عمران القادری
محفلین
تحریر: قاضی فیض الاسلام
ڈپٹی ڈائریکٹر میڈیا اینڈ پبلک ریلیشنز
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے مرحوم کا جھنگ میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطا ب تھا۔ پنڈال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ وزیر اعلیٰ سے قبل ایک مقامی نوجوان کو دعوت خطاب دی گئی۔ اس نے چند منٹ خطاب کیا اور سٹیج پر بیٹھے بہت سے قومی سطح کے قائدین اور پنڈال میں موجود ہزاروں افراد کو مبہوت کر کے اپنی نشست کی طرف لوٹ گیا۔ حنیف رامے خطاب کیلئے آئے تو صورت حال حوصلہ افزاء نہ رہی تھی، ہزاروں کا مجمع بکھر چکا تھا۔ انہوں نے اپنا خطاب جلد ہی سمیٹ لیا۔ وہ جان گئے تھے کہ اس نوجوان سے بہتر خطاب ہی جانے والے قدموں کو روک سکتا ہے۔ جلسہ ختم ہو گیا مگر ہر کوئی اس نوجوان کی خطابت کے نقوش اپنے ذہن کی تختیوں پر سجائے خوشگوار حیرت کا احساس لئے چلا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل لینے والے اس نوجوان سکالر کو اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کے اعتراف میں امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی نے سکالر شپ آفر کیا، مگر والد محترم کی خوشی اس میں نہ تھی۔ اس نوجوان کا شوق سفارش بن کر قریبی عزیزوں اور والد محترم کے دوستوںتک پہنچا مگر بات نہ بن سکی۔ نماز فجر کے بعد ایک روز چہل قدمی کیلئے والد محترم اسے اپنے ہمراہ لے گئے، ان کارخ قبرستان کی طرف تھا۔ شفیق والد سکوت توڑتے ہوئے گویا ہوئے کہ ’’بیٹا اگر ہاورڈ چلے گئے تو میرے جنازے میں شریک نہ ہو سکو گے اور میری آرزو ہے کہ میرا جنازہ تم خود پڑھاؤ۔ رہی ہاورڈ یونیورسٹی تو میں دیکھ رہا ہوں کہ وہاں پڑھانے والے تمہارا لیکچر سننے کی خواہش کیا کریںگے‘‘۔ اس نوجوان نے والد کی خوشی کے لئے دنیا کی سب سے اعلیٰ یونیورسٹی کی سکالرشپ کو ٹھکرادیا۔ علم و معرفت کے ٹھاٹھیں مارتے سمندروں کو سینے میں چھپانے والا یہ مضطرب نوجوان لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں ہونے والے ایک قومی سیمینار سے خطاب کرکے باہر آیا تو ہوٹل کے داخلی دروازے پر اس کی منتظر ایک عمر رسیدہ اعلیٰ علمی شخصیت نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا اور ماتھا چوم کر کہا’’بیٹا تم غلط ملک میں ہو تمہارے خلاف اتنا حسد ہو گا کہ برصغیر کی تاریخ میں کسی کے ساتھ نہ ہو ا ہو گا۔ لوگ تمہاری جان کے در پے ہو جائیں گے اس لئے اپنی حفاظت کرنا اور بہتر ہے کہ یہ ملک چھوڑ کر ہاورڈ یا آکسفورڈ چلے جاؤ۔ بہر حال میں تمہارے علمی و تحقیقی کام کا انتظار کروں گا‘‘۔ اس پر اس نوجوان نے پُر عزم لہجے میں کہا کہ اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو اپنے ملک او رعالم اسلام کیلئے ہی استعمال کروں گا اور مغربی یونیورسٹیوںکا رخ نہیں کروں گا۔ اس نوجوان کا نام محمد طاہرالقادری تھا، اسکا روشن ماتھا چومنے والے ممتاز ماہر قانون اے کے بروہی تھے، ہاورڈ یونیورسٹی جانے کی اجازت نہ دینے والے اپنے دور کے عظیم صوفی محدث اور فقیہ فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ جن کا اس واقعہ کے تین ماہ بعدوصال ہو گیا تھا اور محمد طاہر القادری نے حسب وصیت والد گرامی کا جنازہ خود پڑھاکر ان کی شدید خواہش کی تکمیل کر دی تھی۔ 19 فروری 1951ء کو جھنگ جیسے پسماندہ شہر میں پیدا ہونے والے اس گوہر نایاب کو آج دنیا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے جانتی ہے۔ 19 فروری کا عظیم دن ملت اسلامیہ کی تاریخ میں اہم ترین دنوں میں شامل رہے گا کیونکہ اس دن ایسی ہستی نے جنم لیا جو امت کی مسیحا ہے اور آنے والی نسلوں اور اہل علم و فن نے اس کی فکر سے رزق شعور لینا ہے۔ 19 فروری کے دن امت پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاص کرم ہوا اور یہ عظیم المرتبت قائد نصیب ہوا جس نے امت کو دل کی آنکھ کھولنے کا شعور عطا کیا۔ آج کے دن پاکستان یورپ اور دنیا بھر میں بسنے والے تحریک کے عظیم کارکن اللہ کے حضور سجدہ ریز ہیں ان کی جبینیں جھکی ہیں اور آنکھوں میں تشکر کے آنسو ہیں، ان آنکھوں سے اشک اس دعا کے ساتھ رواں رہتا ہے کہ اللہ حضور شیخ الاسلام کو دائمی تندرستی اور عمر خضر عطا فرمائے اور ہر کارکن کے لبوں پر یہ دعا مچل جاتی ہے کہ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مقدسہ کے صدقے اور واسطے میری عمر بھی اس عظیم قائد کو لگادے جو مسلمانوں کے دلوں میں دھڑکن بن کر زندہ ہے۔ جس نے مسلم یوتھ کوغیرت و حمیت اور فخر سے جینے کا ڈھنگ سکھا دیا ہے۔ جو چمکتے ہوئے سورج کو برملا کہہ رہا ہے۔
کوئی مہرتاباں سے جا کے کہہ دے کہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھ لے
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں
سینکڑوں جہتوں کو اپنی شخصیت میں سمیٹ کر مصطفوی انقلاب کی طرف بڑھنے والی اس عظیم المرتبت ہستی پر زندگی کی 57بہاریں بیت چکیں، داڑھی کے بالوں کی سیاہی سفیدی میں بدل چکی مگر ان کا عزم و حوصلہ پہاڑوں سے زیادہ مضبوط اور غیر متزلزل دکھائی دیتے ہیں۔ حالات کے زیر و بم نے انکے حوصلوں، ولولوں اور ہمہ جہت صلاحیتوں کو پہلے سے زیادہ جواں کر دیا ہے۔ 27 سالہ تحریکی جدوجہدمیں وہ ایک ہزار سے زائد کتابیں (جن میں تین سو سے زائد چھپ چکی ہیں) لکھ کر پوری دنیا کے اہل علم کو ورطہ حیرت میں ڈال چکے۔ لاکھوں افراد اس علمی خزانہ سے پیاس بجھا کر معاشرے میں بلند مقام پر فائز ہو رہے ہیں۔ اسلام کے حوالے سے ہزاروں موضوعات پر 6ہزار سے زائد لیکچر ز کی آڈیو، ویڈیو سی ڈیز اور کیسٹس دنیا کے 150ملکوں میں مسلمانوں کے علمی، مذہبی اور روحانی ذوق کی آبیاری میں مصروف ہیں اور وہ بطور مصنف اور سپیکر اس کی کوئی رائیلیٹی نہیں لیتے۔ شیخ الاسلام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سمجھ کر اسے اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے۔ دنیا کے پانچ براعظموں میں تحریک منہاج القرآن کو عالم اسلام کی سب سے بڑی تحریک کا اعزاز دلانے والے قائد کے علمی و تحقیقی کارناموں کی گونج آج مشرق ومغرب میں سنی جاسکتی ہے۔ دنیا بھر میں منہاج القرآن کے اسلامک کلچرل اور ایجوکیشنل سینٹرز اسلام کے حقیقی پیغام امن سلامتی اور محبت کو عام کر رہے ہیں۔ عالم عرب کے جید علماء و شیوخ تک ان کی عربی تصانیف کی خوشبو پہنچ چکی ہے۔ تجدید و احیائے دین کے اتنے وسیع کام کے اعتراف میں عرب دنیا کے شیوخ الفقہ والحدیث نے متفقہ طور پر انہیں شیخ الاسلام کا ٹائیٹل دیا ہے اور یہ منصب دینے والوں کا معیار یہ ہے کہ وہ کسی کو علامہ کا ٹائٹیل دیتے ہوئے ہزار بار سو چتے ہیں۔ مگر شیخ الاسلام کے حوالے سے وہ جان چکے ہیں کہ یہ عجمی شخصیت ایسی ہے کہ الفاظ، اصطلاحیں، ادبی فقرے اور صدیوں سے منصہ شہود پر آنے کے منتظر علمی، ادبی اور روحانی نکات قطار میں ہاتھ باندھے مؤدب کھڑے منتظر ہوتے ہیں کہ کب اس نابغہ کی زبان اور قلم سے ظہور پذیر ہونے کا شرف حاصل کرسکیں۔ دقیق اور پیچیدہ ترین نقاط کی گرہیں وہ اس انداز میں کھولتے ہیں کہ سطحی علم رکھنے والا سادہ ترین شخص بھی انتہائی آسانی سے گہرائی تک پہنچ کر فہم و ادراک کی دنیا کو تابندہ کرلیتا ہے اور اسے نور باطن اور یقین کی دولت بے بہا نصیب ہوجاتی ہے۔ 24 گھنٹوں میں ایک سیکنڈ کا ایک ہزارواں حصہ بھی حضور شیخ الاسلام کی پُر حکمت آواز سے محروم نہیں ہے پوری دنیا میں ہر وقت وہ مختلف موضوعات پر خطابات کرتے دیکھے اور سنے جاتے ہیں اور اس دوران لاکھوں کروڑوں آنکھیں آنسوؤں کی برسات میں دلوں کا زنگ بہانے میں مصروف ہوتی ہیں۔ حضور شیخ الاسلام نے عرفان القرآن کی شکل میں ملت اسلامیہ کو ایسا نادر ترجمہ عطا کیا جس نے اہل علم کو علم و عرفان کے چھپے گوشوں تک رسائی کا موقع فراہم کردیا ہے۔ انہوں نے امت کو ایسا عظیم تحفہ دیا جو قرآن حکیم کا حقیقی فہم سمجھا دیتا ہے۔ بلا شبہ یہ ترجمہ قرآن شیخ الاسلام کے علمی کارناموں میں آفتاب بن کر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ ’’جامع السنہ‘‘ کی شکل میں وہ قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں اور اہل علم کو ایسا نایاب تحفہ دینے جارہے ہیں جو حدیث کے حوالے سے اٹھنے والے ہر فتنے کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دے گا۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب’’المنہاج السوی‘‘ عالم عرب سمیت پوری دنیا کے اہل علم سے پزیرائی حاصل کر چکی، اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حضور شیخ الاسلام کا تجدیدی کام رہتی دنیا تک اسلام کے ہر گوشے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت اور ان کی شان کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کے آگے بند باندھنے کے لئے کافی ہو گا۔ حضور شیخ الاسلام کی تصانیف اور خطابات کی صورت میں امت کے سکالرز کو ہمیشہ ایسی علمی ڈھال میسر ہوگی جس سے اسلام پر ہونے والے علمی فکری حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جاتا رہے گا۔ قائد تحریک منہاج القرآن نے اپنی شبانہ روز محنت سے اسلاف کے علمی خزانہ کو نئی نسلوں کے سامنے اس انداز میں نکھار دیا ہے کہ اشکال اور غیر یقینیت کا قلع قمع ہوگیا ہے۔ اسلام کا مبہم، غیر واضح اور غیر حقیقی چہرہ دکھانے والوں کی صدیوں کی محنت کو حضور شیخ الاسلام کے چند سالہ تحقیقی علمی کام نے بے نتیجہ کردیا ہے۔ اللہ کے خصوصی احسان اور قدمین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کا اظہار دوبارہ ایمان بنتا جارہا ہے۔ بدعقیدگی دفن ہورہی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس کو بیان کرنے کا عقیدہ امت کی پہلی ترجیح بن رہا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر گوشہ درود اور دنیا بھر میں حلقہ ہائے درود کا قیام امت میں روحانی انقلاب کی وہ بنیاد ہے جو قیامت تک مسلمانوں کے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق عشقی کو دوام دیئے رکھے گا اوریہ سہرا بھی حضور شیخ الاسلام کے سر ٹھہرا ہے۔ تاریخ اسلام میں درود و سلام کو تحریک بنانے کا سنہری اور ارفع کا م بھی تحریک منہاج القرآن کو مقدر ہوا ہے۔ جس کے باعث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا عمل کثرت سے فروغ پا رہاہے۔
تحریک منہاج القرآن کے پرعزم سکالرز پوری دنیا میں حضور شیخ الاسلام کے تجدیدی کام کو انتہائی سرعت سے پھیلارہے ہیں۔ یورپ کی چکا چوند میں بسنے والوں کو زندگی کا مقصد عطا کرنے والی فکر ان نوجوانوں کے ذریعے ہی فروغ پذیر ہے جو نائٹ کلبوں اور سینماؤں کے مکین بن گئے تھے۔ اسلام سے نابلد ہوجانے والے خاندانوں کی حقیقی رونق حضور شیخ الاسلام کی سی ڈیز اور کتابوں کی بدولت واپس آچکی ہے۔ دیار غیر میں مسلمان بچے اور بچیوں کے ایمان کو دیمک کی طرح کھاجانے والے غیر اخلاقی مراکز اب اسلامک سینٹرز کا روپ دھار کر مشن سے وابستہ پرعزم نوجوانوں کے جذبوں کو مزید تقویت دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ شیخ الاسلام نے اسلاف کے علمی خزانہ سے وہ موتی چنے ہیں جن پر آج تک کسی کی نگاہ نہ پڑی تھی۔ انہوں نے تاریخ اسلام پر اٹھنے والی مستشرقین کی انگلیوں کو سرنگوں کرنے کا کارنامہ سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ دلائل و براہین سے وہ حقائق اکٹھے کئے کہ آج کے نام نہاد دانشوروں کی پھیلائی جانے والی پراگندگی لو گوں پر آشکار ہو گئی۔ دین سے برگشتہ ہونے والی نوجوان نسل کوانہوں نے اعتماد کی وہ دولت عطا کی کہ وہ داعی امن بن کر دنیا میں اسلام کی حقانیت پھیلانے والے بن گئے۔ ان کو بے مقصدیت سے نجات دلا کر انہیں تعمیری سرگرمیاں دے کر امت کی عظمت رفتہ کے عظیم کام پر لگا دیا۔ ان شاء اللہ ان کی آئندہ نسلوں میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے محدث و فقیہہ جنم لیں گے۔ اس عظیم قائد نے نوجوانوں کے دلوں سے دنیا کی محبت کو کھرچ کر انہیںعاجزی و انکساری کا پیکر بنا دیا ہے اور وہ اسلام کے حقیقی سفیر بن کر دنیا میں محبت اور امن کی خوشبو پھیلا رہے ہیں۔ نوجوان بچیاں پردے اور حیاء کے حقیقی تصور کو سمجھ کر تحریک منہاج القرآن کے عظیم مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں اور معصوم بچوں کی تربیت بھی احسن انداز میں شروع ہوچکی ہے۔ کیونکہ منہاج القرآن ویمن لیگ کے اجتماعات میں بچے بھی اپنی ماؤں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور تربیت کے غیر محسوس عمل سے گزر رہے ہیں۔ ڈش اور کیبل کی لعنت کے خلاف شیخ الاسلام کی سی ڈیز اور کیسٹس ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کو بربادی اور تباہی کے گڑھوں سے محفوظ رکھ رہی ہے۔ ’’گناہ سے نفرت کرو گناہ گار سے نہیں‘‘ کا پُرحکمت پیغام نوجوانوں کو حضور شیخ الاسلام کا دیوانہ بناچکا ہے۔ موبائل سکرین پر انڈین اور انگلش گانوں اور فلموںسے لطف لینے والی آنکھیں اور کان اب شیخ الاسلام کے خطابات سننے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ سفر کے دوران بھی Mp3 اور موبائل کے ذریعے حضور شیخ الاسلام کے خطابات اور نعتیں سن کر یہ آنکھیں نم ہوتی ہیں۔ اس عظیم قائد کی کتابوں اور خطابات سے استفادہ کرنے کے لئے پوری دنیا کے مسلمان منہاج القرآن کی ویب سائٹس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ عوام الناس سے لے کر اہل علم ہستیوں تک ہر کوئی Q-tv پر آنے والے خطابات سن کر علمی تشنگی مٹا رہا ہے۔ دورہ صحیح بخاری‘ دور ہ صحیح مسلم شریف اور حضرت امام ابو حنیفہ کے علم حدیث میں اعلیٰ مقام پر ہونیوالے خطابات نے پوری دنیا میں ان اکابر ہستیوں کے بارے میں پائی جانیوالی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کتابوں میں موجود علم و حکمت کے موتیوں کو آشکار کرکے مسلمانوں کے عقائد کو درست کرنے کا تاریخی فریضہ انجام دیا ہے۔ نوجوان نسل کو اپنے اسلاف کی عظمت کا حقیقی اندازہ بھی ان خطابات کو سن کر ہوا ہے کہ تاریخ اسلام کتنی عظیم المرتبت ہستیوںسے بھری پڑی ہے۔ جو بیک وقت محدث فقیہہ‘ صوفی اور امام تھے۔ شیخ الاسلام کے تجدیدی کام کی وسعت اور اس کی پذیرائی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہیورپ، جنوبی ایشیا، خلیج اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں تحریک منہاج القرآن کو فروغ مل رہا ہے۔ تنگ نظری، انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی مذموم اور مکروہ سازشوں کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کا فریضہ بھی حضور شیخ الاسلام انتہائی جرات اور حکمت کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام نے گستاخانہ خاکوں کے فتنے کی سرکوبی کے لئے عوامی سربراہوں کے نام جو تاریخی مراسلہ لکھا اس نے پوری دنیا میں سوچ کی ایسی بند جہتوں کو کھول دیا ہے کہ آئندہ کوئی اسلام دشمن ایسی ناپاک جسارت نہیں کرسکے گا۔ پوری اسلامی دنیا میں صرف شیخ الاسلام کی طرف سے دلیل کی زبان میں اردو، عربی اور انگلش میں مراسلہ دنیا کی 100 موثر ترین شخصیات کو بھیجا گیا جن میں یورپ، برطانیہ، امریکہ سمیت دیگر درجنوں ممالک کے سربراہان بھی شامل تھے۔ اکثر سربراہان نے مراسلہ کا انتہائی مثبت تحریری جواب دیا اور اعتراف کیا کہ اس مراسلہ نے ہماری سوچ کو ایک مثبت راہ دکھائی ہے جو مستقبل میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی طرف بڑھنے میں ہماری رہنمائی کرے گی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عوام کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے‘ پاکستان کو جنوبی ایشیا اور عالمی برادری میں باعزت مقام دلوانے اور عالم اسلام کو اس کا کھویا ہوا وقار اور تشخص واپس دلانے کیلئے پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کر کے پاکستان کے منافقانہ استحصالی ظالمانہ اور غریب کش نظام کو جرات و ہمت سے للکارا تو سیاست پر قابض دھڑوں نے اپنی بقا کیلئے سازشوں کا باریک جال بن دیا۔ پاکستان میں میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے والے سیاسی نظام اور کی جانے والی ان سازشوں کے باوجود 2002ء کے قومی الیکشن میں وہ پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ مگرجلد ہی انہوں نے اس بے دست و پا اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔ یوں قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے بعد اصولوں پر دیا جانے والا یہ دوسرا استعفیٰ تھا جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں غیرت و حمیت اور سیاسی تقویٰ کا استعارہ بن کر تاریخ کے صفحوں میں امر ہوگیا۔ 2002ء کا الیکشن اس لحاظ سے یادگار رہے گا کہ عوام کے حقیقی قائد شیخ الاسلام نے پاکستان کی تاریخ کا پہلا قابل عمل انقلابی منشور دے کر سیاست میں موجود بے ضمیر اور نااہل سیاستدانوں کو بتا دیا کہ وہ پاکستان (جسے ایک ناکام ریاست سمجھا جاتا ہے) کو جنوبی ایشیا اور عالم اسلام میں باعزت مقام دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی سیاست تحریک کیلئے ان کی ہمہ جہت کاوشوں میں ایک جز کا درجہ رکھتی ہے جبکہ دیگر مذہبی و سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کا کل وقتی کام ہی سیاست ہے۔ کسی دوسرے نے علمی و تحقیقی میدان میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی جبکہ شیخ الاسلام کی تصانیف اور ان کے ریسرچ ورک کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بج رہا ہے۔ مرحومہ بینظیر بھٹو نے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کی ملک و ملت کیلئے مذہبی‘ سماجی‘ تعلیمی اور روحانی خدمات اور اسلام کے حوالے سے ان کے ویژن سے متاثر ہو کر تحریک منہاج القرآن کی تاحیات رفاقت اختیار کر کے انہیں اپنا قائد تسلیم کیا تھا۔ شیخ الاسلام کی سیاسی زندگی کا ایک خاص وصف کارکنوں سے مشاورت ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے جو مثال قائم کر دی ہے‘ اس سطح تک جانا شاید ہی نہیں یقینا کسی اور کیلئے ممکن نہیں ہوگا۔ اپنی زندگی میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی درخشندہ روایت قائم کرنا بھی یقینا ایک انتہائی اعلیٰ انسانی رویہ ٹھہرے گا۔ وہ اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے عالم اسلام کی سیاسی تاریخ میں وہ لیول متعین کر رہے ہیں جہاں تک پہنچنا ایک آرزو تو رہے گی مگر اس کو عملی شکل دینا یقینا ناممکن ہوگا۔
زلزلہ بام (ایران) میں ہو طوفان سونامی کا یا قیامت صغریٰ کشمیر اور سرحد کی ہر جگہ ان کی قائم کردہ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن موجود ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں آنیوالے بدترین زلزلے کے دوران منہاج خیمہ بستیاں قائم کر کے متاثرین کو30کروڑ کی خطیر ریلیف دی گئی۔ اجتماعی شادیوں کے ذریعے سینکڑوں بچیوں کے گھربسائے جا چکے ہیں اور ہر سال یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے ادارے’’ آغوش‘‘ کے زیراہتمام درجنوں لاوارث بچوں کو ایسی پناہ گاہ مل گئی ہے جہاں وہ اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ شیخ الاسلام نے تعلیمی میدان میں اہل لاہور کو منہاج یونیورسٹی کی شکل میں الازہر کے ہم پلہ علمی درسگاہ دی ہے۔ جہاں جدید اور قدیم علوم کے امتزاج سے مسلم سکالرز کی بڑی تعداد ہر سال فارغ التحصیل ہو کر دین مبین کی سربلندی کیلئے مختلف شعبوں میں اپنے فرائض انجام دینے نکلتی ہے۔ درجنوں کالجز اور ملک بھر میں 600 منہاج پرائمری و ماڈل سکولز نے غیرسرکاری سطح پر دنیا کے سب سے بڑے تعلیمی منصوبے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ امریکن بائیوگرافک انسٹیٹیوٹ (abi) نے کئی عالمی اعزاز دے کر شیخ الاسلام کو دنیا کے کامیاب ترین افراد کی فہرست میں شامل کیا ہے اور تعلیمی خدمات پرانہیں صدی کا بہترین انسان قرار دیا ہے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ حضور شیخ الاسلام کی فکر اور ان کا تجدیدی کام رہتی دنیا تک مسلمانوں کے قلوب کو امنگ اور دین کی تڑپ دے کر حقیقی زندگی عطا کرے گا اور اگلے ایک ہزار سال تک امت کی رہنمائی کے لئے شیخ الاسلام کی فکر زندہ و تابندہ رہے گی اور انسانیت ہمیشہ 19 فروری کے مقدر پر رشک کرتی رہے گی اور قیامت تک حضور شیخ الاسلام امت مسلمہ کے ارب ہا مسلمانوں کے دلوں میں نور باطن بن کر زندہ و جاوید رہیں گے کیونکہ پچھلے ہزار سالوں کا علمی قرض چکانے کا اہم ترین فریضہ ان کو مقدر ہوا ہے۔ جس کے اثرات اگلے 1000 سال تک رہیں گے۔
کسے معلوم تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کے زمانے میں اولڈ کیمپس سے نیو کیمپس جاتے ہوئے یونیورسٹی بس کی چھت پر سفر کے دوران اونگھ آنے کے دوران اپنی پہلی تصنیف کے مسودہ کے گرنے اور ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوشش کے بعد نہ ملنے پر شدت غم سے ہفتوں علیل رہنے والا نوجوان سینکڑوں نایاب اور منفرد کتابوں کا مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ علم، بصیرت، حکمت اور امن و محبت کا ہمالیہ بن کر انسانیت کا فخر بن جائے گا اور 19 فروری کا دن تاریخ انسانی کے ایک عظیم دن کے طور پر امر ہو جائے گا۔
بشکریہ منہاج ڈاٹ آرگ
ڈپٹی ڈائریکٹر میڈیا اینڈ پبلک ریلیشنز
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے مرحوم کا جھنگ میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطا ب تھا۔ پنڈال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ وزیر اعلیٰ سے قبل ایک مقامی نوجوان کو دعوت خطاب دی گئی۔ اس نے چند منٹ خطاب کیا اور سٹیج پر بیٹھے بہت سے قومی سطح کے قائدین اور پنڈال میں موجود ہزاروں افراد کو مبہوت کر کے اپنی نشست کی طرف لوٹ گیا۔ حنیف رامے خطاب کیلئے آئے تو صورت حال حوصلہ افزاء نہ رہی تھی، ہزاروں کا مجمع بکھر چکا تھا۔ انہوں نے اپنا خطاب جلد ہی سمیٹ لیا۔ وہ جان گئے تھے کہ اس نوجوان سے بہتر خطاب ہی جانے والے قدموں کو روک سکتا ہے۔ جلسہ ختم ہو گیا مگر ہر کوئی اس نوجوان کی خطابت کے نقوش اپنے ذہن کی تختیوں پر سجائے خوشگوار حیرت کا احساس لئے چلا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل لینے والے اس نوجوان سکالر کو اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کے اعتراف میں امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی نے سکالر شپ آفر کیا، مگر والد محترم کی خوشی اس میں نہ تھی۔ اس نوجوان کا شوق سفارش بن کر قریبی عزیزوں اور والد محترم کے دوستوںتک پہنچا مگر بات نہ بن سکی۔ نماز فجر کے بعد ایک روز چہل قدمی کیلئے والد محترم اسے اپنے ہمراہ لے گئے، ان کارخ قبرستان کی طرف تھا۔ شفیق والد سکوت توڑتے ہوئے گویا ہوئے کہ ’’بیٹا اگر ہاورڈ چلے گئے تو میرے جنازے میں شریک نہ ہو سکو گے اور میری آرزو ہے کہ میرا جنازہ تم خود پڑھاؤ۔ رہی ہاورڈ یونیورسٹی تو میں دیکھ رہا ہوں کہ وہاں پڑھانے والے تمہارا لیکچر سننے کی خواہش کیا کریںگے‘‘۔ اس نوجوان نے والد کی خوشی کے لئے دنیا کی سب سے اعلیٰ یونیورسٹی کی سکالرشپ کو ٹھکرادیا۔ علم و معرفت کے ٹھاٹھیں مارتے سمندروں کو سینے میں چھپانے والا یہ مضطرب نوجوان لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں ہونے والے ایک قومی سیمینار سے خطاب کرکے باہر آیا تو ہوٹل کے داخلی دروازے پر اس کی منتظر ایک عمر رسیدہ اعلیٰ علمی شخصیت نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا اور ماتھا چوم کر کہا’’بیٹا تم غلط ملک میں ہو تمہارے خلاف اتنا حسد ہو گا کہ برصغیر کی تاریخ میں کسی کے ساتھ نہ ہو ا ہو گا۔ لوگ تمہاری جان کے در پے ہو جائیں گے اس لئے اپنی حفاظت کرنا اور بہتر ہے کہ یہ ملک چھوڑ کر ہاورڈ یا آکسفورڈ چلے جاؤ۔ بہر حال میں تمہارے علمی و تحقیقی کام کا انتظار کروں گا‘‘۔ اس پر اس نوجوان نے پُر عزم لہجے میں کہا کہ اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو اپنے ملک او رعالم اسلام کیلئے ہی استعمال کروں گا اور مغربی یونیورسٹیوںکا رخ نہیں کروں گا۔ اس نوجوان کا نام محمد طاہرالقادری تھا، اسکا روشن ماتھا چومنے والے ممتاز ماہر قانون اے کے بروہی تھے، ہاورڈ یونیورسٹی جانے کی اجازت نہ دینے والے اپنے دور کے عظیم صوفی محدث اور فقیہ فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ جن کا اس واقعہ کے تین ماہ بعدوصال ہو گیا تھا اور محمد طاہر القادری نے حسب وصیت والد گرامی کا جنازہ خود پڑھاکر ان کی شدید خواہش کی تکمیل کر دی تھی۔ 19 فروری 1951ء کو جھنگ جیسے پسماندہ شہر میں پیدا ہونے والے اس گوہر نایاب کو آج دنیا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے جانتی ہے۔ 19 فروری کا عظیم دن ملت اسلامیہ کی تاریخ میں اہم ترین دنوں میں شامل رہے گا کیونکہ اس دن ایسی ہستی نے جنم لیا جو امت کی مسیحا ہے اور آنے والی نسلوں اور اہل علم و فن نے اس کی فکر سے رزق شعور لینا ہے۔ 19 فروری کے دن امت پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاص کرم ہوا اور یہ عظیم المرتبت قائد نصیب ہوا جس نے امت کو دل کی آنکھ کھولنے کا شعور عطا کیا۔ آج کے دن پاکستان یورپ اور دنیا بھر میں بسنے والے تحریک کے عظیم کارکن اللہ کے حضور سجدہ ریز ہیں ان کی جبینیں جھکی ہیں اور آنکھوں میں تشکر کے آنسو ہیں، ان آنکھوں سے اشک اس دعا کے ساتھ رواں رہتا ہے کہ اللہ حضور شیخ الاسلام کو دائمی تندرستی اور عمر خضر عطا فرمائے اور ہر کارکن کے لبوں پر یہ دعا مچل جاتی ہے کہ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مقدسہ کے صدقے اور واسطے میری عمر بھی اس عظیم قائد کو لگادے جو مسلمانوں کے دلوں میں دھڑکن بن کر زندہ ہے۔ جس نے مسلم یوتھ کوغیرت و حمیت اور فخر سے جینے کا ڈھنگ سکھا دیا ہے۔ جو چمکتے ہوئے سورج کو برملا کہہ رہا ہے۔
کوئی مہرتاباں سے جا کے کہہ دے کہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھ لے
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں
سینکڑوں جہتوں کو اپنی شخصیت میں سمیٹ کر مصطفوی انقلاب کی طرف بڑھنے والی اس عظیم المرتبت ہستی پر زندگی کی 57بہاریں بیت چکیں، داڑھی کے بالوں کی سیاہی سفیدی میں بدل چکی مگر ان کا عزم و حوصلہ پہاڑوں سے زیادہ مضبوط اور غیر متزلزل دکھائی دیتے ہیں۔ حالات کے زیر و بم نے انکے حوصلوں، ولولوں اور ہمہ جہت صلاحیتوں کو پہلے سے زیادہ جواں کر دیا ہے۔ 27 سالہ تحریکی جدوجہدمیں وہ ایک ہزار سے زائد کتابیں (جن میں تین سو سے زائد چھپ چکی ہیں) لکھ کر پوری دنیا کے اہل علم کو ورطہ حیرت میں ڈال چکے۔ لاکھوں افراد اس علمی خزانہ سے پیاس بجھا کر معاشرے میں بلند مقام پر فائز ہو رہے ہیں۔ اسلام کے حوالے سے ہزاروں موضوعات پر 6ہزار سے زائد لیکچر ز کی آڈیو، ویڈیو سی ڈیز اور کیسٹس دنیا کے 150ملکوں میں مسلمانوں کے علمی، مذہبی اور روحانی ذوق کی آبیاری میں مصروف ہیں اور وہ بطور مصنف اور سپیکر اس کی کوئی رائیلیٹی نہیں لیتے۔ شیخ الاسلام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سمجھ کر اسے اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے۔ دنیا کے پانچ براعظموں میں تحریک منہاج القرآن کو عالم اسلام کی سب سے بڑی تحریک کا اعزاز دلانے والے قائد کے علمی و تحقیقی کارناموں کی گونج آج مشرق ومغرب میں سنی جاسکتی ہے۔ دنیا بھر میں منہاج القرآن کے اسلامک کلچرل اور ایجوکیشنل سینٹرز اسلام کے حقیقی پیغام امن سلامتی اور محبت کو عام کر رہے ہیں۔ عالم عرب کے جید علماء و شیوخ تک ان کی عربی تصانیف کی خوشبو پہنچ چکی ہے۔ تجدید و احیائے دین کے اتنے وسیع کام کے اعتراف میں عرب دنیا کے شیوخ الفقہ والحدیث نے متفقہ طور پر انہیں شیخ الاسلام کا ٹائیٹل دیا ہے اور یہ منصب دینے والوں کا معیار یہ ہے کہ وہ کسی کو علامہ کا ٹائٹیل دیتے ہوئے ہزار بار سو چتے ہیں۔ مگر شیخ الاسلام کے حوالے سے وہ جان چکے ہیں کہ یہ عجمی شخصیت ایسی ہے کہ الفاظ، اصطلاحیں، ادبی فقرے اور صدیوں سے منصہ شہود پر آنے کے منتظر علمی، ادبی اور روحانی نکات قطار میں ہاتھ باندھے مؤدب کھڑے منتظر ہوتے ہیں کہ کب اس نابغہ کی زبان اور قلم سے ظہور پذیر ہونے کا شرف حاصل کرسکیں۔ دقیق اور پیچیدہ ترین نقاط کی گرہیں وہ اس انداز میں کھولتے ہیں کہ سطحی علم رکھنے والا سادہ ترین شخص بھی انتہائی آسانی سے گہرائی تک پہنچ کر فہم و ادراک کی دنیا کو تابندہ کرلیتا ہے اور اسے نور باطن اور یقین کی دولت بے بہا نصیب ہوجاتی ہے۔ 24 گھنٹوں میں ایک سیکنڈ کا ایک ہزارواں حصہ بھی حضور شیخ الاسلام کی پُر حکمت آواز سے محروم نہیں ہے پوری دنیا میں ہر وقت وہ مختلف موضوعات پر خطابات کرتے دیکھے اور سنے جاتے ہیں اور اس دوران لاکھوں کروڑوں آنکھیں آنسوؤں کی برسات میں دلوں کا زنگ بہانے میں مصروف ہوتی ہیں۔ حضور شیخ الاسلام نے عرفان القرآن کی شکل میں ملت اسلامیہ کو ایسا نادر ترجمہ عطا کیا جس نے اہل علم کو علم و عرفان کے چھپے گوشوں تک رسائی کا موقع فراہم کردیا ہے۔ انہوں نے امت کو ایسا عظیم تحفہ دیا جو قرآن حکیم کا حقیقی فہم سمجھا دیتا ہے۔ بلا شبہ یہ ترجمہ قرآن شیخ الاسلام کے علمی کارناموں میں آفتاب بن کر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ ’’جامع السنہ‘‘ کی شکل میں وہ قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں اور اہل علم کو ایسا نایاب تحفہ دینے جارہے ہیں جو حدیث کے حوالے سے اٹھنے والے ہر فتنے کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دے گا۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب’’المنہاج السوی‘‘ عالم عرب سمیت پوری دنیا کے اہل علم سے پزیرائی حاصل کر چکی، اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حضور شیخ الاسلام کا تجدیدی کام رہتی دنیا تک اسلام کے ہر گوشے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت اور ان کی شان کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کے آگے بند باندھنے کے لئے کافی ہو گا۔ حضور شیخ الاسلام کی تصانیف اور خطابات کی صورت میں امت کے سکالرز کو ہمیشہ ایسی علمی ڈھال میسر ہوگی جس سے اسلام پر ہونے والے علمی فکری حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جاتا رہے گا۔ قائد تحریک منہاج القرآن نے اپنی شبانہ روز محنت سے اسلاف کے علمی خزانہ کو نئی نسلوں کے سامنے اس انداز میں نکھار دیا ہے کہ اشکال اور غیر یقینیت کا قلع قمع ہوگیا ہے۔ اسلام کا مبہم، غیر واضح اور غیر حقیقی چہرہ دکھانے والوں کی صدیوں کی محنت کو حضور شیخ الاسلام کے چند سالہ تحقیقی علمی کام نے بے نتیجہ کردیا ہے۔ اللہ کے خصوصی احسان اور قدمین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کا اظہار دوبارہ ایمان بنتا جارہا ہے۔ بدعقیدگی دفن ہورہی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس کو بیان کرنے کا عقیدہ امت کی پہلی ترجیح بن رہا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر گوشہ درود اور دنیا بھر میں حلقہ ہائے درود کا قیام امت میں روحانی انقلاب کی وہ بنیاد ہے جو قیامت تک مسلمانوں کے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق عشقی کو دوام دیئے رکھے گا اوریہ سہرا بھی حضور شیخ الاسلام کے سر ٹھہرا ہے۔ تاریخ اسلام میں درود و سلام کو تحریک بنانے کا سنہری اور ارفع کا م بھی تحریک منہاج القرآن کو مقدر ہوا ہے۔ جس کے باعث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا عمل کثرت سے فروغ پا رہاہے۔
تحریک منہاج القرآن کے پرعزم سکالرز پوری دنیا میں حضور شیخ الاسلام کے تجدیدی کام کو انتہائی سرعت سے پھیلارہے ہیں۔ یورپ کی چکا چوند میں بسنے والوں کو زندگی کا مقصد عطا کرنے والی فکر ان نوجوانوں کے ذریعے ہی فروغ پذیر ہے جو نائٹ کلبوں اور سینماؤں کے مکین بن گئے تھے۔ اسلام سے نابلد ہوجانے والے خاندانوں کی حقیقی رونق حضور شیخ الاسلام کی سی ڈیز اور کتابوں کی بدولت واپس آچکی ہے۔ دیار غیر میں مسلمان بچے اور بچیوں کے ایمان کو دیمک کی طرح کھاجانے والے غیر اخلاقی مراکز اب اسلامک سینٹرز کا روپ دھار کر مشن سے وابستہ پرعزم نوجوانوں کے جذبوں کو مزید تقویت دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ شیخ الاسلام نے اسلاف کے علمی خزانہ سے وہ موتی چنے ہیں جن پر آج تک کسی کی نگاہ نہ پڑی تھی۔ انہوں نے تاریخ اسلام پر اٹھنے والی مستشرقین کی انگلیوں کو سرنگوں کرنے کا کارنامہ سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ دلائل و براہین سے وہ حقائق اکٹھے کئے کہ آج کے نام نہاد دانشوروں کی پھیلائی جانے والی پراگندگی لو گوں پر آشکار ہو گئی۔ دین سے برگشتہ ہونے والی نوجوان نسل کوانہوں نے اعتماد کی وہ دولت عطا کی کہ وہ داعی امن بن کر دنیا میں اسلام کی حقانیت پھیلانے والے بن گئے۔ ان کو بے مقصدیت سے نجات دلا کر انہیں تعمیری سرگرمیاں دے کر امت کی عظمت رفتہ کے عظیم کام پر لگا دیا۔ ان شاء اللہ ان کی آئندہ نسلوں میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے محدث و فقیہہ جنم لیں گے۔ اس عظیم قائد نے نوجوانوں کے دلوں سے دنیا کی محبت کو کھرچ کر انہیںعاجزی و انکساری کا پیکر بنا دیا ہے اور وہ اسلام کے حقیقی سفیر بن کر دنیا میں محبت اور امن کی خوشبو پھیلا رہے ہیں۔ نوجوان بچیاں پردے اور حیاء کے حقیقی تصور کو سمجھ کر تحریک منہاج القرآن کے عظیم مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں اور معصوم بچوں کی تربیت بھی احسن انداز میں شروع ہوچکی ہے۔ کیونکہ منہاج القرآن ویمن لیگ کے اجتماعات میں بچے بھی اپنی ماؤں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور تربیت کے غیر محسوس عمل سے گزر رہے ہیں۔ ڈش اور کیبل کی لعنت کے خلاف شیخ الاسلام کی سی ڈیز اور کیسٹس ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کو بربادی اور تباہی کے گڑھوں سے محفوظ رکھ رہی ہے۔ ’’گناہ سے نفرت کرو گناہ گار سے نہیں‘‘ کا پُرحکمت پیغام نوجوانوں کو حضور شیخ الاسلام کا دیوانہ بناچکا ہے۔ موبائل سکرین پر انڈین اور انگلش گانوں اور فلموںسے لطف لینے والی آنکھیں اور کان اب شیخ الاسلام کے خطابات سننے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ سفر کے دوران بھی Mp3 اور موبائل کے ذریعے حضور شیخ الاسلام کے خطابات اور نعتیں سن کر یہ آنکھیں نم ہوتی ہیں۔ اس عظیم قائد کی کتابوں اور خطابات سے استفادہ کرنے کے لئے پوری دنیا کے مسلمان منہاج القرآن کی ویب سائٹس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ عوام الناس سے لے کر اہل علم ہستیوں تک ہر کوئی Q-tv پر آنے والے خطابات سن کر علمی تشنگی مٹا رہا ہے۔ دورہ صحیح بخاری‘ دور ہ صحیح مسلم شریف اور حضرت امام ابو حنیفہ کے علم حدیث میں اعلیٰ مقام پر ہونیوالے خطابات نے پوری دنیا میں ان اکابر ہستیوں کے بارے میں پائی جانیوالی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کتابوں میں موجود علم و حکمت کے موتیوں کو آشکار کرکے مسلمانوں کے عقائد کو درست کرنے کا تاریخی فریضہ انجام دیا ہے۔ نوجوان نسل کو اپنے اسلاف کی عظمت کا حقیقی اندازہ بھی ان خطابات کو سن کر ہوا ہے کہ تاریخ اسلام کتنی عظیم المرتبت ہستیوںسے بھری پڑی ہے۔ جو بیک وقت محدث فقیہہ‘ صوفی اور امام تھے۔ شیخ الاسلام کے تجدیدی کام کی وسعت اور اس کی پذیرائی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہیورپ، جنوبی ایشیا، خلیج اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں تحریک منہاج القرآن کو فروغ مل رہا ہے۔ تنگ نظری، انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی مذموم اور مکروہ سازشوں کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کا فریضہ بھی حضور شیخ الاسلام انتہائی جرات اور حکمت کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام نے گستاخانہ خاکوں کے فتنے کی سرکوبی کے لئے عوامی سربراہوں کے نام جو تاریخی مراسلہ لکھا اس نے پوری دنیا میں سوچ کی ایسی بند جہتوں کو کھول دیا ہے کہ آئندہ کوئی اسلام دشمن ایسی ناپاک جسارت نہیں کرسکے گا۔ پوری اسلامی دنیا میں صرف شیخ الاسلام کی طرف سے دلیل کی زبان میں اردو، عربی اور انگلش میں مراسلہ دنیا کی 100 موثر ترین شخصیات کو بھیجا گیا جن میں یورپ، برطانیہ، امریکہ سمیت دیگر درجنوں ممالک کے سربراہان بھی شامل تھے۔ اکثر سربراہان نے مراسلہ کا انتہائی مثبت تحریری جواب دیا اور اعتراف کیا کہ اس مراسلہ نے ہماری سوچ کو ایک مثبت راہ دکھائی ہے جو مستقبل میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی طرف بڑھنے میں ہماری رہنمائی کرے گی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عوام کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے‘ پاکستان کو جنوبی ایشیا اور عالمی برادری میں باعزت مقام دلوانے اور عالم اسلام کو اس کا کھویا ہوا وقار اور تشخص واپس دلانے کیلئے پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کر کے پاکستان کے منافقانہ استحصالی ظالمانہ اور غریب کش نظام کو جرات و ہمت سے للکارا تو سیاست پر قابض دھڑوں نے اپنی بقا کیلئے سازشوں کا باریک جال بن دیا۔ پاکستان میں میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے والے سیاسی نظام اور کی جانے والی ان سازشوں کے باوجود 2002ء کے قومی الیکشن میں وہ پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ مگرجلد ہی انہوں نے اس بے دست و پا اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔ یوں قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے بعد اصولوں پر دیا جانے والا یہ دوسرا استعفیٰ تھا جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں غیرت و حمیت اور سیاسی تقویٰ کا استعارہ بن کر تاریخ کے صفحوں میں امر ہوگیا۔ 2002ء کا الیکشن اس لحاظ سے یادگار رہے گا کہ عوام کے حقیقی قائد شیخ الاسلام نے پاکستان کی تاریخ کا پہلا قابل عمل انقلابی منشور دے کر سیاست میں موجود بے ضمیر اور نااہل سیاستدانوں کو بتا دیا کہ وہ پاکستان (جسے ایک ناکام ریاست سمجھا جاتا ہے) کو جنوبی ایشیا اور عالم اسلام میں باعزت مقام دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی سیاست تحریک کیلئے ان کی ہمہ جہت کاوشوں میں ایک جز کا درجہ رکھتی ہے جبکہ دیگر مذہبی و سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کا کل وقتی کام ہی سیاست ہے۔ کسی دوسرے نے علمی و تحقیقی میدان میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی جبکہ شیخ الاسلام کی تصانیف اور ان کے ریسرچ ورک کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بج رہا ہے۔ مرحومہ بینظیر بھٹو نے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کی ملک و ملت کیلئے مذہبی‘ سماجی‘ تعلیمی اور روحانی خدمات اور اسلام کے حوالے سے ان کے ویژن سے متاثر ہو کر تحریک منہاج القرآن کی تاحیات رفاقت اختیار کر کے انہیں اپنا قائد تسلیم کیا تھا۔ شیخ الاسلام کی سیاسی زندگی کا ایک خاص وصف کارکنوں سے مشاورت ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے جو مثال قائم کر دی ہے‘ اس سطح تک جانا شاید ہی نہیں یقینا کسی اور کیلئے ممکن نہیں ہوگا۔ اپنی زندگی میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی درخشندہ روایت قائم کرنا بھی یقینا ایک انتہائی اعلیٰ انسانی رویہ ٹھہرے گا۔ وہ اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے عالم اسلام کی سیاسی تاریخ میں وہ لیول متعین کر رہے ہیں جہاں تک پہنچنا ایک آرزو تو رہے گی مگر اس کو عملی شکل دینا یقینا ناممکن ہوگا۔
زلزلہ بام (ایران) میں ہو طوفان سونامی کا یا قیامت صغریٰ کشمیر اور سرحد کی ہر جگہ ان کی قائم کردہ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن موجود ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں آنیوالے بدترین زلزلے کے دوران منہاج خیمہ بستیاں قائم کر کے متاثرین کو30کروڑ کی خطیر ریلیف دی گئی۔ اجتماعی شادیوں کے ذریعے سینکڑوں بچیوں کے گھربسائے جا چکے ہیں اور ہر سال یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے ادارے’’ آغوش‘‘ کے زیراہتمام درجنوں لاوارث بچوں کو ایسی پناہ گاہ مل گئی ہے جہاں وہ اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ شیخ الاسلام نے تعلیمی میدان میں اہل لاہور کو منہاج یونیورسٹی کی شکل میں الازہر کے ہم پلہ علمی درسگاہ دی ہے۔ جہاں جدید اور قدیم علوم کے امتزاج سے مسلم سکالرز کی بڑی تعداد ہر سال فارغ التحصیل ہو کر دین مبین کی سربلندی کیلئے مختلف شعبوں میں اپنے فرائض انجام دینے نکلتی ہے۔ درجنوں کالجز اور ملک بھر میں 600 منہاج پرائمری و ماڈل سکولز نے غیرسرکاری سطح پر دنیا کے سب سے بڑے تعلیمی منصوبے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ امریکن بائیوگرافک انسٹیٹیوٹ (abi) نے کئی عالمی اعزاز دے کر شیخ الاسلام کو دنیا کے کامیاب ترین افراد کی فہرست میں شامل کیا ہے اور تعلیمی خدمات پرانہیں صدی کا بہترین انسان قرار دیا ہے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ حضور شیخ الاسلام کی فکر اور ان کا تجدیدی کام رہتی دنیا تک مسلمانوں کے قلوب کو امنگ اور دین کی تڑپ دے کر حقیقی زندگی عطا کرے گا اور اگلے ایک ہزار سال تک امت کی رہنمائی کے لئے شیخ الاسلام کی فکر زندہ و تابندہ رہے گی اور انسانیت ہمیشہ 19 فروری کے مقدر پر رشک کرتی رہے گی اور قیامت تک حضور شیخ الاسلام امت مسلمہ کے ارب ہا مسلمانوں کے دلوں میں نور باطن بن کر زندہ و جاوید رہیں گے کیونکہ پچھلے ہزار سالوں کا علمی قرض چکانے کا اہم ترین فریضہ ان کو مقدر ہوا ہے۔ جس کے اثرات اگلے 1000 سال تک رہیں گے۔
کسے معلوم تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کے زمانے میں اولڈ کیمپس سے نیو کیمپس جاتے ہوئے یونیورسٹی بس کی چھت پر سفر کے دوران اونگھ آنے کے دوران اپنی پہلی تصنیف کے مسودہ کے گرنے اور ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوشش کے بعد نہ ملنے پر شدت غم سے ہفتوں علیل رہنے والا نوجوان سینکڑوں نایاب اور منفرد کتابوں کا مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ علم، بصیرت، حکمت اور امن و محبت کا ہمالیہ بن کر انسانیت کا فخر بن جائے گا اور 19 فروری کا دن تاریخ انسانی کے ایک عظیم دن کے طور پر امر ہو جائے گا۔
بشکریہ منہاج ڈاٹ آرگ