اوزان رباعی کی تسہیل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اوزان رباعی کی تسہیل
(پہلی قسط)
"رُباعی" ایک مقبول مگر، عام خیال کی رو سے، ایک مشکل صنف شعر ہے جو فارسی شعراء کی ایجاد ہے۔ اس صنف میں معدودے چند شعراء ہی طبع آزمائی کرکے اپنے فن کا لوہا منواسکے ہیں۔ فارسی میں عمر خیام رح کی رباعیات اپنی فنی باریکیوں اور نازک خیالی کے سبب عالمگیر شہرت حاصل کر چکی ہیں۔ 1859ء میں انگریز شاعر ایڈورڈ فٹس جیرلڈ Edward FitzGerald اس کا آزاد شعری ترجمہ کرکے خود بھی بام شہرت پر پہنچ چکے ہیں اور اس عظیم شاعر (عمر خیام) کی یورپ میں بنیادی (گو غلط!) تعارف کا بھی زینہ بن چکے ہیں۔ فٹس جیرلڈ کے آزاد بلکہ بعض اوقات غلط ترجموں نے عمر خیام جیسے غزالی کے پائے کے عالم و فاضل آدمی کو بھی بطور مُلحِد و دَہری متعارَف کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ تصدیق کے لیے نمونے کی ایک رباعی کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

گویند کساں بھشت با حور خوش ست
(مفعول مفاعلن مفاعیل فعول)

من می گویم کاب انگور خوش ست
(مفعولن مفعولن مفعول فعول)

ایں نقد بگیر و دست ازاں نسیہ بدار
(مفعول مفاعلن مفاعیل فعول)

کاواز دھل شنیدن از دور خوش ست
(مفعول مفاعلن مفاعیل فعول)

Some for the pleasures of this world, and some
Sigh for the Prophet's paradise to come.
Ah! Take the cash and let credit go
Nor heed the rumble of a distant drum.
کہا جاتا ہے کہ اس فن کی باریکی میں کئی ایک نامور اور جہابذۂ اہل فن نا دانستہ طور پر ٹھوکریں کھا چکے ہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سیالکوٹی ثم لاہوری کا نام اس ضمن میں بہت لیا جاتا ہے۔
غالب کی مشہور رباعی کا یہ مصرع:
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب،
معترضین کی جانب سے رباعی کے معروف اوزان سے عاری ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ معتذرین کی طرف سے کئی اعذار پیش کیے جاتے رہے ہیں مگر کوئی بھی عذر ان کے لیے شافی نہیں۔ بعض ایک "رک" کو حذف کرتے ہیں تو بعض "بند" کے ہندی تلفظ کا لطیفہ گھڑتے ہیں۔
اس عاجز کے خیال میں کسی قطع و بُرید کی قطعا کوئی حاجت نہیں، بس اس کا وزن:
مفعولن مفعول مفاعیلن فع
یا
مفعولن مفعولن مفعولن فع
لیا جائے تو کوئی مسئلہ نہیں رہتا اس بنیاد پر کہ "بند" کو "بَن" یعنی بِن دال کے پڑھا جائے جو کہ بند کا بالکل قدرتی، عمومی اور بے تکلف تلفظ ہے جس سے کسی لسانی و عروضی قانون پر زد نہیں پڑتی بلکہ صوتیاتی Phonetic/Phonological تغیر کا عین آئینہ دار ہے۔ بعینہ جس طرح آخوند کا تلفظ آخون بھی ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ (دیکھئے فیروز اللغات)
البتہ چونکہ صورت املائی سے یہ سارا اشتباہ پیدا ہوگیا ہے، اسلئے وزن کی خاطر اسے "بن" لکھنا مناسب ہوگا جس طرح لفظ ایک، میرا وغیرہ کو اک، مرا وغیرہ لکھا جاتا ہے۔ فیض کے ایک شعر میں "ہاتھ" کو بھی "ہات" لکھا ہے: ع
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
بعض لوگوں نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ ہنس، سنوارنا، باندھنا اور کنول وغیرہ کے نون پر قیاس کرکے بند کے نون کو بھی دال کے ساتھ مخلوط التلفظ مان کر گویا "بد" وزن لیا جائے۔ لیکن میرے خیال میں یہ تکلف محض ہے کہ استعمال سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔
رہی علامہ اقبال کی "رباعیات" تو چونکہ وہ میری نظر سے نہیں گزری اس لئے وثوق سے کہنا مشکل ہے البتہ جن محققین نے ان کو جانچا ہے تو ان کے مطابق وہ رباعی کے معروف اوزان سے خارج ہیں۔
اللہ ہی بہتر جانے کہ کیوں مگر فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ کسی بڑے سے بڑے شاعر کے لیے لغزشوں سے معصوم ہونا ضروری نہیں۔ اور تو اور، رباعی خود ایک وسیع و عریض میدان ہے اور اس کے الگ سے چوبیس (یا زیادہ) اوزان ہیں جن میں سے کئی ایک تو درحقیقت الگ بحور کہلانے کے مستحق ہیں اگر چہ روایتی طور پر بحر ہزج سے ہی ان کی تخریج ہوتی ہے اور ان پر زحافات کا چوڑا چکلا شامیانہ کسا جاتا ہے۔
مجھے کچھ عرصہ پہلے تک اپنے ایک قطعے کے متعلق خیال تھا کہ یہ رباعی ہے۔ اس وقت میں وزن و عروض سے آشنا نہیں تھا، اس لئے یہ پوری طرح موزون بھی نہیں:
چل شیخ کیا پوچھتا ہے تو حال ہمارا
ہم تو بے حال ہیں ماضیوں میں رہا کرتے ہیں
اپنا کوئی حال ہو تو بتا پائیں ہم
درد یاروں کے ہی سینوں میں بسا کرتے ہیں
یہ تو بالکل ظاہر ہے کہ رباعی نہیں کیونکہ نہ اس میں رباعی کے طرز پر قافیے ہیں (یعنی پہلا، دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ اور تیسرے میں اختیار) اور نہ وزن۔
یہ خوش فہمی اس وقت حیرت و استعجاب میں بدل گئی جب حال ہی میں عروض کی اس وادئ تِیْهْ میں بٹکنے کا تلخ و شیرین تجربہ ہوا۔ رباعی سے تو اب تک دو دو ہاتھ کرنے کا چانس کم ہی ملا ہے، صرف اس کی بے پناہ قوت کو دیکھ دیکھ کر سہم رہا ہوں۔ ویسے ڈرئیے نہیں، یوں ہی کہہ رہا ہوں!
اس مضمون کے دوران ہی ایک "تجرُباعی" یعنی تجرِباتی + رُباعی کو لکھنے کا اتفاق ہوا:
ہے الّا اللہ و لال لب شام و سحر
(مفعولن فاعلن مفاعیل فعل)
برپا ہے کیا شور و شغَب شام و سحر
(مفعولن مفعول مفاعیل فعل)
وہ نام کیا داغ جگر دیتا ہے
(مفعول مفاعیل مفاعیلن فع)
ہوتا ہوں کیا جان بلب شام و سحر
(مفعولن مفعول مفاعیل فعل)
اگر چہ یہ مضمون رباعی کا تعارف تو نہیں کیونکہ بہت سے فاضلین اس کا کافی و وافی تعارف بارہا کرا چکے ہیں تاہم کچھ مقدمات بیان کرنے کے بعد ہی اپنے مقصود کی طرف بڑھوں گا۔
"رباعی" صفت نسبتی ہے جو عربی لفظ اربعہ (چار) سے ماخوذ ہے اور اس کا مادۂ اشتقاقی یعنی وہ اصل جس سے یہ لفظ مشتق ہے اور جس کے دور یا قریبی معانی اس میں کسی نہ کسی شکل میں پائے جاتے ہیں، (ر۔ب۔ع) ہے جیسے تَرَبُّع چوکڑی مار کر بیٹھنے کو کہتے ہیں تو اس میں چار والا مادہ و معنی پائے جاتے ہیں۔ اس کے قریبی رشتہ داروں میں سے مُرَبَّع اور رابِعہ جیسے مشہور و معروف الفاظ بھی شامل ہیں۔ اس کا وزنِ صرفی قیاسی "فُعالِى" ہے یعنی جس پر قیاس کرکے ہم واحد (ایک) سے لے کر (عشرہ) تک مفرد اعداد کے صفات نسبتی اسی وزن پر نکال سکتے ہیں۔ مثلا واحِد، اِثنان، ثَلاثه، اَرْبَعَه، خَمْسه، سِتّه، سَبْعه، ثَمانِيَه، تِسْعه اور عشَره سے على الترتيب اُحادِی، ثُنائى، ثُلاثى، رُباعى، خُماسى، سُداسى، سُباعى، ثُمانى، تُساعى اور عُشارى۔
عربی صَرْف میں رباعی مجرد و مزید فیہ کی اصطلاحات سے کون عربی دان واقف نہیں ہوگا۔ اسی طرح عربی ریاضی دان اس ہندسی شکل کو جس کے چار پہلو (ضلع) ہوتے ہیں، رباعی کہتے ہیں جس کو ہم اردو میں چوکور اور انگریزی میں Quadrilateral کہتے ہیں۔
درج بالا کلمات میں ایک جانا پہچانا کلمہ ثُنائى بھی ہے جس کو عوام "ث" کے زبر سے پڑھتے ہیں۔ میتھس اور کمپیوٹر کے لوگ ایک اصطلاح "بائنری سسٹم" کا نام بہت کثرت سے لیتے ہیں جس کو اردو میڈیم والے ثنائی نظام کے نام سے جانتے ہیں۔
اس لمبی تمہید سے سے اس عمومی غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے کہ شاید "رباعی" خالص عربی کلمہ نہیں اور اہل فارسی کی ایجاد ہے! نہیں، بلکہ صنف رباعی کی حد تک تو یہ بات درست ہے مگر لفظ کی حد تک نہیں کہ وہ خالص عربی ہے اور دور قدیم سے عربی میں مستمل و معروف چلا آرہا ہے۔
یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ اب کچھ بات رباعی کے اوزان پر تو اس کے مشہور اوزان چوبیس ہیں جو بحر ہزج سے نکالے باتے ہیں۔ آج کل تو بعض نے بحر رجز سے بھی نکالے ہیں مگر وہ ایک الگ بحث ہے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کے بے شمار دوسرے اوزان بھی ہیں یہاں تک بعض نے دس ہزار تک بیان کیے ہیں! (ملاحظہ ہو مقدمہ محیط الدائرہ از مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی رح)
خیر اتنی بڑی تعداد کا سن کر گھبرانا نہیں چاہئے، یہ مضمون لکھا ہی اسی لیے گیا ہے کہ رباعی کے اوزان کی تسہیل پر بات ہو۔ یہاں تسہیل سے شبہ نہ ہو کہ شاید ہم کوئی نئے اور آسان اوزان نکالنے جا رہے ہیں۔ نہیں! بلکہ ہم موجودہ اوزان کو حفظ کے لیے آسان تر بنانے کی کوشش کریں گے اور موجودہ چوبیس اوزان سے ایک "کلیہ" کشید کرکے نذر ناظرین کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
(جاری ہے۔۔۔)
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
رباعی کے اوزان پر ایک بحث از محمد وارث

استفسار: غالب کی مشہور رباعی جس پر ماہرین عروض نے اعتراض کیا ہے

دل رک رک کر بند ہوگیا ہے غالب

اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک " رک " کا لفظ زیادہ ہے ۔۔ اس بارے میں وارث صاحب کی رائے کیا ہے

جواب: غالب کی مذکورہ رباعی کی بھی دلچسپ صورتحال ہے۔

دُکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

کہا جاتا ہے کہ رباعی کے اوزان پر گرفت بہت مشکل ہے اور بڑے بڑے شاعر بھی اسکے اوزان کے بارے میں خطا کر جاتے ہیں جیسے کہ غالب سا شاعر بھی کہ اوپر والی رباعی میں دوسرا مصرع رباعی کے وزن سے خارج ہے۔

غالب کے مذکورہ مصرعے پر سب سے پہلے یہ اعتراض علامہ نظم طباطبائی نے اپنی شرح دیوانِ غالب میں کیا تھا اور اسکے بعد سے 'سخن فہموں' اور 'غالب کے طرف داروں' میں اس پر خوب خوب بحث ہوئی ہے۔

میرے لیے حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ دیوانِ غالب اور اپنی شہرہ آفاق شرح 'نوائے سروش' دونوں میں یہ رباعی لکھتے ہوئے ایک 'رُک' دوسرے مصرعے سے نکال دیا ہے گویا اپنی طرف سے تصحیح کر دی ہے اور اسکی متنازعہ حیثیت پر بالکل بھی بحث نہیں کی ہے حالانکہ مستند یہی ہے کہ غالب نے ' رک رک کر' ہی کہا ہے۔

یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ اگر مذکورہ مصرعے میں سے ایک 'رک' نکال دیا جائے تو مصرعہ وزن میں آ جاتا ہے۔ لیکن اس پر دو اعتراض ہیں ایک تو یہ کہ اگر مصرعہ اس طرح کر دیا جائے

دل رُک کر بند ہو گیا ہے غالب

تو وزن میں ضرور آئے گا لیکن اس مصرعے کی ساری دلکشی ختم ہو جائے گی بلکہ 'فضول سا' مصرعہ ہو جائے گا۔ دوسرا یہ کہ غالب سے قادر الکلام شاعر کو کیا علم نہیں تھا کہ مصرع بے وزن ہو رہا ہے اور رباعی کے اوزان میں نہیں آ رہا؟

مولانا نجم الدین غنی رامپوری نے علمِ عروض پر اپنی شہرہ آفاق کتاب 'بحر الفصاحت' میں بھی یہ اعتراض غالب کے مصرعے پر کیا ہے اور اسکا جواب اس کتاب کے مرتب سید قدرت نقوی نے دیا ہے۔ انہوں نے اس پر ایک علیحدہ سے مضمون بھی لکھا ہے جو کہ افسوس میری نظر سے نہیں گزرا۔

قدرت نقوی صاحب کے بقول لفظ 'بند' گو فارسی کا لفظ ہے اور وتد ہے یعنی اسکا وزن 'فاع' ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ غالب نے اس لفظ کا ہندی استعمال کیا ہے اور 'بند' کی نون کو نون فارسی کی بجائے مخلوط نون سمجھا ہے، اور جیسا کہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ نون مخلوط کا کوئی وزن نہیں ہوتا جیسا کہ لفظ 'آنکھ' میں اس نون کا کوئی وزن نہیں ہے سو نقوی صاحب کے بقول غالب نے اس کو سبب باندھا ہے یعنی 'بند' کا وزن 'بد' یا 'فع' لیا ہے۔

اگر نقوی صاحب کے مفروضے کو مان لیا جائے تو پھر غالب کا مصرع وزن میں آ جاتا ہے یعنی

دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب

دل رک رک - مفعولن
کر بد ہُ - مفعول
گیا ہے غا - مفاعیلن
لب - فع

یعنی اسطرح یہ مصرع 'مفعولن مفعول مفاعیلن فع' کے وزن پر آ کر موزوں ہو جاتا ہے۔

اس خاکسار کی بھی رائے میں یہ غالب کی عروضی غلطی نہیں ہے، یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ غالب کو رباعی کے اوزان کا علم نہ ہو، بلکہ یہ غالب کی اجتہادی غلطی ہے کہ انہوں نے مصرعے کی دلکشی برقرار رکھنے کیلیے 'بند' کا غلط وزن لے لیا ہے، کیونکہ بہرحال بند میں نون مخلوط نہیں ہے بلکہ یہ لفظ فارسی کا ہے اور اس میں نون فارسی ہے جیسے 'رنگ' جنگ وغیرہ میں۔
 
(آخری قسط)​
رباعی کے اوزان کی تسہیل کے لیے دو مقدمے ذہن نشین کر لینے چاہئے:

1. عربی میں اکثر اسماء کے آخر میں ایک مخصوص قسم کا نون جس کو نون تنوین کہتے ہیں، آتا ہے جو تلفظ میں تو بالکل نون ساكن کی طرح ہوتا ہے لیکن لکھنے میں دو زبر، زیر یا پیش کی صورت میں ہوتا ہے جیسے "مثلاً" (= مَثَلَنْ)۔ عروضیین اس کو بھی ایک مستقل حرف شمار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر "مثلاً" کا وزن فَعَلُنْ نکالتے ہیں۔

2. عربی میں جمع بنانے کے ویسے تو کئی طریقے ہیں مگر یہاں ہم صرف ایک میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وزن مفعول کی جمع مفاعیل آتی ہے جیسے مکتوب کی جمع مکاتیبُ، مضمون کی جمع مضامین وغیرہ۔ اسی طرح مفعولن کی جمع مفاعیلن سمجھنی چاہئے۔ یہاں عروضیین صرف سے صرف نظر کرکے جمع پر تنوین لاکر اسے عام نون کی شکل میں لکھتے ہیں۔ نیز ہم یہاں مصنوعی طور پر مفعول کے ساتھ مفاعیل اور مفعولن کے ساتھ مفاعیلن کو خاص کرتے ہیں۔ اہل صرف سے اس وقت ہم صرف معذرت ہی کر سکتے ہیں!

اب ہم رباعی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ رباعی کے اوزان کو دو شجروں میں تقسیم کیا جاتا ہے: اخرب و اخرم۔

ان دونوں میں کچھ تفاعیل (افاعیل) ہو بہو ایک جیسی ترتیب سے دہرائے جاتے ہیں۔ مناسب رد و بدل کرکے ان کو یاد داشت کے لئے آسان بنایا جا سکتا ہے۔ پہلے دونوں شجروں کے اوزان یکے بعد دیگرے ملاحظہ ہوں:

1.jpg


ایک جیسے اوزان گرانے کے بعد، ہمارے پاس جدول کی شکل کچھ یوں بن جاتی ہے:

2.jpg


مزید اختصار کے بعد:

3.jpg


یہ جدول اب یادداشت کے لیے کافی آسان ہوگیا ہے۔ اس میں بڑی آسانی کے ساتھ ہم رباعی کے چوبیس کے چوبیس اوزان نکال سکتے ہیں:

شجرۂ اخرب (مفعول)

1. مفعول مفاعیل مفاعیل فعل

2. مفعول مفاعیل مفاعیل فعول

3. مفعول مفاعیل مفاعیلن فع

4. مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع


5. مفعول مفاعیلن مفعول فعل

6. مفعول مفاعیلن مفعول فعول

7. مفعول مفاعیلن مفعولن فع

8. مفعول مفاعیلن مفعولن فاع


9. مفعول مفاعلن مفاعیل فعل

10. مفعول مفاعلن مفاعیل فعول

11. مفعول مفاعلن مفاعیلن فع

12. مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع


شجرۂ اخرم (مفعولن)

1. مفعولن مفعول مفاعیل فعل

2. مفعولن مفعول مفاعیل فعول

3. مفعولن مفعول مفاعیلن فع

4. مفعولن مفعول مفاعیلن فاع


5. مفعولن مفعولن مفعول فعل

6. مفعولن مفعولن مفعول فعول

7. مفعولن مفعولن مفعولن فع

8. مفعولن مفعولن مفعولن فاع


9. مفعولن فاعلن مفاعیل فعل

10. مفعولن فاعلن مفاعیل فعول

11. مفعولن فاعلن مفاعیلن فع

12. مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع

ان اوزان کی ترتیب میں کئی ایک خاص باتیں نوٹ کرنے کے لائق ہیں جن کو ہم بطور اصول موضوعہ لکھتے ہیں:

1. پہلے شجرۂ اخرب (مفعول) اور بعد میں شجرۂ اخرم (مفعولن) کے اوزان ہیں جیسا کہ عام روایت ہے۔

2. ارکان کی ترتیب اس طرح رکھی گئی ہے کہ جہاں اخرم کا رکن واحد ہے اس کے مقابل اخرب کا صیغہ جمع درج ہے، سوائے آخر کے ارکان (یعنی فاعلن، مفاعلن) کے کہ ان میں بھی بہت کچھ صوری مشابہت ہے۔

3. اخرب میں کسی بھی وزن کے دوسرے ارکان حالت جمع میں ہوتے ہیں (مفاعیل، مفاعیلن، مفاعلن) جبکہ اخرم میں حالت واحد میں (مفعول، مفعولن، فاعلن)۔

4. (اخرب و اخرم دونوں میں) دوسرے مقام پر مفاعیلن/مفعولن کے بعد تیسرے مقام پر صرف واحد ارکان (مفعول یا مفعولن) ہی آسکتے ہیں۔ باقی ارکان (مفاعیل/مفعول یا مفاعلن/فاعلن) کے بعد تیسرے مقام پر ہمیشہ جمع ارکان ہی آئیں گے۔

5. تیسرے مقام کے جو ارکان لام پر ختم ہوتے ہیں (مفعول اور اس کی جمع مفاعیل)، ان کے بعد چوتھے مقام پر لام پر ختم ہونے ارکان (یعنی فعل یا فعول) ہی آسکتے ہیں۔ اور جو لام پر ختم نہیں ہوتے (یعنی مفولن اور اس کی جمع مفاعیلن)، ان کے بعد "بے لام" ارکان ہی آسکتے ہیں (یعنی فع یا فاع).

6. ایک اور خآص بات یہ ہے کہ تیسرے اور چوتھے ارکان شجرۂ اخرب و اخرم دونوں کے لیے ایک جیسے ہیں۔ اس لیے اگر ایک شجرہ کے لیے یاد کر لیے جائیں تو دوسرے کے لیے الگ سے یاد کرنے کی ضرورت نہیں رہتی!

7. آخر میں مصرعے کا وزن بنانے کے لیے ایک چھوٹا سا "کلیہ" ذہن نشین کرنا چاہئے: 4462 یا 4431!

اس کلیے کی شرح یہ ہے کہ مذکورہ عدد کے اندر ہندسوں کے مقامات وزن میں آنے والے ارکان کے مقامات کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ ان ہندسوں کی عددی قیمتیں ان مقامات پر آنے والے ممکنہ ارکان کی تعداد کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثلا درج بالا دو اعداد میں سے پہلے عدد میں، دائیں جانب سے 2، پہلے مقام پر ہے تو اس سے وزن میں پہلی جگہ پر آنے والے ممکنہ ارکان کی تعداد دو ظاہر ہوتی ہے (یعنی یہاں یا تو رکن مفعول آسکتا ہے اور یا ہی مفعولن)۔ اسی طرح 6 دوسرے مقام پر ہے، لہذا وزن میں دوسری جگہ پر آنے والے ممکنہ ارکان کی تعداد چھ ہوگی (یعنی مفاعیل، مفاعیلن، مفاعلن یا مفعول، مفعولن، فاعلن) .وعلی ھذا القیاس، وزن میں تیسری اور چوتھی جگہ پر آنے والے ممکنہ ارکان کی تعداد چار، چار ہوگی۔

اب رہا دوسرا عدد، 4431 تو اس کے لیے بنیادی تفصیل وہی ہے، البتہ یہ ہر شجرہ کے لیے کسی مطلوبہ مقام پر آنے والے ممکنہ ارکان کی تعداد کو الگ سے ظاہر کرتا ہے۔ اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ صرف پہلے دو ہندسے تبدیل یعنی نصف ہوگئے ہیں (31، 62 کا نصف ہے)، باقی ہندسے جوں کے توں ہیں۔ اس سے یہ بات پھر مؤکد ہوگئی کہ دونوں شجروں میں وزن کے ارکان تیسرے اور چوتھے مقام پر ایک جیسے ہوتے ہیں!! پس اس کلیے کی رو سے مثلا شجرۂ اخرم کے لیے مقام 1 پر صرف ایک ہی رکن (یعنی مفعولن) آسکتا ہے، مقام 2 پر تین ارکان (یعنی مفعول، مفعولن یا فاعلن)، مقام 3 و 4 پر چار، چار ارکان (جیسے اوپر مذکور ہوئے).

اب آئیے ایک مثال سے عملی مشق کرتے ہیں! فرض کریں ہم شجرۂ اخرب کے ایک مصرعے کا وزن لکھنا چاہ رہے ہیں تو پہلا رکن تو بہت آسان ہے، جی ہاں، مفعول (اور اس کے علاوہ ہم دوسرا کوئی رکن چن بھی نہیں سکتے!)۔ دوسرا رکن (اصول موضوعہ نمبر 3 کی رو سے) صرف جمع ہی ہوسکتا ہے (یعنی مفاعیل، مفاعیلن یا مفاعلن میں سے کوئی ایک)، فرض کریں ہم نے مفاعیلن چن لیا۔ اب تیسرے رکن کی باری ہے تو (اصول موضوعہ نمبر 4 کی رو سے) اس مقام پر ہم صرف واحد ارکان (یعنی مفعول یا مفعولن) ہی لا سکتے ہیں۔ فرض کریں ہم نے مفعول کا انتخاب کرلیا۔ تو چونکہ اس کے آخر میں لام ہے، اس لیے چوتھے مقام پر صرف لام سے ختم ہونے والے ارکان (یعنی فعل یا فعول) ہی لا سکتے ہیں (اصول موضوعہ نمبر 5). ہم فعول کو چن لیتے ہیں تو ہمارا ایک مصرعے کا وزن نکلا:

مفعول مفاعیلن مفعول فعول

لو جی ہماری رباعی کے ایک مصرعے کا وزن تیار ہے جس کا ایک رکن (مفعول) اخرب، دوسرا (مفاعیلن) سالم، تیسرا (مفعول) پھر اخرب اور چوتھا (فعول) محذوف-مقصور یعنی اہتم ہے!

دوسرا مصرع چاہے تو اسی وزن میں رکھیں یا مذکورہ چوبیس اوزان میں سے کوئی دوسرا چن لیں۔ اسی طرح تیسرے اور چوتھے مصرعے میں بھی خلط اوزان کا مکمل اختیار ہے۔

شجرہ اخرم میں اسی طرح آسان ہے، فرق صرف پہلے اور دوسرے مقام پر ہے۔ پہلے مقام پر تو، جیسا کہ ظاہر ہے، ہمیشہ مفعولن ہی آئے گا اور تیسرے مقام پر ہمیشہ کوئی واحد رکن (یعنی مفعول، مفعولن یا فاعلن) ہی آئے گا۔ تیسرے اور چوتھے مقام پر بعینہ وہی تفصیل ہے جو اخرب میں ذکر ہوئی۔ مثلا درج ذیل وزن اخرم کے صحیح اوزان میں سے ہے:

مفعولن مفعول مفاعیلن فاع

(تم بعون الله وتوفيقه فله الحمد والمنة)
 
آخری تدوین:
محمد وارث، الف عین
تتمہ
درج ذیل بحث کو "اوزان رباعی کی تسہیل" کا تتمہ کہنا چاہئے۔ اس میں اپنی ایک غلطی جس پر حال ہی میں تنبہ ہوا ہے، سے رجوع کرلیا گیا ہے اور اس جیسی دوسری غلطیوں پر تنبیہ کی گئی ہے۔ اہل علم سے اصلاح کی درخواست ہے۔
رباعی پر ابتدائی گفتگو کے ذیل میں غالب کی مشہور رباعی "دل رک" میں ان کی لغزش بھی ضمنی طور پر زیر بحث آئی تھی جس میں میں نے پوری دیانتداری کے ساتھ موصوف کا دفاع کیا تھا مگر بعد میں اپنی لغزش کا اندازہ ہوا۔ پس حقیقت یہ ہے کہ نظم طباطبائی نے ایک عرصہ پہلے غالب کی اس رباعی پر جو انتقاد کیا تھا وہ آج بھی جوں کا توں موجود ہے اور جب تک یہ رباعی اگلی نسلوں تک پوری صحت اور امانت کے ساتھ نقل ہوتی جائے گی، موجود رہے گا چاہے غالب کے ساتھ کسی کو کتنی ہی عقیدت کیوں نہ ہو!
قصہ یوں ہے کہ ایک "رک" کے ناگزیر اضافے سے رباعی کا "بند" (بعض کے ہندی تلفظ سے) بدل کر "بد" یا (میرے صوتی تبدیلی کے مفروضے سے) "بن" بن کر مصرع بِن قافیہ ہوکر بالکل بگڑ جاتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی صاحب (پ)سَنْد اور (سو)گَنْد کا قافیہ بَد یا بَن سے باندھنے کا قائل ہوگا۔ اس وقت وزن بنانے کی دھن میں دوسروں کی طرح میرا بھی اس نکتے کی طرف قطعا دھیان نہیں تھا!
ایک ہی مصرع کی حد تک تو صرف وزن کی بات کرنا درست ہے لیکن پوری رباعی میں وزن کے ساتھ ساتھ اس کے قافیے اور ردیف کو بھی مد نظر رکھنا پڑے گا! اگر وزن سنوارنے کے لیے قافیہ اور/یا ردیف کی قربانی دینی پڑے تو ایسی قطع و برید جائز نہیں ہوگی۔ غالب کی رباعی کی نوک پلک سنوارنے کے لیے ہم نے یہی کیا تھا کہ اس کے اندر تلفظ کی کچھ خراش تراش گوارا کرلی تھی تاکہ وزن درست ہوکر غالب پر سے اعتراض دور ہوجائے مگر اس تحریف سے وہی حشر ہونا تھا جو ہوگیا ہے یعنی یہ مصرع اپنی رباعی کے قافیے سے نکل گیا ہے۔
غالب کی پوری رباعی اور اس کے تمام اوزان ملاحظہ کرنے کے بعد حقیقت حال کھل جاتی ہے:
دکھ جی کے پسند ہوگیا ہے غالب
(دکھ جی کے) (پسند ہو) (گیا ہے غا) (لب)
مفعول مفاعلن مفاعیلن فع
دل رک رک کر بند ہوگیا ہے غالب
(دل رک رک) (کر بند ہو) (گیا ہےغا) (لب)
مفعولن مفعول مفاعیلن فع
یا
مفعولن مفعولن مفعولن فع

واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
(واللہ) (کہ شب کو نیں) (د آتی ہی) (نہیں)
مفعول مفاعلن مفاعیل فعل
سونا سوگند ہوگیا ہے غالب
(سونا سو) (گند ہو) (گیا ہے غا) (لب)
مفعولن فاعلن مفاعیلن فع
پہلے اس کا قافیہ -سَنْد، بَنْد اور -گَنْد تھا۔ بند کو بد یا بن مان کر مصرعے کا وزن تو درست ہوگیا مگر اس کا قافیہ بگڑ گیا! باقی دو قافیے، مفاعلن (مصرع 1) اور فاعلن (مصرع 4) کے ضمن میں بروزن "فاعِ" ہیں اور بند کا قافیہ مفعول (مصرع 2) کے ضمن میں بروزن "عو" یعنی "فعْ" ہے اگر چہ اس سے قبل یہ بھی ان دونوں کا ہم وزن یعنی بروزن "فاعِ" تھا۔
اب ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں:
1. یا تو ایک مصرعے کا قافیہ درست رکھنے کے لیے باقی دو مصرعوں میں پسند اور سوگند کے لیے بھی وہی مفروضہ اختیار کرلیں یعنی ان کو بھی پَسَد یا پَسَن اور سوگَد یا سوگَن پڑھنے لگیں۔
2. اور یا پھر ایک ہی مصرعے کا قافیہ غلط رہنے دیں اور صرف وزن درست کرنے پر اکتفاء کرلیں۔
دونوں صورتوں میں قباحتیں ہیں:
1. پہلی صورت میں سب مصرعوں کا قافیہ درست ہوکر دو مصرعوں کا وزن بگڑ جاتا ہے اور وہ رباعی کی چوکھٹ پار کر جاتے ہیں۔ اس طرح سارے کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے!
2. دوسری صورت میں دو مصرعے وزن اور قافیے میں رہتے ہیں مگر ایک مصرع بے قافیہ رہتا ہے۔ لیکن اس کےذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں!
آخر میں رک کر ایک "رک" کے حذف کے حوالے سے بھی کچھ بات ہو جائے۔ ایک "رک" کو حذف کرنے سے پوری رباعی وزن میں ہوجاتی ہے اور قافیہ بھی سلامت رہتا ہے مگر مصرعے کا معنوی حسن غارت ہوجاتا ہے کہ غالب رفتہ رفتہ اور مو بمو اپنے "ہارٹ فیل" ہوجانے کا تذکرہ فرما رہے ہیں لیکن ان کو لقمہ دینے والے اس کو یک بیک فیل کرانے پر بضد ہیں!!
اب آخری چارہ کار کے طور پر ایک متبادل صورت بھی زیر غور آسکتی ہے، اگر ہم مذکورہ مصرے کا وزن سیدھا بغیر کسی قطع و برید اور پیشگی مفروضے کے مفعولن مفعول مفاعیلن فع ہی تجویز کرلیں مگر بجائے "گیا ہے غا" کے "ہوگیا ہے غا" کا وزن مفاعیلن لے لیں۔ گویا "گیا" کو "کیا" کی نظیر قرار دے کر وزن بجائے "فَعَل" کے "فَع" ٹھہرالیں۔
اس میں وہی قباحت ہے کہ ردیف کا وزن متاثر ہوگیا ہے کہ پہلے تو ہم صرف ردیف کے ایک جزء، "گیا ہے غالب" کا وزن مفاعیلن فع لے رہے تھے اور اب یہی وزن پوری ردیف، "ہوگیا ہے غالب" کا لے رہے ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ غالب کی اصل رباعی میں یہ ایک مصرع بے وزن ہے! اس میں کسی معقول تاویل کی گنجائش نہیں چاہے وہ ایک "رک" کو حذف کرکے ہو یا مذکورہ بالا مجوزہ صورتوں میں سے کوئی ایک۔
تمام احباب سے غلطی کی اصلاح کا خواستگار ہوں۔
 
آخری تدوین:
Top