اور کیا محبت میں حال زار ہستی ہے - احسن مارہروی

کاشفی

محفلین
غزل
(شاگرد خصوصی بلبل ہند فصیح الملک حضرت داغ دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ جناب حضرت احسن مارہروی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ)
اور کیا محبت میں حال زار ہستی ہے
سر وبالِ گردن ہے، جان بارِ ہستی ہے
دل اِدھر ہے پژمردہ، جاں اُدھر ہے افسردہ
کس کو ان حوادث پر اعتبار ہستی ہے
آسماں اسے پیسے، آپ اس کو ٹھکرائیں
پائمال صد آفت، خاکسارِ ہستی ہے
سینکڑوں تمنائیں دم بدم کھٹکتی ہیں!
دل نہیں ہے پہلو میں ، خار زارِ ہستی ہے
غنچہ مسکراتے ہی پھول بن کے مرجھایا!
یہ فضائے عالم ہے، یہ بہارِ ہستی ہے
کچھ سکون حاصل ہو، زندگی میں ناممکن
ہر نفس سے وابستہ، انتشار ہستی ہے
سب نمائشیں وقتی، سب حقیقتیں فرضی
جس قدر زمانے میں کاروبارِ ہستی ہے
کوئی کیا ہنسے احسن جبکہ دہر فانی میں
سرخوش مسرت بھی سوگوارِ ہستی ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ کاشفی صاحب۔ عمدہ انتخاب ہے۔ ایک شعر دیکھیے گا مجھے لگتا ہے اس شعر میں حقیقتیں اور نمائشیں ہونا چاہیے۔

سب نمائش وقتی، سب حقیقت فرضی
جس قدر زمانے میں کاروبارِ ہستی ہے
 
Top