اوریا کا بوریا از عبدالمجید عابد ۔ ڈان اردو

فاتح

لائبریرین
اوریا کا بوریا
عبدالمجید عابد
ڈان اردو
orya-n-hillary.jpg

اوریا مقبول جان، ہلیری کلنٹن کے ساتھ — فوٹو بشکریہ نیوز لائن میگزین

برطانیہ نے نوے سال تک براہ راست برصغیر پر حکومت قائم رکھی۔ اس تمام عرصے کے دوران حکومت کا کام افسر شاہی کے ذمے تھا۔

سن 1857 سے تقسیم تک برطانوی افسروں کی تعداد کبھی ایک ہزار سے تجاوز نہیں کی، بلکہ تقسیم کے وقت متحدہ ہندوستان میں کل چھے سو چالیس برطانوی افسر تعینات تھے اور انہوں نے کروڑوں کی آبادی اور ایک وسیع و عریض علاقے پر برطانوی راج قائم رکھا۔ ایک برطانوی وزیر اعظم نے اس افسر شاہی کو برطانوی راج کا آہنی ڈھانچہ قرار دیا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس سروس میں ہندوستانی افراد کو بھی جگہ ملی اور انکی تربیت برطانوی افسروں کی طرض پر ہی کی جاتی۔ پاکستان بننے کے بعد اس سروس کے لوگ پاکستان میں پی سی ایس (پاکستان سول سروس) میں تبدیل ہو گئے۔

قیام پاکستان کے بعد سیاست دانوں کی نااہلی کے باعث افسر شاہی کو حکومت میں حصہ لینے کا موقع ملا اور غلام محمد، چوہدری محمد علی وغیرہ نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔

ان کے بعد آنے والوں نے براہ راست حکومت تو نہیں کی لیکن ان میں سے کئی افراد مثلا قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر البتہ ایوب خان کے قریبی حلقے میں ضرور شامل رہے۔ ان میں سے بہت سوں نے مصنف بننے کی کوشش بھی کی۔ چوہدری محمد علی نے ایک کتاب لکھی جو پاکستانی کی ’نظریاتی‘ جہت کی جانب پہلا قدم شمار کی جاتی ہے۔ الطاف گوہر اور شہاب صاحب نے بھی اس میدان میں مشق آزمائی کی۔

ان کتابوں میں عام طور پر اپنے کارناموں کی تفصیل بیان کی جاتی ہے اور پاکستان کی جملہ خامیوں پر ماہرانہ انداز میں تبصرہ کیا جاتا ہے۔

ہمارے زمانہء ِ طالب علمی کے دوران کسی محفل میں جب بھی اردو ادب کی بات چھڑتی تھی تو چند مخصوص کتابوں اور مصنفین کا تذکرہ ضرور ہوتا تھا۔ ان کتابوں میں شہاب نامہ سر فہرست تھی (آج کل ’بابا صاحبا‘ کو یہ مقام حاصل ہے)۔

ہمارے ایک استاد کے مطابق ’شہاب نامہ دراصل بارہ مصالحوں کی چاٹ کی مثل ہے۔ اس میں قاری کو مزاح بھی ملتا ہے، تلقین بھی، افسانہ بھی، تصوف بھی اور کچھ کچھ تاریخ بھی۔‘

قدرت اللہ شہاب کا شمار ملک کے ان مصنفین میں ہوتا ہے جو ساری عمر افسر شاہی کا حصہ رہے۔ اپنے عروج کے دور میں موصوف ایوب خان کے دست راست سمجھے جاتے تھے اور انہوں نے اردو لکھاریوں کی ایک گلڈ تشکیل دی، جو ادیبوں کے سالانہ جلسے حکومتی خرچ پر منعقد کرواتی رہی۔

کہا جاتا ہے کہ اس گلڈ کی بدولت ایوب خان کی حکومت نے اپنے آپ کو تنقید سے محفوظ کر لیا تھا اور اسی بہانے ادب کی درگاہ پر بھی پھول چڑھائے گئے۔

شہاب کے دیگر کارناموں میں پاکستان ٹائمز اور دیگر ترقی پسند اخبارات کا سرکاری تحویل میں لیے جانا اور 1963 کا جابرانہ پریس آرڈینینس بھی شامل ہیں۔

شہاب صاحب نے ساری عمر سرکار کی نوکری میں گزاری اور اواخر عمر میں صوفی ہو گئے۔ شہاب صاحب کے سلسلے کو انکی وفات کے بعد کچھ دیر زوال آیا لیکن عصر حاضر میں اس سلسلے کے ایک نئے گدی نشین کا ظہور پزیر ہوئے ہیں۔

جہادی اخبار ضربِ مومن کے لیے باقاعدہ لکھنے کے بعد یہ صاحب کافی عرصے سے دائیں بازو کے ایک اخبار کے صفحات پر براجمان ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے انکا ذکر کیا کہ کس طرح وہ حضرت شعیب کی قوم کے زوال کا سبب سرمایہ دارانہ جمہوریت کو ٹھہراتے ہیں، یا زیارت ریذیڈنسی کے نذر آتش ہونے پر انہوں نے دو قومی نظریے کو خدا کی جانب سے تقسیم قرار دیا۔ جی، میرا اشارہ حضرت اوریا مقبول جان کی جانب ہے، جنہیں چند شریر دوست بوریا مقبول کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

بین الاقوامی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جو افراد کسی مخصوص شعبے یا مضمون میں مہارت رکھتے ہیں، ان سے اسی مضمون یا شعبے پر رائے کے اظہار کے لیے کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی معاشیات کا ماہر ہے تو وہ اخبار میں اسی موضوع پر لکھے گا اور اپنی رائے کا اظہار کرے گا، ایسا ممکن نہیں کہ وہ طرز معاشرت یا طب کے متعلق بھی کہانی بننا شروع کر دے۔

ہمارے ملک میں فی الحال ایسا کوئی رواج نہیں اور اس کے باعث ہمارے کالم نویس اور ٹی وی اینکر (اور اکثر مہمان) ہر فن مولا سمجھے جاتے ہیں۔ فلسفے سے لے کر طب اور دودھ کے بڑھتے نرخوں تک، ہر مسئلے پر ان خواتین و حضرات کو عبور حاصل ہے۔

اوریا صاحب کی زندگی کی کہانی انہی کی زبانی سن لیجیے:

’میں نے سات سال کی عمر میں شاعری شروع کی، بارہ سال کی عمر میں میری پہلی غزل ایک مؤقر ادبی جریدے میں چھپی، سولہ سال کی عمر میں پہلا افسانہ میں نے حلقہ ارباب ذوق میں پڑھا۔ 1988 میں میرا شعری مجموعہ ’قامت‘ شائع ہوا۔ اس کے بعد میں نے بیس سال ٹیلی ویژن پر ڈرامے لکھے جن میں پانچ سیریل اور پچاس سے زیادہ انفرادی ڈرامے شامل ہیں۔ میری بنیادی تعلیم نفسیاتی امراض کے علاج سے متعلق ہے۔ میں یہ مضمون بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا ہوں۔ لاہور مینٹل ہسپتال میں میں نے دو سال تربیت حاصل کی ہے۔‘

یہ ساری تمہید باندھنے کے بعد اسی مضمون میں اوریا صاحب نے سعادت حسن منٹو کی قبر پر لاتیں رسید کی ہیں اور انکو جنسی ہیجان میں مبتلا قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ معاشرے میں فحاشی کی لت منٹو کے افسانوں جیسے دیگر افسانوں کی بدولت پھیلتی ہے۔

اوریا صاحب نے جانے کیسی نفسیات پڑھی اور پڑھائی، کہ انہیں ہمارے معاشرے کی گھناؤنی رسومات، دقیانوسی رواج اور جنسی تعلیم کا فقدان نظر نہیں آتا، منٹو کے افسانے ہی دکھائی دیتے ہیں۔

اوریا صاحب نے پاکستانی کالم نگاروں کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے ہر مسئلے میں ٹانگ ضرور اڑائی ہوتی ہے۔ کبھی انہیں خفیہ تنظیمیں عوام کی سوچ قابو کرتے نظر آتی ہیں تو کبھی و ہ تحریک طالبان پاکستان کے نام عشقیہ خطوط لکھتے نظر آتے ہیں، کبھی شام میں برپا خانہ جنگی انہیں قیامت کی قربت کا نشان دکھائی دیتی ہے اور کبھی ہندو جوتشیوں کی پیش گوئیوں کی بنیاد پر وہ ہند و پاک جنگ کا اعلان کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ انگریزی زبان کی جگہ طلبہ کو عربی اور فارسی پڑھانے کے حق میں ہیں۔

تاریخ اور حقائق میں گڑبڑ کرنے کی روش جاوید چوہدری، حامد میر، جنید سلیم اور اس قماش کے دیگر افراد کا خاصہ رہا ہے البتہ اوریا مقبول صاحب اس فن کو نئی انتہاؤں تک لے جانے کا اعزاز رکھتے ہیں۔

معاشیات کے مضمون پر حضرت کا خصوصی کرم ہے۔ ان کے مطابق دنیا کے تمام سرکاری بینک ایک خفیہ ادارے کے ماتحت کام کرتے ہیں جہاں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کس ملک کو غریب رکھنا ہے اور کسے امیر کرنا ہے۔

آپکا کا یہ بھی فرمانا ہے کہ کرنسی نوٹ اور اے ٹی ایم مشینیں اور بینک دجالی نظام کی گواہی دیتے ہیں جسے یاجوج ماجوج نے نافذ کر رکھا ہے۔ ایک کالم میں صرف اپنی علمیت جھاڑنے کے لیے KIBOR کا ترجمہ تک غلط کر دیا۔

ایک بار یہ بھی انکشاف کیا کہ دنیا نے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے اسلامی بینکاری کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ ایک جگہ لکھا کہ برطانوی راج نے برصغیر میں ترقیاتی کام کیا لیکن کبھی قرضہ نہیں لیا (اس قسم کی بونگ میٹرک کے طلباء بھی نہیں مارتے)۔ ایک کالم میں نیوٹن غریب کو سونے کے سکوں کی جگہ کرنسی نوٹ جاری کروانے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا اور ایک دن انکشاف کیا کہ یہود دراصل یاجوج ماجوج کی جدید شکل ہیں۔

پاکستانی دائیں بازو کی روایت زندہ رکھتے ہوئے اوریا صاحب کسی بھی مسئلے کا صر ف ایک پہلو (جو انکے موقف سے مطابقت رکھتا ہو) پر روشنی ڈالتے ہیں۔ منٹو والے مضمون میں انہیں ’ٹھنڈا گوشت‘، ’بلاؤز‘ اور ’کھول دو‘ تو نظر آئے، ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ ، ’انکل سام کے نام خطوط‘ یا ’نیا قانون‘ کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا.

اسی طرح مصر میں اخوان کی حکومت کے خلاف ’سیکولر‘ اقدامات پر طعن و تشنیع تو ہوئی لیکن اس عمل کی حمایت کرنے والی سلفی جماعت اور مشرق وسطیٰ کی مسلمان حکومتیں نظر نہ آئیں۔

بنگلہ دیش میں غلام اعظم کو ملنے والی سز ا پر ایک پورا کالم لکھ مارا لیکن البدر یا الشمس کی جانب اشارہ تک نہیں کیا بلکہ بنگلہ دیش کی موجودہ ترقی پر بوگس اعتراضات کا پلندہ پیش کیا۔ اس موضوع پر انکے ایک کالم سے حامد میر کے والد صاحب کے سنہری الفاظ ملاحضہ کریں:

’مشرقی پاکستان، بھارت، مشرقی پاکستان کے ہندوؤں اور پاکستان کے کمیونسٹ اور قوم پرست دانشوروں کی مسلسل محنت سے ٹوٹا‘۔

وارث میر صاحب کافی عرصہ نوائے وقت میں کالم لکھتے رہے لہذا انکی ’نظریاتی اُپج‘ کافی واضح ہے البتہ اوریا مقبول نے بھی ایسے لغو الفاظ لکھتے وقت کسی تاریخی کتاب کا مطالعہ کرنے یا حوالہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔

اوریا صاحب نہ جانے کس بوٹی کا استعمال کرتے ہیں جو انہیں ہر سمت سے سازش کی بو آتی ہے اور وہ یک طرفہ حقائق کی بنیاد پر الم غلم کہانیاں گھڑ لیتے ہیں۔

گزشتہ دنوں صاحب بہادر نے ملالہ کو موضوع سخن بنایا اور حسب معمول اس پندرہ سالہ بچی کے خوب لتّے لیے (اس کار خیر میں انصار عباسی اور طلعت حسین نے بھی اگلے روز مقدور بھر حصہ لیا)۔

کچھ تفشیش کرنے پر معلوم ہوا کہ اوریا صاحب کا وہ کالم جولائی 2013 میں ایک برطانوی اخبار میں چھپنے والے مضمون کا چربہ ہے۔ یعنی پاکستانی افسر شاہی کے علم بردار، تنقید میں بھی عقل سے زیادہ نقل سے کام لینے کے شوقین ہیں۔

سچ پوچھیں تو ہم افسر شاہی سے اسی قسم کے نظریات کی توقع کرتے ہیں۔ اسکی وجہ جاننے کے لیے پچھلی دہائی میں مقابلے کے امتحانات کے کچھ سوالات ملاحظہ کریں:

- ’دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی بڑائی اور شان وشوکت پر تفصیلی مضمون لکھیں‘.

- ’اسلام میں خلافت کے تصور کو تفصیل سے بیان کریں‘،

- ’اسلام کے سیاسی اور عدالتی نظام پر روشنی ڈالیں‘۔

- ’سانحہ مشرقی پاکستان کے بنیادی اسباب بیان کریں اور اس واقعہ کے پاکستان کی تاریخ پر کیا اثرات مرتب ہوئے‘ ،

- ’برطانوی اور ہندووانہ سازش کے نتیجے میں پاکستان کی تخلیق قائد کی سوچ کے مطابق نہیں ہو سکی، اس پہلو پر روشنی ڈالیں‘۔
 

x boy

محفلین
ہم نے تو جان لیا کہ اوریا مقبول جان بقلم قاضی عبدالمجید عابد سے ، اب ہمیں جاننا ہے کہ یہ قاضی عبدالمجید عابد کون ہے
کوئی ہے جو اس کے بارہ میں معلومات دے سکے، ایک دو پیچ سے کام نہیں چلے گا،اتنا تو میں بھی جانتا ہوں کہ
انکا پورا خاندان پی پی پی کے کارکن ہیں انکی بیٹی فہمیدہ مرزا کو کون نہیں جانتا اسپیکر تھی اور ذوالفقار مرزا
کی بیوی ہے اسی ذوالفقار مرزا نے لندن میں حلیم بھی کھائی ۔ بعد میں کچھ مہینے زبردست طریقے سے
پاکستانی اخباروں اور ٹی وی میڈیا کی فرسٹ کلاس زینت رہا۔
 
Top