فرخ منظور
لائبریرین
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ روزنِ دیوار سے از عطا الحق قاسمی
بشکریہ جنگ
9/26/2009
عید کے ہنگامے گزر گئے، عید کی نماز بھی پڑھ لی، سویاں بھی کھالیں، لوگوں سے عید بھی مل لئے، بچوں میں عیدیاں بھی تقسیم ہوچکیں، یہ سب کچھ ہوا لیکن ایک چیزحسب ِ منشا نہ ہوئی اوروہ ٹی وی چینلز کی ”عیدی“ تھی جو وہ اپنے طربیہ پروگراموں کی صورت میں اپنے ناظرین کو دیاکرتے تھے۔ عید کے روز اور اس سے اگلے دو روزبھی وہی سیاسی مناظرے دیکھنے کو ملے جن میں سے کچھ اپنی یکسانیت کی وجہ سے اب آہستہ آہستہ اپنی دلچسپی کھوتے چلے جارہے ہیں البتہ ایک ٹا ک شو خالصتاً عید کے حوالے سے تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ خوشیاں اور امیدیں بانٹنے والا شو ہوگا کیونکہ اس کے اینکر میرے دوست ہیں اور بہت خوشگوار شخصیت کے مالک ہونے کے علاوہ موقع محل کے مطابق پروگرام ترتیب دینے کا ہنر جانتے ہیں لیکن اس سارے پروگرام میں صرف اورصرف منفی اور اداس کرنے والی باتیں ہوئیں۔ عید کے روز دکھائے جانے والے اس ماتمی پروگرام نے میری ان کوششوں پرپانی پھیر دیا جو میں کم از کم سال میں دوعیدوں پر خود کو خوش رکھنے کے لئے شعوری طورپر کرتا ہوں۔ ان پروگراموں کے علاو ہ کچھ پروگرام وہ بھی تھے جن میں عید کے ذرق برق لباس میں ملبوس کوئی خاتون اینکرپرسن اور (عموماً) شوبز سے تعلق رکھنے والے اس کے مہمان ہوتے ہیں جو پروگرام میں ہلاگلا ڈالنے کے لئے ایک دوسرے کی فضول سی باتوں پر خواہ مخواہ ہنستے رہتے ہیں البتہ مختلف چینلز سے دو تین بہت دلچسپ پروگرام دیکھنے کو ملے لیکن وہ بھی اشتہاروں کی بھرمار کی نذر ہوتے چلے گئے۔ مشتاق احمد یوسفی ہمارے دور کے زندہ لیجنڈ ہیں۔ ”جیو“ نے ”بزبان ِ یوسفی“ طنز و مزاح پر مشتمل ان کی خوبصورت نثر سنانے کا اہتمام کیا تھا جسے پڑھے لکھے اور ادب کا گہراذوق رکھنے والے ناظرین کے لئے عید کا تحفہ قرار دیا جاسکتا ہے!
سو یہ جو عیدالفطر تھی، اس کے تینوں روز ٹی وی چینلوں سے طربیہ کم اور المیہ پروگرام زیادہ دیکھنے کو ملے۔ سب سے بڑا المیہ پروگرام توایسا تھاکہ اس نے اگلی پچھلی ساری کسریں نکال دیں۔ اس کا تعلق رویت ِ ہلال سے تھا۔ سرحد میں اے این پی کی حکومت نے عید سے کئی روز پیشتر ”اتحاد ِ عالم اسلام“ کے لئے پاکستان میں عید، سعودی عرب کے ساتھ منانے کی تجویز پیش کی جسے کسی بھی حلقے سے پذیرائی نہیں ملی، مگر ہمارے اے این پی کے دوست اس تجویزکے ساتھ اتنے مخلص تھے کہ مرکزی رویت ِ ہلال کمیٹی کے اجلاس کا انتظار کئے بغیر ایک روزپیشترپشاور کی مسجد قاسم خان میں مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی ”اقتداء“میں عید کا چاند دیکھنے بیٹھ گئے اور پھرہر سال کی طرح اس دفعہ بھی صوبہ سرحد کے مختلف حصوں سے چاند نظر آنے کی ”شہادتیں“ موصول ہونا شروع ہوگئیں اور یوں مبارک سلامت کے شور میں اتوار کی عید کا اعلان کردیاگیا، میرے ”چچا“ پروفیسرپری شان خٹک مرحوم ان شہادتوں کا ”پس منظر“ یہ بتایا کرتے تھے کہ ان کے علاقے میں اگر کوئی راہ گیر دوسرے راہ گیر سے پوچھے ”چاند نظر آگیا؟“ تو وہ راہ گیر اس سوال کے استفہایہ انداز کو نظر انداز کرکے اسے چاند نظر آنے کی شہادت سمجھتا ہے اور پھر اگلے روز عید ہو جاتی ہے۔ بہرحال اے این پی والے بہت زیرک اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ اللہ جانے ان کی مَت کیوں ماری گئی کہ وہ ایک خالص مذہبی معاملے میں پارٹی بن گئے اور اتنے پارٹی بنے کہ خدشہ ہے کہ لوگ کہیں اے این پی کو ”رویت ِ ہلال پارٹی“ کہنا نہ شروع کردیں۔ جب تمام ماہرین فلکیات اس بات پر متفق ہیں کہ ہفتے کے روز چاند کی”پیدائش“ ہی نہیں ہوئی تھی تو ایک ہزار لوگ بھی چاند نظر آنے کی شہادت دیں،وہ شہادت کیسے قبول کی جاسکتی ہے خصوصاً اس صورت میں جب برس ہا برس سے صوبہ سرحد کے کچھ علاقوں میں پورے ملک سے ایک دن پہلے عید منانے کی ریت چلی آرہی ہو؟ مسجد قاسم خان پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی اگر مفتی اعظم عبدالرحیم پوپلزئی کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں تو ان سے ہماری توقعات دین کے معاملے میں احتیاط کے حوالے سے دوسروں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ اسی طرح مفتی منیب الرحمن ایک نہایت قابل احترام عالم دین ہیں۔ میں ان کی سنجیدہ روش اور عالمانہ طرز ِگفتگو سے بہت متاثرہوں تاہم اس دفعہ وہ طیش میں نظر آئے جس کی بظاہر گنجائش بھی تھی مگر اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ انہیں ہرطرح کے حالات میں اپنی بردباری کو برقرار رکھنا چاہئے۔
ویسے ہمیں مولانا جعفر شاہ پھلواروی مرحوم کی اس دلیل کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جب ہم رمضان میں سحری اور افطار کے وقت روشنی کی لکیر یا غروب ِ آفتاب کی نشانیاں دیکھنے کی بجائے سائرن کی آواز یا ٹی وی سے اعلان سن کر سحری اور افطاری کرتے ہیں اور اسی طرح پانچوں نمازوں کے جو اوقات مقررہیں اس کے مطابق ہم نمازیں اداکرتے ہیں اور ان نشانیوں کو تلاش نہیں کرتے جو ان نمازوں کے لئے مقرر ہیں تو رمضان المبارک اور عیدین کے موقع پر ہم چاند کے طے شدہ روٹ کے مطابق روزوں کا آغاز کیوں نہیں کرسکتے اور مقررہ تاریخ پر عید کیوں نہیں منا سکتے؟ اگر آپ اس مسئلے کی مزید وضاحت چاہتے ہیں تو مولانا پھلواروی مرحوم کی کتاب ”اجتہادی مسائل“ کا مطالعہ کریں، اس کے مطالعے سے رویت ِ ہلال کے علاوہ بعض ان دوسرے مسائل کے سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے جنہیں بہت متنازع سمجھا جاتاہے!
اور کالم کے آخر میں یہ کہ بعض اینکرپرسن نے بھی رویت ِ ہلال کی ”جنگ“ میں بہت چسکے لئے او ردونوں ”پارٹیوں“ کو مشتعل کرکے ان کی شعلہ بیانیوں سے ہمیں ”محظوظ“ کیا۔ البتہ عید کے چوتھے روز حامد میر نے ”کیپٹل ٹاک“ میں اس آگ کو بھڑکانے کی بجائے اسے بجھانے کی کوشش کی چنانچہ اس مسئلہ کے حل کے قریب بھی پہنچ گئے۔اللہ کرے یہ کوشش پوری طرح باور آور ثابت ہو، یہ مسئلہ ایسا نہیں تھا کہ دونوں طرف سے بیانات کی تلواریں میانوں سے نکل آتیں لیکن وہ جو کسی نے کہاہے کہ:
یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
تو رویت ِ ہلال کے مسئلے پر بھی ایسا ہی ہوا، امید ہے آئندہ ”جنو ں کے آثار “ کو ”دیوانگی“ تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی جائے گی!
بشکریہ جنگ
9/26/2009
سو یہ جو عیدالفطر تھی، اس کے تینوں روز ٹی وی چینلوں سے طربیہ کم اور المیہ پروگرام زیادہ دیکھنے کو ملے۔ سب سے بڑا المیہ پروگرام توایسا تھاکہ اس نے اگلی پچھلی ساری کسریں نکال دیں۔ اس کا تعلق رویت ِ ہلال سے تھا۔ سرحد میں اے این پی کی حکومت نے عید سے کئی روز پیشتر ”اتحاد ِ عالم اسلام“ کے لئے پاکستان میں عید، سعودی عرب کے ساتھ منانے کی تجویز پیش کی جسے کسی بھی حلقے سے پذیرائی نہیں ملی، مگر ہمارے اے این پی کے دوست اس تجویزکے ساتھ اتنے مخلص تھے کہ مرکزی رویت ِ ہلال کمیٹی کے اجلاس کا انتظار کئے بغیر ایک روزپیشترپشاور کی مسجد قاسم خان میں مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی ”اقتداء“میں عید کا چاند دیکھنے بیٹھ گئے اور پھرہر سال کی طرح اس دفعہ بھی صوبہ سرحد کے مختلف حصوں سے چاند نظر آنے کی ”شہادتیں“ موصول ہونا شروع ہوگئیں اور یوں مبارک سلامت کے شور میں اتوار کی عید کا اعلان کردیاگیا، میرے ”چچا“ پروفیسرپری شان خٹک مرحوم ان شہادتوں کا ”پس منظر“ یہ بتایا کرتے تھے کہ ان کے علاقے میں اگر کوئی راہ گیر دوسرے راہ گیر سے پوچھے ”چاند نظر آگیا؟“ تو وہ راہ گیر اس سوال کے استفہایہ انداز کو نظر انداز کرکے اسے چاند نظر آنے کی شہادت سمجھتا ہے اور پھر اگلے روز عید ہو جاتی ہے۔ بہرحال اے این پی والے بہت زیرک اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ اللہ جانے ان کی مَت کیوں ماری گئی کہ وہ ایک خالص مذہبی معاملے میں پارٹی بن گئے اور اتنے پارٹی بنے کہ خدشہ ہے کہ لوگ کہیں اے این پی کو ”رویت ِ ہلال پارٹی“ کہنا نہ شروع کردیں۔ جب تمام ماہرین فلکیات اس بات پر متفق ہیں کہ ہفتے کے روز چاند کی”پیدائش“ ہی نہیں ہوئی تھی تو ایک ہزار لوگ بھی چاند نظر آنے کی شہادت دیں،وہ شہادت کیسے قبول کی جاسکتی ہے خصوصاً اس صورت میں جب برس ہا برس سے صوبہ سرحد کے کچھ علاقوں میں پورے ملک سے ایک دن پہلے عید منانے کی ریت چلی آرہی ہو؟ مسجد قاسم خان پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی اگر مفتی اعظم عبدالرحیم پوپلزئی کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں تو ان سے ہماری توقعات دین کے معاملے میں احتیاط کے حوالے سے دوسروں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ اسی طرح مفتی منیب الرحمن ایک نہایت قابل احترام عالم دین ہیں۔ میں ان کی سنجیدہ روش اور عالمانہ طرز ِگفتگو سے بہت متاثرہوں تاہم اس دفعہ وہ طیش میں نظر آئے جس کی بظاہر گنجائش بھی تھی مگر اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ انہیں ہرطرح کے حالات میں اپنی بردباری کو برقرار رکھنا چاہئے۔
ویسے ہمیں مولانا جعفر شاہ پھلواروی مرحوم کی اس دلیل کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جب ہم رمضان میں سحری اور افطار کے وقت روشنی کی لکیر یا غروب ِ آفتاب کی نشانیاں دیکھنے کی بجائے سائرن کی آواز یا ٹی وی سے اعلان سن کر سحری اور افطاری کرتے ہیں اور اسی طرح پانچوں نمازوں کے جو اوقات مقررہیں اس کے مطابق ہم نمازیں اداکرتے ہیں اور ان نشانیوں کو تلاش نہیں کرتے جو ان نمازوں کے لئے مقرر ہیں تو رمضان المبارک اور عیدین کے موقع پر ہم چاند کے طے شدہ روٹ کے مطابق روزوں کا آغاز کیوں نہیں کرسکتے اور مقررہ تاریخ پر عید کیوں نہیں منا سکتے؟ اگر آپ اس مسئلے کی مزید وضاحت چاہتے ہیں تو مولانا پھلواروی مرحوم کی کتاب ”اجتہادی مسائل“ کا مطالعہ کریں، اس کے مطالعے سے رویت ِ ہلال کے علاوہ بعض ان دوسرے مسائل کے سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے جنہیں بہت متنازع سمجھا جاتاہے!
اور کالم کے آخر میں یہ کہ بعض اینکرپرسن نے بھی رویت ِ ہلال کی ”جنگ“ میں بہت چسکے لئے او ردونوں ”پارٹیوں“ کو مشتعل کرکے ان کی شعلہ بیانیوں سے ہمیں ”محظوظ“ کیا۔ البتہ عید کے چوتھے روز حامد میر نے ”کیپٹل ٹاک“ میں اس آگ کو بھڑکانے کی بجائے اسے بجھانے کی کوشش کی چنانچہ اس مسئلہ کے حل کے قریب بھی پہنچ گئے۔اللہ کرے یہ کوشش پوری طرح باور آور ثابت ہو، یہ مسئلہ ایسا نہیں تھا کہ دونوں طرف سے بیانات کی تلواریں میانوں سے نکل آتیں لیکن وہ جو کسی نے کہاہے کہ:
یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
تو رویت ِ ہلال کے مسئلے پر بھی ایسا ہی ہوا، امید ہے آئندہ ”جنو ں کے آثار “ کو ”دیوانگی“ تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی جائے گی!