محمد ندیم اعظم
محفلین
ھم لوگ کچھ زیادہ ہی خوش فہم واقع ہوئے ہیں۔لبنان میں اسرائیل کو شکست سے ہمکنار کرنے کا نشہ ا بھی باقی تھا کہ عراق میں آئے دن خودکش حملوں سے امریکی فوجیوں کی حد سے زیادہ ہلاکتیں ہمیں یہ ثابت کرانے میں کامیاب ہیں کہ امریکہ امر بالمجبوری عراق میں پھنس چکا ہے ۔دوسری طرف امریکی ایوانوں میں ڈیمو کریٹس کی فتح ہمیں یہ باور کرا رہی ہے کہ امریکہ کی بش عراق پالیسی رفتہ رفتہ نا کامی کی طرف گامزن ہے۔میرے خیال میں یہ خوش فہمی ھم جیسے جذباتی لوگوں کو مطمئن کرنے میں کافی ہے۔ لیکن صاحبو! یہ بات بھی عیاں ہے کہ ڈیموکریٹس کی بھرپور تحریک کے باوجود جناب بش اپنی پالیسیوں پر ہٹ دھرمی سے عمل پیرا ہیں اور اس بات سے بھی آپ کو اتفاق ہو گا کہ آج تک وہ صرف خالی دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں کر سکے۔اگرچہ آجکل جناب بش امریکہ میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ ہیں۔مگراس کی وجہ ان کا عراق پر حملہ کرنا نہیں بلکہ ان کی ظاہری شکست ہے۔امریکی عوام کی طرف سے ان کا مسترد ھونا ان کے واضح مقاصد میں تاخیری ہے۔اگر ڈیموکریٹس کو اِتنا ھی انسانیت کا فکر ھوتا تو افغانستان سے بھی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ کرتے مگر اس طرف توجہ ندارد۔یہ بات اگرچہ کچھ وزن رکھتی ہے کہ اسرائیل کو لبنان میں خلاف توقع کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔لیکن مقا م سوچ یہ ہے کہ دو فوجیو ں کے اغوا پر لبنان کی اینٹ سے اینٹ بجانے والا یہ یہودی مکار اقوام متحدہ کی ایک تحریک پر جنگ سے دستبردار ھو گیا۔ عالمی میڈیا کی بھرپور مخالفت مول لینے والا یہ بپھرا ھوا شیر خود ھی سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔کیا یہ شکست کا انداز ہے یا مذموم مقاصد کی تکمیل پر میدان جنگ سے جاتے ہوئے فاتح کا ایک منظر؟کیا کہا؟ ہمیں ان کے مقاصد سے کیا لینا دینا۔ھمیں تو اتنا ہی کافی ہے کہ ہم نے نئیوکلئیر طاقت رکھنے والےخان بہادر کو جنگ بندی پر مجبور کر دیا۔ واہ رے! کیا خوش فہمی ہے؟یہودی تاریخ کے تناظر میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس عیار نے جو قدم بھی اٹھایا اس کے پیچھے دو طرح کی منصوبہ بندی کی بو آتی ہے۔
(۱)شارٹ ٹرم پلاننگ (۲)لانگ ٹرم پلاننگ
سوال یہ کہ اس حالیہ جنگ کی مرقع کشی میں کونسی لابی کارفرما نظر آتی ہے؟شارٹ ٹرم پلاننگ کا مقصد وقتی فوائدوثمرات کے ساتھ ساتھ لانگ ٹرم پلاننگ کے لئیے کامیابی کی راہ ہموار کرنا ہے۔شارٹ ٹرم پلاننگ میں شیعہ جماعت حزب اللہ کو نہتا کرنا یا کم از کم کمزور کرنا تھا۔تاکہ اگر کسی شیعہ اکثریت ملک پر حملہ مقصود ھو تو پشت پر حملے کے امکانات کم سے کم ہوں۔ اس سلسلے میں لبنان کو صنعتی و اقتصادی طور پر پسیماندہ کرنا بھی ایک اہم کڑی تھا۔جہاں تک لانگ ٹرم پلاننگ کی بات ہے تو اس کے اثرات ابھی سے واقع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔اس کی ایک بڑی مثال لبنان کی موجودہ صورتحال ہے۔جہاں حکومتی پارٹی اور حزب اللہ کے درمیان باہمی چپقلش کی وہ چنگاری سلگ رہی ھے جو کسی وقت بھی پورے ملکی ڈھانچے کو خاکستر کر سکتی ہے۔ایران کی حزب اللہ حمایت مشرق وسطی کے دیگر ممالک بالخصوص سعودی عرب کی آنکھ میں کٹھک رہی ہے۔جو کہ شیعہ سنّی فسادات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔جس کی آگ میں عراق پہلے ھی جل رہا ہے۔صدام کے دور میں ایک ایوان میں بیٹھنے والے شیعہ و سنّی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں۔ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں اگر یہ آگ کچھ شدت پکڑنے میں کامیاب ہوگئی تو ایران اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا۔ایران پرممکنہ امریکی حملہ جلتی پر تیل ثابت ہو گا۔امریکہ سرکار مشرق وسطی کی ہمدردیاں سمیٹتے ہوئےاپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ دور کرنے کی کوشش کرے گا اگراسکی نوبت نہ بھی آئی تو حالات مشرق وسطی کو ایران کے مدمقابل کھڑا کرنے میں کافی اہم ثابت ہوں گے۔منقسم عراق کسی کے لئیے بھی قابل قبول نہ ہو گا۔یہ بات واضح رہے کہ عراقی سنّی آبادی کو سعودی عرب کی علانیہ حمایت و امداد جاری ہے۔جبکہ اس بات کی شنید بھی ہےکہ عراقی شیعہ آبادی کو درپردہ ایران کی حمایت حاصل ہے۔یہ بات مسلّمہ ہے کہ مشرق وسطی و دیگر ممالک بشمول پاکستان ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کے خلاف ہیں مگر جب سر پر پڑی تو سب کو اپنے مفادات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔مشرق وسطی میں وہ آگ بھڑک اٹھے گی جو کہ اپنوں کو ہی جلا کر راکھ کر دے گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ھم محض تماشائی ہوں گے؟نہیں ۔ گلوبل ویلیج کے اس دور میں دنیا سے کٹ کر رہ جانے کا سوال بے معنی ہے۔تو کیا پھروطن عزیز بھی!یقیناً ان فسادات کادیو اناًفاناً نگل لے گا۔جہاں پہلے ہی دہشت گردی اور سیاسی چپقلش ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ھماری حکومتی مشینری،صنعتی و اقتصادی مشینری تو اِن کے اشتراک سے چل رہی ہے۔ ملک گیر شیعہ سنّی فسادات ھمیں اپنی آگ میں جھلسا کر رکھ دیں گے۔ کیا سالوں کی محنت ضائع ہو جا ئے گی؟وہ پودا جس کی ھم نے اپنے خون سے آبیاری کی خود ہی اسے آگ میں ڈال دیں گے؟یقیناًاگر نوبت آئی تو ھمیں اس تباہی کا منتظر رھنا ھو گا۔تاریخ کو سقوط بغداد کا منظر دھرانا ھو گا۔عظیم الشان عباسی سلطنت کے تاروپود بکھیرنے والےتاتاریوں کو دعوت دینے والے شیعہ سنی فسادات ھمارے مستقبل پر دستک دے رہے ہیں۔کیا تاریخ ھم سے ایک اور سقوط کامطالبہ کر رہی ہے؟کیا اس کھیل میں تاتاریوں کا کردار اسرائیل یا امریکہ شیر بہادر کو ادا کرنا ہو گا؟یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔کیا بولے،میں مستقبل کے بارے میں محض خدشات کا اظہار کر رھا ہوں۔ چلئیے فلسطین چلتے ہیں۔ آزادی و خودارادیت کا علَم بلند کیے،ایک منزل کی راہی، ھم سفردو نمائندہ جماعتیں ایک دوسرے کے خون سے اپنے ھاتھ رنگ رہی تھیں ۔صحیح مقصد جدوجہد بھول کرمشترکہ قوت پیش کرنے کی بجائےاپنی ہی قوت میں کمی کا باعث بنیں۔ عوام کے جذبات سے کھیلا جا رھا تھا۔اور آج اسرائیل دونوں کے باہمی اختلا فات سے فایدہ اٹھا کر ریاستی ظلم کا بازار گرم کیے ہوے ہے۔ یہ ہے اس آگ کا چہرہ جسے اسرائیل و امریکہ نے دور رس مفادات کے پیش نطر لبنان،عراق اور فلسطین میں لگائی۔ اور اب خود تماشائی بنے محظوظ ہورہے ہیں۔یہ ہیںوہ مذموم و گھٹیا مقاصد و عزائم جن کی تکمیل کی خاطر ایسے گھنائونے کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی خاطر چند فوجیوں کی ھلاکت کا سودا مہنگا نہیں اور لبنان کے مکمل انفراسٹرکچر،صنعت و حکومتی مشینری کی تباھی کے بدلے میں ظاھری شکست بےمعنی سی ہے۔بے وقعت ہے۔ویسےکیا خیال ہے آپ کا؟ سنا ہے اسرائیل پچھلے چند عشروں سے کیمیائی و حیاتیاتی ھتھیاروں کے ڈھیر لگا رھا ھے۔چھوٹے راکٹوں سے لے کر بین البراعظمی میزائیل خریدے جا رہے ہیں۔آخر کیا کسی بڑی جنگ کی تیاری ہورھی ہے؟اور وہ بھی تاتاریوں کے ایک روپ میں۔ جواب دیجیئے۔
مئولف کردہ: محمد ندیم اعظم(ایم۔این۔اے)
MNA (Muhammad Nadeem Azam)
geniusmuslim@hotmail.com
(۱)شارٹ ٹرم پلاننگ (۲)لانگ ٹرم پلاننگ
سوال یہ کہ اس حالیہ جنگ کی مرقع کشی میں کونسی لابی کارفرما نظر آتی ہے؟شارٹ ٹرم پلاننگ کا مقصد وقتی فوائدوثمرات کے ساتھ ساتھ لانگ ٹرم پلاننگ کے لئیے کامیابی کی راہ ہموار کرنا ہے۔شارٹ ٹرم پلاننگ میں شیعہ جماعت حزب اللہ کو نہتا کرنا یا کم از کم کمزور کرنا تھا۔تاکہ اگر کسی شیعہ اکثریت ملک پر حملہ مقصود ھو تو پشت پر حملے کے امکانات کم سے کم ہوں۔ اس سلسلے میں لبنان کو صنعتی و اقتصادی طور پر پسیماندہ کرنا بھی ایک اہم کڑی تھا۔جہاں تک لانگ ٹرم پلاننگ کی بات ہے تو اس کے اثرات ابھی سے واقع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔اس کی ایک بڑی مثال لبنان کی موجودہ صورتحال ہے۔جہاں حکومتی پارٹی اور حزب اللہ کے درمیان باہمی چپقلش کی وہ چنگاری سلگ رہی ھے جو کسی وقت بھی پورے ملکی ڈھانچے کو خاکستر کر سکتی ہے۔ایران کی حزب اللہ حمایت مشرق وسطی کے دیگر ممالک بالخصوص سعودی عرب کی آنکھ میں کٹھک رہی ہے۔جو کہ شیعہ سنّی فسادات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔جس کی آگ میں عراق پہلے ھی جل رہا ہے۔صدام کے دور میں ایک ایوان میں بیٹھنے والے شیعہ و سنّی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں۔ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں اگر یہ آگ کچھ شدت پکڑنے میں کامیاب ہوگئی تو ایران اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا۔ایران پرممکنہ امریکی حملہ جلتی پر تیل ثابت ہو گا۔امریکہ سرکار مشرق وسطی کی ہمدردیاں سمیٹتے ہوئےاپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ دور کرنے کی کوشش کرے گا اگراسکی نوبت نہ بھی آئی تو حالات مشرق وسطی کو ایران کے مدمقابل کھڑا کرنے میں کافی اہم ثابت ہوں گے۔منقسم عراق کسی کے لئیے بھی قابل قبول نہ ہو گا۔یہ بات واضح رہے کہ عراقی سنّی آبادی کو سعودی عرب کی علانیہ حمایت و امداد جاری ہے۔جبکہ اس بات کی شنید بھی ہےکہ عراقی شیعہ آبادی کو درپردہ ایران کی حمایت حاصل ہے۔یہ بات مسلّمہ ہے کہ مشرق وسطی و دیگر ممالک بشمول پاکستان ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کے خلاف ہیں مگر جب سر پر پڑی تو سب کو اپنے مفادات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔مشرق وسطی میں وہ آگ بھڑک اٹھے گی جو کہ اپنوں کو ہی جلا کر راکھ کر دے گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ھم محض تماشائی ہوں گے؟نہیں ۔ گلوبل ویلیج کے اس دور میں دنیا سے کٹ کر رہ جانے کا سوال بے معنی ہے۔تو کیا پھروطن عزیز بھی!یقیناً ان فسادات کادیو اناًفاناً نگل لے گا۔جہاں پہلے ہی دہشت گردی اور سیاسی چپقلش ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ھماری حکومتی مشینری،صنعتی و اقتصادی مشینری تو اِن کے اشتراک سے چل رہی ہے۔ ملک گیر شیعہ سنّی فسادات ھمیں اپنی آگ میں جھلسا کر رکھ دیں گے۔ کیا سالوں کی محنت ضائع ہو جا ئے گی؟وہ پودا جس کی ھم نے اپنے خون سے آبیاری کی خود ہی اسے آگ میں ڈال دیں گے؟یقیناًاگر نوبت آئی تو ھمیں اس تباہی کا منتظر رھنا ھو گا۔تاریخ کو سقوط بغداد کا منظر دھرانا ھو گا۔عظیم الشان عباسی سلطنت کے تاروپود بکھیرنے والےتاتاریوں کو دعوت دینے والے شیعہ سنی فسادات ھمارے مستقبل پر دستک دے رہے ہیں۔کیا تاریخ ھم سے ایک اور سقوط کامطالبہ کر رہی ہے؟کیا اس کھیل میں تاتاریوں کا کردار اسرائیل یا امریکہ شیر بہادر کو ادا کرنا ہو گا؟یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔کیا بولے،میں مستقبل کے بارے میں محض خدشات کا اظہار کر رھا ہوں۔ چلئیے فلسطین چلتے ہیں۔ آزادی و خودارادیت کا علَم بلند کیے،ایک منزل کی راہی، ھم سفردو نمائندہ جماعتیں ایک دوسرے کے خون سے اپنے ھاتھ رنگ رہی تھیں ۔صحیح مقصد جدوجہد بھول کرمشترکہ قوت پیش کرنے کی بجائےاپنی ہی قوت میں کمی کا باعث بنیں۔ عوام کے جذبات سے کھیلا جا رھا تھا۔اور آج اسرائیل دونوں کے باہمی اختلا فات سے فایدہ اٹھا کر ریاستی ظلم کا بازار گرم کیے ہوے ہے۔ یہ ہے اس آگ کا چہرہ جسے اسرائیل و امریکہ نے دور رس مفادات کے پیش نطر لبنان،عراق اور فلسطین میں لگائی۔ اور اب خود تماشائی بنے محظوظ ہورہے ہیں۔یہ ہیںوہ مذموم و گھٹیا مقاصد و عزائم جن کی تکمیل کی خاطر ایسے گھنائونے کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی خاطر چند فوجیوں کی ھلاکت کا سودا مہنگا نہیں اور لبنان کے مکمل انفراسٹرکچر،صنعت و حکومتی مشینری کی تباھی کے بدلے میں ظاھری شکست بےمعنی سی ہے۔بے وقعت ہے۔ویسےکیا خیال ہے آپ کا؟ سنا ہے اسرائیل پچھلے چند عشروں سے کیمیائی و حیاتیاتی ھتھیاروں کے ڈھیر لگا رھا ھے۔چھوٹے راکٹوں سے لے کر بین البراعظمی میزائیل خریدے جا رہے ہیں۔آخر کیا کسی بڑی جنگ کی تیاری ہورھی ہے؟اور وہ بھی تاتاریوں کے ایک روپ میں۔ جواب دیجیئے۔
مئولف کردہ: محمد ندیم اعظم(ایم۔این۔اے)
MNA (Muhammad Nadeem Azam)
geniusmuslim@hotmail.com