ان گنت چہروں کی تابانی سے مر جاتے ہیں ہم
آئینہ خانوں میں حیرانی سے مر جاتے ہیں ہم
بے ضمیری کا سمندر پار کرلینے کے بعد
اپنی آنکھوں میں بچے پانی سے مر جاتے ہیں ہم
عقل کرتی رہتی ہے تدبیر جینے کی مگر
وحشتِ دل تری نادانی سے مرجاتے ہیں
ڈھونڈتے رہتے ہیں دن بھر اپنے ہونے کا جواز
شام ہوتے ہی پشیمانی سے مرجاتے ہیں ہم
دشت کو گلزار کرتے تھے مگر اب شہر میں
باغباں تری نگہبانی سے مرجاتے ہیں ہم
سونپ دیتے ہیں ادھورے خواب بچوں کو سلیم
اور اس کے بعد آسانی سے مرجاتے ہیں ہم
آئینہ خانوں میں حیرانی سے مر جاتے ہیں ہم
بے ضمیری کا سمندر پار کرلینے کے بعد
اپنی آنکھوں میں بچے پانی سے مر جاتے ہیں ہم
عقل کرتی رہتی ہے تدبیر جینے کی مگر
وحشتِ دل تری نادانی سے مرجاتے ہیں
ڈھونڈتے رہتے ہیں دن بھر اپنے ہونے کا جواز
شام ہوتے ہی پشیمانی سے مرجاتے ہیں ہم
دشت کو گلزار کرتے تھے مگر اب شہر میں
باغباں تری نگہبانی سے مرجاتے ہیں ہم
سونپ دیتے ہیں ادھورے خواب بچوں کو سلیم
اور اس کے بعد آسانی سے مرجاتے ہیں ہم