹا پرلے درجے کا نافرمان خود سر خود رائے بالکل الگ تھلگ ۔ مگر کماؤ اور محنتی، اس سے غرض نہیں تھی ، چالبازی سے روپیہ بٹورتا ہے۔ یا چور بازاری سے ۔ مرحوم کی طمانیت کے لیے یہی کافی تھا کسی کا دست نگر نہیں ہے خود کماتا اور لٹاتا ہے۔ ۔۔۔تقسیم ملک کے خلاف تھے مگر جب پاکستان بن گیا تو فلاح وبہبود کا بڑا خیال تھا۔ ۔۔۔جوانی بڑھاپے میں وزن قریب دو من دو سیر سے نہ گھٹا نہ بڑھا۔ بتیسی ہم نے ان کی دیکھی ہی نہیں ۔ اتنا ضرور تھا کہ ایک ہی داڑھ رہ گئی تھی ، جس پر وہ پیسٹ اور برش گھسا کرتے تھے۔ ۔۔۔سندھی اور سرائیکی مادری پدری زبانیں تھیں مگر وہ مرحوم اول و آخر اُردو تھا۔ ۔۔۔وہ چاہتے تھے ضلعی صدر مقام رحیم یار خاں میں سرکاری سرپرستی میں دارالمصنفین اعظم گڑھ کی وضع کا ادارہ اگر قائم کردیا جائے تو پورا کتب خانہ نذر کردیں گے۔ ۔۔۔ایک ڈپٹی کمشنر جناب غلام فرید خاں نے حاتم کی قبر پر بارہ مربع فٹ زمین دکھا کر دولتی جھاڑ تو دی تھی۔ غالباً لائبریری کے نام سے وہ بجھکڑ سمجھے یہ کوئی اکنی دونی کمانے کا چکر ہے۔ ایک عظیم علمی ادارے کے تصور کا متحمل ایک سرکاری دماغ کیونکر ہوسکتا تھا۔ ایسی خفتہ ملت پر لعنت کے سوا اور کیایا کہا جاسکتا ہے۔ ۔۔۔انھوں نے جوانی کو لٹایا بھی تو اس انداز سے کہ کسی کو کانوں کان خبرنہ ہوئی ۔ بدنام نہیں ہوئے۔ ۔۔۔ایک ہی خادمہ کو آواز دیتے تھے اور بھی تھیں مگر چونکہ اس کے نام کا صوتی اثر اچھا تھا اسی لیے کسی اور کو نہ بلاتے۔"
اردو ادب میں انیس شاہ جیلانی کی پہچان ایک غصہ آور ادیب کی سی ہے، لہجہ تیکھا اور جذبات سے عاری، تنقید ایسی کہ پیشانیاں بھیگ جائیں۔ عمر کچھ ایسی زیادہ نہیں تھی کہ جب اردو زبان سے محبت کرنے والے ان کے ابا نے ان کو زبان سکھانے کی غرض سے "اہل زبان"کے حوالے کردیا۔
رئیس امروہوی، صادقین،جون ایلیا، زاہدہ حنا اور شکیل عادل زادہ ۔ ۔ ۔ انہی شخصیات کے وہ قریب رہے، انہی کی باتیں کرتے رہے، اور جب انہی میں سے کچھ کے خاکے لکھے تو قلم میں مروت نام کی کوئی چیز پڑھنے والے نے نہ دیکھی۔ لہجے میں نہ جانے کہاں سے ایسی بے باکی در آئی کہ وہ لکھے اور شوق سے پڑھا کرے کوئی ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے ان کے جن پر خاکے لکھے گئے تھے۔ ۔ کتاب کا نام تھا "آدمی غنیمت ہے"۔
نیاز فتح پوری اور رئیس احمد جعفری ان کے آئیڈیل تھے
لیکن صاحبو! یہاں ذکر تو ہے "سفرنامہ مقبوضہ یہندوستان" کا جس کی انٹرنیٹ پر شمولیت کی غرض سے راقم نے شاہ صاحب سے گزشتہ دنوں رابطہ کیا تھا اور گفتگو کچھ یوں رہی تھی:
" لائیے شاہ صاحب، اجازت دیجیے کہ اس کتاب کو دیگر لوگوں تک دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا دوں۔"
شاہ صاحب نے جواب ایسا حوصلہ افزا دیا کہ جی خوش ہوگیا۔ کہا "جیسے چاہیں استعمال کریں، جو سلوک چاہیں کریں، چاہیں تو شائع کردیں ۔ ۔ اور اس کا ہوگا ?"
"جی کس کا" ?
" آدمی غنیمت ہے" کو بھی اسی زمرے میں شمار کیجیے۔
آدمی غنیمت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کتاب جس میں موجود زاہدہ حنا کا خاکہ ایسا ہے کہ کسی اگر شاہ صاحب اسے کسی تقریب میں پڑھ دیتے تو زاہدہ خاتون پر وہ گزرتی جو شاید احمد بشیر کے اس خاکے کو سن کر کشور ناہید پر بھی نہ بیتی ہوگی جسے انہوں نے بھری محفل میں "چھپن چھری" کے عنوان کے تحت پڑھا تھا۔
میں نے مناسب سمجھا کہ اس مقام سے آگے ہی بڑھ جایا جائے۔
پھر یوں ہوا کہ ان کا 17 اپریل، 2013 کو لکھا اجازت نامہ موصول ہوا جو کتاب کے ہمراہ شامل کردیا گیا ہے۔ اجازت کے ساتھ لکھتے ہیں "وہ کیا کہتے ہیں، اسکین کرنا کہتے ہیں یا کیا کہتے ہیں"
اک ذرا آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کرتا چلوں کہ مذکورہ سفرنامے کو راقم کی ذاتی پسند سمجھا جائے، اس کے مطالعے کے بعد قارئین کے کیا تاثرات ہوں گے، اس کا فیصلہ ان پر چھوڑتا ہوں۔
محض پرائمری تک تعلیم پانے والے انیس شاہ جیلانی کی دیگر تصنیفات میں شامل ہیں نوازش نامے، خطوط(غلام رسول مہربنام انیس) مبارک شاہ کے نام، محفلے دیدم ازحیرت شملوی مرتبہ انیس شاہ جیلانی، ہندوستان کا بن تیمیہ، دھرتی مانگے دان ازجام ساقی‘سندھی سے ترجمہ انیس، کاغذی پیرہن، مہانڈراڈیکھنس(سرائیکی)خاکے۔ مڑدنگ(م ڑ د ن گ) سرائیکی) خاکے
انیس شاہ جیلانی نے ہندوستان کا سفر 1982 میں کیا تھا، رئیس امروہوی، کراچی کے ایک شاعر اختر فیروز اور کراچی سے تعلق رکھنے والے تاجر محمود ان کے ہمسفر تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ایک موقع پر انیس سخت رنجیدہ ہوئے اور دلی میں بقیہ ساتھیوں سے علاحدہ ہوگئے۔ دل غم کی شدت سے بوجھل تھا، اوسان خطا اور جذبات پژمردہ ۔ ۔۔ واپسی پر ساری تلخی تحریر میں امڈ آئی۔
زیر نظر سطور کو قلمبند کرنے کے دوران راقم نے 22 اپریل 2013 کو انیس شاہ جیلانی سے دوبارہ رابطہ کیا۔
میرا سوال تھا: "آپ کو یہ اندیشہ نہ تھا کہ سفرنامے کی اشاعت کے بعد رئیس صاحب سے تعلقات خراب ہوجائیں گے" ?
شاہ صاحب نے جواب دیا: "جی نہیں۔ وہ تو اسی وقت خراب ہوگئے تھے جب میں دلی میں ان لوگوں سے الگ ہوا تھا۔ پھر یہ تعلقات 5 برس تک خراب رہے۔ اس دوران میری اہلیہ اور والد کا انتقال ہوگیا۔ رئیس صاحب نے خطوط لکھنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ ادھر میرے بیٹوں نے بھی سمجھایا کہ آپ بھی سب کچھ بھلا دیں۔
"
"پھر سفرنامہ تو 1993 میں شائع ہوا تھا، رئیس صاحب کو اس بارے میں معلوم نہ ہوا ? کیا انہوں نے اسے پڑھا تھا " ?
شاہ صاحب نے کہا: ‘ کتاب کی اشاعت سے قبل ہی وہ قتل کردیے گئے تھے۔ میں نے انہیں مسودہ بھیج دیا تھا، پڑھ کر انہوں نے اس کا محاکمہ لکھا اور پھر میں نے جوابی محاکمہ لکھا جو غیر مطبوعہ ہے۔
"
سو یہ ہے داستان "سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان" کی۔ وہ سفر جو 1982 میں کیا گیا اور جس کی روداد 1993 میں شائع ہوئی۔ انیس شاہ جیلانی کے ساتھیوں میں سے رئیس امروہوی کو قتل کردیا گیا جبکہ اختر فیروز اور محمود صاحب بھی انتقال کرچکے ہیں۔ واضح رہے کہ سفرنامے کے ابتدائی اندرونی صفحے پر موجود ‘ضابطے" میں بطور ناشر، فکش ہاؤس کا نام لکھا ہے جبکہ اسے مصنف نے ضیاء اللہ کھوکھر کے تعاون سے شائع کروایا تھا اور فکشن ہاؤس کا نام محض کتاب کی مناسب فروخت کے لیے لکھا گیا تھا۔
یہ ایک تلخ سفر کی داستان ہے، مصنف کو اسے لکھتے وقت کوئی جھجھک مانع نہ تھی، کئی مقامات پر انہوں نے اپنے ہمراہیوں کو بے نقط کی سنائی ہیں، جو کچھ دیکھا اسے لکھ ڈالا ہے، وہ اپنے ہمسفروں (محمود صاحب کو چھوڑ کر) کے عجیب و غریب رویوں سے عاجز تھے اور ان کی کمزوریوں، سفر میں روا رکھنے جانے والے ناروا سلوک کو من و عن بیان کرتے چلے گئے۔ اب اس کی زد میں رئیس امروہوی آئیں یا اختر فیروز، انہیں اس کی پرواہ نہ تھی۔ اسی طرز تحریر نے سفرنامے میں ایک ایسا رنگ بھر دیا ہے جس میں اور تو سب کچھ ہوسکتا ہے ماسوائے مناقفت کے۔۔۔۔۔۔۔۔
!
سفرنامہ پیش خدمت ہے، درج ذیل لنک پر جاکر اسے پڑھا اور ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے:
خیر اندیش
راشد
تحصیل صادق آباد، ضلع رحیم یار خان اور دھول اڑاتا محمد آباد نامی قصبہ۔۔۔۔۔۔
ویرانے میں ایک دیوانے کا خواب مبارک لائبریری کی شکل میں ایستادہ نظر آیا
سید انیس شاہ جیلانی 23 اکتوبر 1937 کو محمد آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ سن 1926 میں ان کے والد سید مبارک شاہ جیلانی نے محمد آباد میں "مبارک لائبریری" قائم کی۔ لق و دق صحرا جہاں اردو بولنے والا تو کجا، ٹھیک سے سمجھنے والے بھی یکسر ناپید تھے ۔
انیس اپنے والد کے بارے میں لکھتے ہیں:
""اونچی آواز میں بہت کم بولتے تھے۔ ۔۔۔غصہ پینے میں بلا نوش تھے۔ ۔۔۔بڑا بیٹا پرلے درجے کا نافرمان خود سر خود رائے بالکل الگ تھلگ ۔ مگر کماؤ اور محنتی، اس سے غرض نہیں تھی ، چالبازی سے روپیہ بٹورتا ہے۔ یا چور بازاری سے ۔ مرحوم کی طمانیت کے لیے یہی کافی تھا کسی کا دست نگر نہیں ہے خود کماتا اور لٹاتا ہے۔ ۔۔۔تقسیم ملک کے خلاف تھے مگر جب پاکستان بن گیا تو فلاح وبہبود کا بڑا خیال تھا۔ ۔۔۔جوانی بڑھاپے میں وزن قریب دو من دو سیر سے نہ گھٹا نہ بڑھا۔ بتیسی ہم نے ان کی دیکھی ہی نہیں ۔ اتنا ضرور تھا کہ ایک ہی داڑھ رہ گئی تھی ، جس پر وہ پیسٹ اور برش گھسا کرتے تھے۔ ۔۔۔سندھی اور سرائیکی مادری پدری زبانیں تھیں مگر وہ مرحوم اول و آخر اُردو تھا۔ ۔۔۔وہ چاہتے تھے ضلعی صدر مقام رحیم یار خاں میں سرکاری سرپرستی میں دارالمصنفین اعظم گڑھ کی وضع کا ادارہ اگر قائم کردیا جائے تو پورا کتب خانہ نذر کردیں گے۔ ۔۔۔ایک ڈپٹی کمشنر جناب غلام فرید خاں نے حاتم کی قبر پر بارہ مربع فٹ زمین دکھا کر دولتی جھاڑ تو دی تھی۔ غالباً لائبریری کے نام سے وہ بجھکڑ سمجھے یہ کوئی اکنی دونی کمانے کا چکر ہے۔ ایک عظیم علمی ادارے کے تصور کا متحمل ایک سرکاری دماغ کیونکر ہوسکتا تھا۔ ایسی خفتہ ملت پر لعنت کے سوا اور کیایا کہا جاسکتا ہے۔ ۔۔۔انھوں نے جوانی کو لٹایا بھی تو اس انداز سے کہ کسی کو کانوں کان خبرنہ ہوئی ۔ بدنام نہیں ہوئے۔ ۔۔۔ایک ہی خادمہ کو آواز دیتے تھے اور بھی تھیں مگر چونکہ اس کے نام کا صوتی اثر اچھا تھا اسی لیے کسی اور کو نہ بلاتے۔"
اردو ادب میں انیس شاہ جیلانی کی پہچان ایک غصہ آور ادیب کی سی ہے، لہجہ تیکھا اور جذبات سے عاری، تنقید ایسی کہ پیشانیاں بھیگ جائیں۔ عمر کچھ ایسی زیادہ نہیں تھی کہ جب اردو زبان سے محبت کرنے والے ان کے ابا نے ان کو زبان سکھانے کی غرض سے "اہل زبان"کے حوالے کردیا۔
رئیس امروہوی، صادقین،جون ایلیا، زاہدہ حنا اور شکیل عادل زادہ ۔ ۔ ۔ انہی شخصیات کے وہ قریب رہے، انہی کی باتیں کرتے رہے، اور جب انہی میں سے کچھ کے خاکے لکھے تو قلم میں مروت نام کی کوئی چیز پڑھنے والے نے نہ دیکھی۔ لہجے میں نہ جانے کہاں سے ایسی بے باکی در آئی کہ وہ لکھے اور شوق سے پڑھا کرے کوئی ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے ان کے جن پر خاکے لکھے گئے تھے۔ ۔ کتاب کا نام تھا "آدمی غنیمت ہے"۔
نیاز فتح پوری اور رئیس احمد جعفری ان کے آئیڈیل تھے
لیکن صاحبو! یہاں ذکر تو ہے "سفرنامہ مقبوضہ یہندوستان" کا جس کی انٹرنیٹ پر شمولیت کی غرض سے راقم نے شاہ صاحب سے گزشتہ دنوں رابطہ کیا تھا اور گفتگو کچھ یوں رہی تھی:
" لائیے شاہ صاحب، اجازت دیجیے کہ اس کتاب کو دیگر لوگوں تک دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا دوں۔"
شاہ صاحب نے جواب ایسا حوصلہ افزا دیا کہ جی خوش ہوگیا۔ کہا "جیسے چاہیں استعمال کریں، جو سلوک چاہیں کریں، چاہیں تو شائع کردیں ۔ ۔ اور اس کا ہوگا ?"
"جی کس کا" ?
" آدمی غنیمت ہے" کو بھی اسی زمرے میں شمار کیجیے۔
آدمی غنیمت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کتاب جس میں موجود زاہدہ حنا کا خاکہ ایسا ہے کہ کسی اگر شاہ صاحب اسے کسی تقریب میں پڑھ دیتے تو زاہدہ خاتون پر وہ گزرتی جو شاید احمد بشیر کے اس خاکے کو سن کر کشور ناہید پر بھی نہ بیتی ہوگی جسے انہوں نے بھری محفل میں "چھپن چھری" کے عنوان کے تحت پڑھا تھا۔
میں نے مناسب سمجھا کہ اس مقام سے آگے ہی بڑھ جایا جائے۔
پھر یوں ہوا کہ ان کا 17 اپریل، 2013 کو لکھا اجازت نامہ موصول ہوا جو کتاب کے ہمراہ شامل کردیا گیا ہے۔ اجازت کے ساتھ لکھتے ہیں "وہ کیا کہتے ہیں، اسکین کرنا کہتے ہیں یا کیا کہتے ہیں"
اک ذرا آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کرتا چلوں کہ مذکورہ سفرنامے کو راقم کی ذاتی پسند سمجھا جائے، اس کے مطالعے کے بعد قارئین کے کیا تاثرات ہوں گے، اس کا فیصلہ ان پر چھوڑتا ہوں۔
محض پرائمری تک تعلیم پانے والے انیس شاہ جیلانی کی دیگر تصنیفات میں شامل ہیں نوازش نامے، خطوط(غلام رسول مہربنام انیس) مبارک شاہ کے نام، محفلے دیدم ازحیرت شملوی مرتبہ انیس شاہ جیلانی، ہندوستان کا بن تیمیہ، دھرتی مانگے دان ازجام ساقی‘سندھی سے ترجمہ انیس، کاغذی پیرہن، مہانڈراڈیکھنس(سرائیکی)خاکے۔ مڑدنگ(م ڑ د ن گ) سرائیکی) خاکے
انیس شاہ جیلانی نے ہندوستان کا سفر 1982 میں کیا تھا، رئیس امروہوی، کراچی کے ایک شاعر اختر فیروز اور کراچی سے تعلق رکھنے والے تاجر محمود ان کے ہمسفر تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ایک موقع پر انیس سخت رنجیدہ ہوئے اور دلی میں بقیہ ساتھیوں سے علاحدہ ہوگئے۔ دل غم کی شدت سے بوجھل تھا، اوسان خطا اور جذبات پژمردہ ۔ ۔۔ واپسی پر ساری تلخی تحریر میں امڈ آئی۔
زیر نظر سطور کو قلمبند کرنے کے دوران راقم نے 22 اپریل 2013 کو انیس شاہ جیلانی سے دوبارہ رابطہ کیا۔
میرا سوال تھا: "آپ کو یہ اندیشہ نہ تھا کہ سفرنامے کی اشاعت کے بعد رئیس صاحب سے تعلقات خراب ہوجائیں گے" ?
شاہ صاحب نے جواب دیا: "جی نہیں۔ وہ تو اسی وقت خراب ہوگئے تھے جب میں دلی میں ان لوگوں سے الگ ہوا تھا۔ پھر یہ تعلقات 5 برس تک خراب رہے۔ اس دوران میری اہلیہ اور والد کا انتقال ہوگیا۔ رئیس صاحب نے خطوط لکھنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ ادھر میرے بیٹوں نے بھی سمجھایا کہ آپ بھی سب کچھ بھلا دیں۔
"
"پھر سفرنامہ تو 1993 میں شائع ہوا تھا، رئیس صاحب کو اس بارے میں معلوم نہ ہوا ? کیا انہوں نے اسے پڑھا تھا " ?
شاہ صاحب نے کہا: ‘ کتاب کی اشاعت سے قبل ہی وہ قتل کردیے گئے تھے۔ میں نے انہیں مسودہ بھیج دیا تھا، پڑھ کر انہوں نے اس کا محاکمہ لکھا اور پھر میں نے جوابی محاکمہ لکھا جو غیر مطبوعہ ہے۔
"
سو یہ ہے داستان "سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان" کی۔ وہ سفر جو 1982 میں کیا گیا اور جس کی روداد 1993 میں شائع ہوئی۔ انیس شاہ جیلانی کے ساتھیوں میں سے رئیس امروہوی کو قتل کردیا گیا جبکہ اختر فیروز اور محمود صاحب بھی انتقال کرچکے ہیں۔ واضح رہے کہ سفرنامے کے ابتدائی اندرونی صفحے پر موجود ‘ضابطے" میں بطور ناشر، فکش ہاؤس کا نام لکھا ہے جبکہ اسے مصنف نے ضیاء اللہ کھوکھر کے تعاون سے شائع کروایا تھا اور فکشن ہاؤس کا نام محض کتاب کی مناسب فروخت کے لیے لکھا گیا تھا۔
یہ ایک تلخ سفر کی داستان ہے، مصنف کو اسے لکھتے وقت کوئی جھجھک مانع نہ تھی، کئی مقامات پر انہوں نے اپنے ہمراہیوں کو بے نقط کی سنائی ہیں، جو کچھ دیکھا اسے لکھ ڈالا ہے، وہ اپنے ہمسفروں (محمود صاحب کو چھوڑ کر) کے عجیب و غریب رویوں سے عاجز تھے اور ان کی کمزوریوں، سفر میں روا رکھنے جانے والے ناروا سلوک کو من و عن بیان کرتے چلے گئے۔ اب اس کی زد میں رئیس امروہوی آئیں یا اختر فیروز، انہیں اس کی پرواہ نہ تھی۔ اسی طرز تحریر نے سفرنامے میں ایک ایسا رنگ بھر دیا ہے جس میں اور تو سب کچھ ہوسکتا ہے ماسوائے مناقفت کے۔۔۔۔۔۔۔۔
!
سفرنامہ پیش خدمت ہے، درج ذیل لنک پر جاکر اسے پڑھا اور ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے:
خیر اندیش
راشد