فرخ منظور
لائبریرین
ان دنوں روح کا عالم ہے عجب
جیسے جو حسن ہے میرا ہے وہ سب
جیسے اک خواب میں نکلا ہوا دن
جیسے اک وصل میں جاگی ہوئی شب
دل پہ کھلتا ہے اسی موسِم میں
غم کسے کہتے ہیں اور کیا ہے طرب
جس سے ہو جائے جہاں ہو جائے
ہے محبت ہی محبت کا سبب
جاں فزا ہے جو عطا کرتے رہو
بوسۂ لب کی طرح بوسۂ لب
پہلے اک ناز بھرا ربط و گریز
اس نے پھر بخش دیا سب کا سب
تم سا کیا ہو گا یہاں خواب کوئی
مجھ سا کیا ہو گا کوئی خواب طلب
کاش تعبیر میں تم ہی نکلو
جب کوئی خواب ہو تعبیر طلب
اس کے عشّاق جہاں بھی دیکھو
ایک ہی نشّے میں ڈوبے ہوئے سب
سلسلے اس سے جو مل جائیں تو ٹھیک
ورنہ جھوٹے ہیں یہ سب نام و نسب
لوگ موجود ہیں اب بھی جن کے
منہ سے جو بات نکل جائے ادب
سایۂ زلف میں مر جاؤں علیم
کھینچ لے گر نہ مجھے سایۂ رب
1991