اوبامہ کی قاہرہ میں تقریر

زیک

مسافر
اوبامہ اس وقت سعودیہ اور مصر کے دورے پر ہے اور ٹھیک پونے سات گھنٹے بعد قاہرہ میں اہم تقریر کرنے والا ہے۔ اس تقریر کو آپ لائیو وائٹ ہاؤس کے سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ تقریر کا وقت پاکستانی ٹائم کے مطابق شام 4:10 ہے، سعودی اور مصری ٹائم دوپہر 1:10، برطانیہ میں صبح 11:10 اور امریکہ کے مشرقی علاقوں میں صبح کے 6:10۔

یہ تھریڈ یہ معلوم کرنے کے لئے ہے کہ آپ تقریر دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں۔ اور پھر تقریر کے بعد اس پر ڈسکشن بھی یہیں کی جا سکتی ہے۔
 

زیک

مسافر
مارک لینچ مشرق وسطٰی کی سیاست اور میڈیا کا پروفیسر ہے جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں۔ اس کے بلاگ پر تقریر سے متعلق کچھ پوسٹس پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ویسے تو اس کا بلاگ ہی پڑھنے لائق ہے۔
 
میرا خیال ہے کہ اوبامہ کی تقریر سے مسلمانوں‌کوتوقعات بہت زیادہ ہیں۔
اگر اوبامہ فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے کچھ کرتا ہے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ اوبامہ کی تقریر ایک اہم واقعہ ہونی چاہیے۔
 

arifkarim

معطل
سیاست دانوں (کٹ پتلوں) کی تقاریر آپکو کنٹرول میں‌رکھنے کیلئے دی جاتی ہیں۔ انکو سننے سے بہتر ہے کہ بندہ کوئی اچھی مووی دیکھ لے۔۔۔۔۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

میرا خیال ہے کہ اوبامہ کی تقریر سے مسلمانوں‌کوتوقعات بہت زیادہ ہیں۔
اگر اوبامہ فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے کچھ کرتا ہے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ اوبامہ کی تقریر ایک اہم واقعہ ہونی چاہیے۔


صدر اوبامہ نے يقين دلايا ہے کہ امريکہ اپنی پاليسياں ان کے ساتھ منسلک کرے گا جو امن کے خواہ ہيں۔ ان ميں وہ اسرائيلی اور فلسطينی بھی شامل ہيں جو دو رياستوں ميں امن اور حفاظت کے ساتھ رہنے کے مستحق ہيں۔

انھوں نے تمام فريقين پر زور ديا کہ وہ معاہدے کے مطابق اپنی ذمہ دارياں پوری کريں۔

اسرائيل کے وجود سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔ ليکن اس کے ساتھ اسرائيل کو بھی اس حقيقت کو ماننا پڑے گا کہ اسرائيلی آبادکاری کو روکنا ہو گا۔ غزہ ميں ہونے والا سانحہ اسرائيل کی اپنی سيکورٹی کے ليے نقصان دہ ہے۔ فلسطينوں کو اپنے معاشرے کی بہتری، پرامن زندگی گزارنے اور کاروبار زندگي کو چلانے کے ليے اسرائيل کو اپنی ذمہ دارياں پوری کرنا ہوں گی۔

امريکہ فلسطين کی ناموس اور اپنی آزادانہ مملکت کے جائز مطالبہ پر ان کی حمايت ترک نہيں کرے گا۔ ليکن اس کے ساتھ ساتھ فلسطينيوں کو بھی تشدد کا راستہ تبديل کرنا ہو گا جو بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے اور اپنے موقف کے لیے اخلاقی جواز بھی کھو جاتا ہے۔ حماس کو تشدد کا خاتمہ کر کے گزشتہ معاہدوں کا پاس کرنا ہو گا اور اسرائيل کے وجود کو تسليم کرنا ہوگا۔

عرب امن کوششوں پر مزيد کام کرتے ہوئے عرب رياستوں پر لازم ہے کہ وہ فلسطينی رياست کی بقا کے لیے اداروں کی تشکيل ميں فلسطينی عوام کی مدد کريں اور اسرائيلی کی قانونی حيثيت تسليم کريں۔ اس کے علاوہ ماضی ميں جھانکنے کی ناکام روش کے مقابلے ميں ترقی پر فوکس کرنا ہوگا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
اوبامہ کی یہ تقریر ایک نیا امریکی انداز دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے اگر اس پر عمل بھی ہو جائے تاہم ایک بہت مختلف تقریر اور نئی باتیں ہیں۔کاش اوبامہ افغانستان اور عراق سے جلد از جلد فوجی انخلا کا بھی فیصلہ کر لیے۔
 

arifkarim

معطل
اوبامہ کی یہ تقریر ایک نیا امریکی انداز دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے اگر اس پر عمل بھی ہو جائے تاہم ایک بہت مختلف تقریر اور نئی باتیں ہیں۔کاش اوبامہ افغانستان اور عراق سے جلد از جلد فوجی انخلا کا بھی فیصلہ کر لیے۔

اسکا فیصلہ اوبامہ نہیں بلکہ یہودی بینکنگ برادری کرے گی!
 

زین

لائبریرین
امریکہ کے صدر باراک اوبامہ نے اسلام اور مغرب کے درمیان مذاکرات اور مصالحت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے مسئلے کا حل فوجی طاقت سے ممکن نہیں، مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی دوڑ کے مخالف ہوں۔ امریکہ افغانستان پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی وہاں فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔آج یقین ہو کہ دہشت گردی نہیں ہوگی تو فوجی نکال لیں گے،دہشتگرد ہماری سیکورٹی کے درپے اور معصوم لوگوں کے قاتل ہیں۔ القاعدہ اور دہشتگرد تنظیموں سے ملکر نمٹنا ہوگا۔ گوانتا نامو بے جیل کو آئندہ سال بند کردیا جائیگا۔ مسلم دنیا کو بھی امریکہ سے متعلق منفی تاثرات ختم کرنا ہونگے۔ ایک قوم دوسری قوم پر اپنی مرضی کا نظام مسلط نہیں کر سکتی۔امریکہ اسلام کے ساتھ کبھی جنگ نہیں کریگا۔ شدت پسندوں نے مسلمانوں اور مغرب کے درمیان کشیدگی سے فائدہ اٹھایا ۔ایران کے ایٹمی پروگرام سے ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔ امریکہ ایسی دنیا چاہتا ہے جس میں کسی ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار نہ ہوں۔
مصر کی سب سے بڑی دینی درسگاہ جامعہ الازہر اور قاہرہ یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر اوبامہ نے کہا کہ انتہا پسند ہماری سیکورٹی کیلئے بہت بڑا خطرہ ہیں، ہمیں دہشتگردی اور انتہا پسندی کا سامنا ہے۔ امریکہ افغانستان پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی وہاں فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔افغانستان میں ہمارے مردوخواتین کی مسلسل ہلاکتیں ہمیں قبول نہیں، امریکہ افغانستان میں مسلسل معرکہ آرائی جاری نہیں رکھ سکتا،اگر ہمیں آج یقین ہو کہ پاکستان اور افغانستان میں اب کوئی انتہا پسندی نہیں ہوگی اور زیادہ سے زیادہ امریکیوں کو قتل کرنے کا کوئی جذبہ نہیں تو آخری فوجی بھی نکالنے کے لئے تیار ہیں۔لیکن اخراجات کے باوجود امریکہ کا عزم متزلزل نہیں ہوگا،ہم کسی صورت انتہاپسندوں کو برداشت نہیں کریں گے جو ہر ملک میں قتل عام کرتے پھرتے ہیں،ان لوگوں نے ہر مذہب کے لوگوں کو قتل کیا ہے حتی کہ مسلمان بھی ان سے محفوظ نہیں رہے۔ان سے کوئی بات نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کا انسانی حقوق سے کوئی تعلق نہیں۔اسلام کا ان سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اسلام دنیا میں امن کا فروغ دینے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔صدر اوبامہ نے کہا کہ صرف طاقت کا استعمال افغانستان اور پاکستان کے مسائل کا حل نہیں اس لئے ہم نے پاکستان میں سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر سرمایہ کاری کا پروگرام بنا رہے ہیں یہ رقوم ہسپتالوں ، سکولوںاور دیگر اداروں کی تعمیر پر خرچ ہوگی،جبکہ بے گھر افراد کے لئے بھی بھرپور امداد دی جا رہی ہے،افغانستان کو سالانہ 2.8ارب روپے امداد دی جارہی ہے تاکہ سلامتی کی صورتحال بہتر ہو اور معیشت ترقی کرے۔ انہوںنے کہاکہ فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کا واحد حل تو ریاستوں کا قیام ہے دو ریاستی حل کیلئے ذاتی طور پر کوشش کروں گا۔ انہوںنے کہاکہ اسرائیل یہودی بستیوں کی تعمیر فوری طور پر روک دے۔ فلسطین کی صورتحال ناقابل برداشت ہے۔ فلسطینی عوام مشکل میں ہیں۔ مسئلے کا حل اسرائیل اور فلسطین دونوں کے مفاد میں ہے۔ انہوںنے کہاکہ فلسطینی تشدد کا راستہ چھوڑ دیں ہلاکتوں سے امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوںنے کہاکہ اسرائیل اور عربوں میں تنازعہ دنیا میں دوسرے مسائل کی وجہ سے ہے۔ صدر اوبامہ نے کہاکہ ہولو کاسٹ حقیقت ہے 60 لاکھ یہودی قتل کئے گئے اسرائیلیوں کیلئے ہولو کاسٹ کی یادیں تکلیف دہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ بیت المقدس سب کی محفوظ جگہ ہونی چاہئے۔ امریکہ صدر باراک اوبامہ نے قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کہتا ہے کہ جس نے ایک شخص کوقتل کیا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو بچایا گویا اس نے ساری انسانیت کو بچایا۔ انہوںنے کہاکہ میں بھی اس بیان پر پورا یقین رکھتا ہوں ۔ صدر باراک اوبامہ نے کہاکہ نائن الیون کے بعد مغرب اور اسلام میں فاصلہ بڑھا ایک تقریر بد اعتمادی کو ختم نہیں کر سکتی۔ میں انسانی حقوق پر یقین رکھتا ہوں ۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ اور اسلام میں تعلق ’’ اسلام کیا ہے ‘‘ کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ میں کوئی مسجد تباہ نہیں کی گئی امریکہ اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی ضروربڑھی ہے۔ امن اور سلامتی کیلئے ہم سب کے نظریات ایک ہیں۔ میں اسلام سے مذاکرات پر یقین رکھتا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ قرآن کے بیان اور خدا پر مجھے پورا یقین ہے میرا خاندان کئی نسلوں سے مسلمان ہے ۔ انہوںنے کہاکہ عراق کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں عراقی عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ عراق میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ انہوںنے کہاکہ عراق سے 2012ء تک تمام فوج واپس بلا لی جائیگی۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان اور پاکستان کے مسئلے کا حل فوجی طاقت سے ممکن نہیں مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی دوڑ کے مخالف ہوں۔ انہوںنے کہاکہ دہشتگرد ہماری سیکورٹی کے درپے اور معصوم لوگوں کے قاتل ہیں۔ القاعدہ اور دہشتگردی تنظیموں سے ملکر نمٹنا ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان میں لاکھوں بے گھر افراد کیلئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ گوانتا نامو بے جیل کو آئندہ سال بند کردیا جائیگا۔ القاعدہ نے نائن الیون کے واقعہ میں تین ہزار لوگوں کو قتل کیا امریکہ قوموں کی خود مختاری اور آزادی کا احترام کرتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین دونوں امن اور تحفظ چاہتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ مغرب اسلام کیخلاف ہے ۔ انہوںنے کہاکہ معصوم جانوں کا قتل دنیا کے ہر مذہب میں منع ہے امریکہ میں مقیم مسلمانوں نے امریکہ کی ترقی میں اہم کردارا دا کیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی دوڑ تباہ کن ہو سکتی ہے۔ این پی ٹی کے تحت ایران سمیت تمام ممالک کو پر امن ایٹمی توانائی کے حصول کا حق ہے۔ ہمیں اپنے مسائل آپس میں بات چیت سے حل کرنے ہونگے۔ انہوںنے کہاکہ فوجی آپریشن پاکستان میں مسئلے کا حل نہیں اس لئے 1.5 ملین ڈالر کی سالانہ ترقیاتی امداد پاکستان کو دے رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ تعلقات میں بہتری کیلئے دل میں رکھی ہوئی باتیں ایک دوسرے کو کہنا ہونگی۔ مسلم دنیا کو بھی امریکہ سے متعلق منفی تاثرات ختم کرنا ہونگے۔ ایک قوم دوسری قوم پر اپنی مرضی کا نظام مسلط نہیں کر سکتی۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ اسلام کے ساتھ کبھی جنگ نہیں کریگا۔ صدر باراک اوبامہ نے کہاکہ شدت پسندوں نے مسلمانوں اور مغرب کے درمیان کشیدگی سے فائدہ اٹھایا ۔ قرآن نے سکھایا ہے کہ خدا سے ڈرو اور ہمیشہ سچ بولو۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ کو سب سے پہلے ایک مسلمان ملک مراکش نے تسلیم کیا ۔ اسلام امن اور تحمل کا درس دیتا ہے پہلے امریکی مسلمان رکن پارلیمنٹ نے قرآن پر حلف اٹھایا اسلام رواداری کی شاندار مثال رکھتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ میں دنیا بھر کی قومیں آباد ہیں اور وہ ایک قوم ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اگر یہ یقین ہو جائے کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشتگرد نہیں رہے تو فوج واپس لے جائینگے۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ کے ہر شہر میں مسجد ہے اس لئے اسلام امریکہ کا حصہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ بہت سے آنسو اور خون بہہ چکے جس کے ہم زمہ دار ہیں۔ باراک اوبامہ نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ امریکی تعلقات ناقابل تسخیر ہیں۔ دونوں ملکوں کا تعلق دائمی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں کشیدگی کا سبب بننے والے ذرائع کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ امریکی صدر نے کہاکہ امریکہ نےالقاعدہ اور طالبان کے خلاف دنیا کے تعاون سے آپریشن کیا ۔ انہوںنے کہاکہ دوسروں پر الزام تراشی کی روش ختم ہونی چاہئے ۔ انہوںنے کہاکہ خواتین کو ملازمت کرنے کیلئے مکمل آزادی ہونی چاہئے ۔ خواتین کو جدید تعلیم کے حصول کا حق ملنا چاہئے ۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ میں قیام امن کیلئے مسلم دنیا کا کردار بہت اہم ہے ۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے کہا کہ امریکہ کسی بھی شرط کے بغیر ایران سے مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ انہوںنے کہاکہ ایران کئی سال سے امریکہ کا مخالف ہے اور اسے اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ایران سمیت تمام ممالک کو پر امن مقاصد کیلئے جوہری توانائی کے حصول کا حق ہے۔ انہوںنے کہاکہ ایران کے ایٹمی پروگرام سے ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔ امریکہ ایسی دنیا چاہتا ہے جس میں کسی ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار نہ ہوں۔ انہوںنے کہاکہ ایک ملک کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کئی ممالک کو نقصان پہنچائے گا۔ انہوںنے کہاکہ میں مصر کے عوام کی مہمان نوازی کا شکر گزار ہوں۔ انہوںنے کہاکہ مسلم دنیا سے نئے تعلقات کی بنیاد رکھنا چاہتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوبامہ نے اپنے خطاب کے دوران قرآنی آیات کے حوالے بھی دیئے
قاہرہ ۔ امریکی صدر باراک حسین اوبامہ نے قاہرہ یونیورسٹی سے اپنے خطاب میں قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’’ جس نے ایک شخص کوقتل کیا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو بچایا گویا اس نے ساری انسانیت کو بچایا‘‘،قرآن نے سکھایا ہے کہ خدا سے ڈرو اور ہمیشہ سچ بولو۔ گزشتہ روز یہاں قاہرہ یونیورسٹی میں مسلم دنیا سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ میں بھی اس بیان پر پورا یقین رکھتا ہوں ۔ صدر باراک اوبامہ نے کہاکہ نائن الیون کے بعد مغرب اور اسلام میں فاصلہ بڑھا ایک تقریر بد اعتمادی کو ختم نہیں کر سکتی۔ میں انسانی حقوق پر یقین رکھتا ہوں ۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ اور اسلام میں تعلق ’’ اسلام کیا ہے ‘‘ کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ میں کوئی مسجد تباہ نہیں کی گئی امریکہ اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی ضروربڑھی ہے۔ امن اور سلامتی کیلئے ہم سب کے نظریات ایک ہیں۔ میں اسلام سے مذاکرات پر یقین رکھتا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ قرآن کے بیان اور خدا پر مجھے پورا یقین ہے میرا خاندان کئی نسلوں سے مسلمان ہے ۔قرآن نے سکھایا ہے کہ خدا سے ڈرو اور ہمیشہ سچ بولو۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ کو سب سے پہلے ایک مسلمان ملک مراکش نے تسلیم کیا ۔ اسلام امن اور تحمل کا درس دیتا ہے پہلے امریکی مسلمان رکن پارلیمنٹ نے قرآن پر حلف اٹھایا اسلام رواداری کی شاندار مثال رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صدراوباما قاہرہ یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے شروع میں اسلام و علیکم اور شکریہ کے الفاظ استعمال کرتے رہے
قاہرہ ۔ امریکی صدر باراک حسین اوباما نے قاہرہ یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے شروع میں اسلام و علیکم کہا اور اپنے استقبال کے جواب میں تھینک یو ویری مچ شکریہ کہتے رہے ۔ جب وہ تقریب میں خطاب کیلئے آئے تو لوگوں نے ان کا بھر پور استقبال کیا جس پر صدر اوباما شکریہ اور تھینک یو کے الفاظ استعمال کرتے رہے جب انہوںنے خطاب شروع کیا تو اپنے سامعین اور مدعوئین کا مختصر شکریہ کرنے کے بعد اسلام و علیکم سے اپنے خطاب کا آغاز کیا۔
 

زیک

مسافر
[ame="http://www.youtube.com/watch?v=6BlqLwCKkeY"]YouTube - President Obama Speaks to the Muslim World from Cairo, Egypt[/ame]
 

ابن جمال

محفلین
میراذاتی خیال ہے کہ اوبامہ کی تقریر ایک امید افزاء تقریر ہے اب اس سے فائدہ کس طرح اٹھایاجائے یہ دانشوروں کے سوچنے کی بات ہے۔
 
صدر اوبامہ نے يقين دلايا ہے کہ امريکہ اپنی پاليسياں ان کے ساتھ منسلک کرے گا جو امن کے خواہ ہيں۔ ان ميں وہ اسرائيلی اور فلسطينی بھی شامل ہيں جو دو رياستوں ميں امن اور حفاظت کے ساتھ رہنے کے مستحق ہيں۔

انھوں نے تمام فريقين پر زور ديا کہ وہ معاہدے کے مطابق اپنی ذمہ دارياں پوری کريں۔

اسرائيل کے وجود سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔ ليکن اس کے ساتھ اسرائيل کو بھی اس حقيقت کو ماننا پڑے گا کہ اسرائيلی آبادکاری کو روکنا ہو گا۔ غزہ ميں ہونے والا سانحہ اسرائيل کی اپنی سيکورٹی کے ليے نقصان دہ ہے۔ فلسطينوں کو اپنے معاشرے کی بہتری، پرامن زندگی گزارنے اور کاروبار زندگي کو چلانے کے ليے اسرائيل کو اپنی ذمہ دارياں پوری کرنا ہوں گی۔

امريکہ فلسطين کی ناموس اور اپنی آزادانہ مملکت کے جائز مطالبہ پر ان کی حمايت ترک نہيں کرے گا۔ ليکن اس کے ساتھ ساتھ فلسطينيوں کو بھی تشدد کا راستہ تبديل کرنا ہو گا جو بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے اور اپنے موقف کے لیے اخلاقی جواز بھی کھو جاتا ہے۔ حماس کو تشدد کا خاتمہ کر کے گزشتہ معاہدوں کا پاس کرنا ہو گا اور اسرائيل کے وجود کو تسليم کرنا ہوگا۔

عرب امن کوششوں پر مزيد کام کرتے ہوئے عرب رياستوں پر لازم ہے کہ وہ فلسطينی رياست کی بقا کے لیے اداروں کی تشکيل ميں فلسطينی عوام کی مدد کريں اور اسرائيلی کی قانونی حيثيت تسليم کريں۔ اس کے علاوہ ماضی ميں جھانکنے کی ناکام روش کے مقابلے ميں ترقی پر فوکس کرنا ہوگا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

بدقسمتی سے اوبامہ کی تقریر کچھ زیادہ امید افزا نہیں ہے۔

بنیادی مسئلہ اسرائیل ہے۔ اور اوبامہ چاہتا ہے کہ مسلم دنیا اسرائیل کو تسلیم کرلے۔

ماضی سے جڑے بغیر مستقبل نہیں بن سکتا۔
 

ساجد

محفلین
اوبامہ کی تقریر کو امید افزا کہا جا سکتا ہے اور اگر واقعی اوبامہ اپنے الفاظ کا پاس کرنے کا عملی مظاہرہ کرنے کو آمادہ ہے تو مسلمان رہنماؤں خاص طور پہ ہماری حکومت کو سنجیدگی سے اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہئیے۔
ہمت بھیا سے گزارش ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والوں میں آدھی درجن عرب مسلمان ممالک ہیں۔ اگر اسرائیل فلسطینیوں کے علاقے خالی کر دے تو اسے تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بھی بارہا اسی شرط پہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں ۔ لہذا اس کو محض امریکی پالیسی سے نتھی کرنا خود ہمارے لئیے نقصان دہ ہو گا۔
ماضی کو یاد رکھنا اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ جڑے رہنا اور مستقبل کی طرف نہ بڑھنا جمود کی نشانی ہے۔
آئی۔۔ن نو س۔ے ڈرنا ط۔۔رز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں​
 
ماضی کو بھلا کر مستقبل کی طرف صرف بے وقوف دوڑتے ہیں۔
ّکسی ظلم کو دنیا تسلیم کرلے وہ ظلم ہی رہتا ہے
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کا قیام غیر قانونی ہے اور لاتعداد فلسطینیوں کے بے گھری کا باعث ہے۔ اگر اسرائیل انھیں دوبارہ ان کی ابائی زمیں‌پر اباد کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے اور 1967 سے پہلے کی سرحد کو مانتا ہے تو عرب اسرائیل کو تسلیم کرسکتے ہیں
ورنہ باقی کہانیاں ہیں

حقیقت میں‌اوبامہ اپنی تقریر میں عربوں سے بہت کچھ مانگتا نظر اتا ہے اور دیتا صرف خواب ہے۔
خواب بھی وہ جو ٹوٹ جانے والے ہیں۔
 

راشد احمد

محفلین
اوبامہ کی تقریر کو سیاسی تقریر کہہ سکتے ہیں۔
اوبامہ کا السلام علیکم، قرآن پاک کی آیات پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو متاثر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
اوبامہ نے ایک قرآنی آیت کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔

اوبامہ نے اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر، ڈرون حملوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ اوبامہ کی تقریر کا وہ حال ہے بغل میں میزائل منہ میں قرآنی آیات

کیا اوبامہ کو یاد نہیں کہ ڈرون حملوں میں سات سوپاکستانی مارے گئے تھے۔ امریکہ نے افغانستان، عراق میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلادیا۔
انسانیت کا دشمن اور قاتل تو خود امریکہ ہے
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

يہ بالکل درست ہے کہ الفاظ کے مقابلے ميں عمل اور زمينی حقائق کی زيادہ اہميت ہوتی ہے۔ ليکن تبديلی کے ليے آپ کو نقطہ آغاز چاہيے۔ يہ ايک اجتماعی کوشش اور مسلسل عمل ہے جس کا آغاز کل صدر اوبامہ نے قاہرہ ميں اپنی تقرير سے کيا۔ مستقبل ميں درپيش چيلنجز کا ادراک صدر اوبامہ کو ہے اور اس کا اظہار انھوں نے اپنی تقرير ميں بھی کيا

"اجتماعی انسانی قدروں کو تسليم کرنا محض آغاز ہے۔ صرف الفاظ لوگوں کی ضروريات پوری نہيں کر سکتے۔ يہ ضروريات صرف اسی صورت ميں پوری ہوں گی جب آنے والے برسوں ميں ہم جرآت مندانہ اقدامات کريں۔ اگر ہم يہ سمجھ ليں کہ ہميں درپيش چيلنجز مشترکہ ہيں اور ان ميں ناکامی ہم سب کے ليے نقصان دہ ہو گی۔۔۔۔۔ہميں درپيش مسائل کا سامنا شراکت داری سے کرنا ہے۔ ہماری پيش رفت مشترکہ ہونی چاہيے"۔

ہميں اس بات کا ادراک ہے کہ يہ محض آغاز ہے اور سفر بہت طويل ہے۔ ليکن اس کے باوجود ماضی ميں رہنے کے مقابلے ميں آگے بڑھنا زيادہ بہتر آپشن ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميرے ليے يہ بات حيران کن ہے کہ قائرہ ميں صدر اوبامہ کی تقرير کے حوالے سے کچھ اخبارات اور ٹی وی چينلز نے چند جملوں ميں الفاظ کے ردوبدل سے ايسی سرخياں استعمال کيں جن سے بيان کا تناظر ہی تبديل ہو گيا۔

صدر اوبامہ کی تقرير کا مکمل متن اردو اور پنجابی زبان ميں امريکی حکومت کی سرکاری ويب سائٹ پر موجود ہے۔

اردو لنک

http://www.america.gov/st/peacesec-...4154048dmslahrellek0.3639337.html?CP.rss=true

پنجابی لنک

http://www.america.gov/st/peacesec-...4152846dmslahrellek0.5945246.html?CP.rss=true

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

راشد احمد

محفلین
يہ بالکل درست ہے کہ الفاظ کے مقابلے ميں عمل اور زمينی حقائق کی زيادہ اہميت ہوتی ہے۔ ليکن تبديلی کے ليے آپ کو نقطہ آغاز چاہيے۔ يہ ايک اجتماعی کوشش اور مسلسل عمل ہے جس کا آغاز کل صدر اوبامہ نے قاہرہ ميں اپنی تقرير سے کيا۔ مستقبل ميں درپيش چيلنجز کا ادراک صدر اوبامہ کو ہے اور اس کا اظہار انھوں نے اپنی تقرير ميں بھی کيا

"اجتماعی انسانی قدروں کو تسليم کرنا محض آغاز ہے۔ صرف الفاظ لوگوں کی ضروريات پوری نہيں کر سکتے۔ يہ ضروريات صرف اسی صورت ميں پوری ہوں گی جب آنے والے برسوں ميں ہم جرآت مندانہ اقدامات کريں۔ اگر ہم يہ سمجھ ليں کہ ہميں درپيش چيلنجز مشترکہ ہيں اور ان ميں ناکامی ہم سب کے ليے نقصان دہ ہو گی۔۔۔۔۔ہميں درپيش مسائل کا سامنا شراکت داری سے کرنا ہے۔ ہماری پيش رفت مشترکہ ہونی چاہيے"۔

ہميں اس بات کا ادراک ہے کہ يہ محض آغاز ہے اور سفر بہت طويل ہے۔ ليکن اس کے باوجود ماضی ميں رہنے کے مقابلے ميں آگے بڑھنا زيادہ بہتر آپشن ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov

اچھی تقریریں ہر لیڈر کرلیتا ہے لیکن اصل مسئلہ عمل کرنا ہے۔ امریکہ کہتا کچھ ہے کرتا کچھ ہے۔ پاکستانیوں کی زندگی امریکہ کی وجہ سے جہنم بن گئی ہے۔ امریکی عہدیداروں کے قول وفعل میں‌ہمیشہ تضاد رہا ہے۔ اب فرماتے ہیں کہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔مسلمان ، ہندو، عیسائی، یورپین، امریکی، افغانی سب انسان ہیں۔ لیکن امریکہ نے دنیا میں جو انسانیت سوز سلوک کیا ہے اور بے گناہوں کی جان لی ہے۔ اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ایسا ظلم تو ہلاکو خان، چنگیز خان، ہٹلر نے نہیں کیا ہوگا جیسا امریکہ نے کیا ہے۔

اللہ تعالٰی دنیا کو امریکہ جیسے عظیم شیطان سے نجات دلائے۔ آمین
 
Top