محمد ابراہیم خان افغان
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اوزان رباعی کی تسہیل
(پہلی قسط)
"رُباعی" ایک مقبول مگر، عام خیال کی رو سے، ایک مشکل صنف شعر ہے جو فارسی شعراء کی ایجاد ہے۔ اس صنف میں معدودے چند شعراء ہی طبع آزمائی کرکے اپنے فن کا لوہا منواسکے ہیں۔ فارسی میں عمر خیام رح کی رباعیات اپنی فنی باریکیوں اور نازک خیالی کے سبب عالمگیر شہرت حاصل کر چکی ہیں۔ 1859ء میں انگریز شاعر ایڈورڈ فٹس جیرلڈ Edward FitzGerald اس کا آزاد شعری ترجمہ کرکے خود بھی بام شہرت پر پہنچ چکے ہیں اور اس عظیم شاعر (عمر خیام) کی یورپ میں بنیادی (گو غلط!) تعارف کا بھی زینہ بن چکے ہیں۔ فٹس جیرلڈ کے آزاد بلکہ بعض اوقات غلط ترجموں نے عمر خیام جیسے غزالی کے پائے کے عالم و فاضل آدمی کو بھی بطور مُلحِد و دَہری متعارَف کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ تصدیق کے لیے نمونے کی ایک رباعی کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
گویند کساں بھشت با حور خوش ست
(مفعول مفاعلن مفاعیل فعول)
من می گویم کاب انگور خوش ست
(مفعولن مفعولن مفعول فعول)
ایں نقد بگیر و دست ازاں نسیہ بدار
(مفعول مفاعلن مفاعیل فعول)
کاواز دھل شنیدن از دور خوش ست
(مفعول مفاعلن مفاعیل فعول)
Some for the pleasures of this world, and some
Sigh for the Prophet's paradise to come.
Ah! Take the cash and let credit go
Nor heed the rumble of a distant drum.
کہا جاتا ہے کہ اس فن کی باریکی میں کئی ایک نامور اور جہابذۂ اہل فن نا دانستہ طور پر ٹھوکریں کھا چکے ہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سیالکوٹی ثم لاہوری کا نام اس ضمن میں بہت لیا جاتا ہے۔
غالب کی مشہور رباعی کا یہ مصرع:
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب،
معترضین کی جانب سے رباعی کے معروف اوزان سے عاری ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ معتذرین کی طرف سے کئی اعذار پیش کیے جاتے رہے ہیں مگر کوئی بھی عذر ان کے لیے شافی نہیں۔ بعض ایک "رک" کو حذف کرتے ہیں تو بعض "بند" کے ہندی تلفظ کا لطیفہ گھڑتے ہیں۔
اس عاجز کے خیال میں کسی قطع و بُرید کی قطعا کوئی حاجت نہیں، بس اس کا وزن:
مفعولن مفعول مفاعیلن فع
یا
مفعولن مفعولن مفعولن فع
لیا جائے تو کوئی مسئلہ نہیں رہتا اس بنیاد پر کہ "بند" کو "بَن" یعنی بِن دال کے پڑھا جائے جو کہ بند کا بالکل قدرتی، عمومی اور بے تکلف تلفظ ہے جس سے کسی لسانی و عروضی قانون پر زد نہیں پڑتی بلکہ صوتیاتی Phonetic/Phonological تغیر کا عین آئینہ دار ہے۔ بعینہ جس طرح آخوند کا تلفظ آخون بھی ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ (دیکھئے فیروز اللغات)
البتہ چونکہ صورت املائی سے یہ سارا اشتباہ پیدا ہوگیا ہے، اسلئے وزن کی خاطر اسے "بن" لکھنا مناسب ہوگا جس طرح لفظ ایک، میرا وغیرہ کو اک، مرا وغیرہ لکھا جاتا ہے۔ فیض کے ایک شعر میں "ہاتھ" کو بھی "ہات" لکھا ہے: ع
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
بعض لوگوں نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ ہنس، سنوارنا، باندھنا اور کنول وغیرہ کے نون پر قیاس کرکے بند کے نون کو بھی دال کے ساتھ مخلوط التلفظ مان کر گویا "بد" وزن لیا جائے۔ لیکن میرے خیال میں یہ تکلف محض ہے کہ استعمال سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔
رہی علامہ اقبال کی "رباعیات" تو چونکہ وہ میری نظر سے نہیں گزری اس لئے وثوق سے کہنا مشکل ہے البتہ جن محققین نے ان کو جانچا ہے تو ان کے مطابق وہ رباعی کے معروف اوزان سے خارج ہیں۔
اللہ ہی بہتر جانے کہ کیوں مگر فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ کسی بڑے سے بڑے شاعر کے لیے لغزشوں سے معصوم ہونا ضروری نہیں۔ اور تو اور، رباعی خود ایک وسیع و عریض میدان ہے اور اس کے الگ سے چوبیس (یا زیادہ) اوزان ہیں جن میں سے کئی ایک تو درحقیقت الگ بحور کہلانے کے مستحق ہیں اگر چہ روایتی طور پر بحر ہزج سے ہی ان کی تخریج ہوتی ہے اور ان پر زحافات کا چوڑا چکلا شامیانہ کسا جاتا ہے۔
مجھے کچھ عرصہ پہلے تک اپنے ایک قطعے کے متعلق خیال تھا کہ یہ رباعی ہے۔ اس وقت میں وزن و عروض سے آشنا نہیں تھا، اس لئے یہ پوری طرح موزون بھی نہیں:
چل شیخ کیا پوچھتا ہے تو حال ہمارا
ہم تو بے حال ہیں ماضیوں میں رہا کرتے ہیں
اپنا کوئی حال ہو تو بتا پائیں ہم
درد یاروں کے ہی سینوں میں بسا کرتے ہیں
یہ تو بالکل ظاہر ہے کہ رباعی نہیں کیونکہ نہ اس میں رباعی کے طرز پر قافیے ہیں (یعنی پہلا، دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ اور تیسرے میں اختیار) اور نہ وزن۔
یہ خوش فہمی اس وقت حیرت و استعجاب میں بدل گئی جب حال ہی میں عروض کی اس وادئ تِیْهْ میں بٹکنے کا تلخ و شیرین تجربہ ہوا۔ رباعی سے تو اب تک دو دو ہاتھ کرنے کا چانس کم ہی ملا ہے، صرف اس کی بے پناہ قوت کو دیکھ دیکھ کر سہم رہا ہوں۔ ویسے ڈرئیے نہیں، یوں ہی کہہ رہا ہوں!
اس مضمون کے دوران ہی ایک "تجرُباعی" یعنی تجرِباتی + رُباعی کو لکھنے کا اتفاق ہوا:
ہے الّا اللہ و لال لب شام و سحر
(مفعولن فاعلن مفاعیل فعل)
برپا ہے کیا شور و شغَب شام و سحر
(مفعولن مفعول مفاعیل فعل)
وہ نام کیا داغ جگر دیتا ہے
(مفعول مفاعیل مفاعیلن فع)
ہوتا ہوں کیا جان بلب شام و سحر
(مفعولن مفعول مفاعیل فعل)
اگر چہ یہ مضمون رباعی کا تعارف تو نہیں کیونکہ بہت سے فاضلین اس کا کافی و وافی تعارف بارہا کرا چکے ہیں تاہم کچھ مقدمات بیان کرنے کے بعد ہی اپنے مقصود کی طرف بڑھوں گا۔
"رباعی" صفت نسبتی ہے جو عربی لفظ اربعہ (چار) سے ماخوذ ہے اور اس کا مادۂ اشتقاقی یعنی وہ اصل جس سے یہ لفظ مشتق ہے اور جس کے دور یا قریبی معانی اس میں کسی نہ کسی شکل میں پائے جاتے ہیں، (ر۔ب۔ع) ہے جیسے تَرَبُّع چوکڑی مار کر بیٹھنے کو کہتے ہیں تو اس میں چار والا مادہ و معنی پائے جاتے ہیں۔ اس کے قریبی رشتہ داروں میں سے مُرَبَّع اور رابِعہ جیسے مشہور و معروف الفاظ بھی شامل ہیں۔ اس کا وزنِ صرفی قیاسی "فُعالِى" ہے یعنی جس پر قیاس کرکے ہم واحد (ایک) سے لے کر (عشرہ) تک مفرد اعداد کے صفات نسبتی اسی وزن پر نکال سکتے ہیں۔ مثلا واحِد، اِثنان، ثَلاثه، اَرْبَعَه، خَمْسه، سِتّه، سَبْعه، ثَمانِيَه، تِسْعه اور عشَره سے على الترتيب اُحادِی، ثُنائى، ثُلاثى، رُباعى، خُماسى، سُداسى، سُباعى، ثُمانى، تُساعى اور عُشارى۔
عربی صَرْف میں رباعی مجرد و مزید فیہ کی اصطلاحات سے کون عربی دان واقف نہیں ہوگا۔ اسی طرح عربی ریاضی دان اس ہندسی شکل کو جس کے چار پہلو (ضلع) ہوتے ہیں، رباعی کہتے ہیں جس کو ہم اردو میں چوکور اور انگریزی میں Quadrilateral کہتے ہیں۔
درج بالا کلمات میں ایک جانا پہچانا کلمہ ثُنائى بھی ہے جس کو عوام "ث" کے زبر سے پڑھتے ہیں۔ میتھس اور کمپیوٹر کے لوگ ایک اصطلاح "بائنری سسٹم" کا نام بہت کثرت سے لیتے ہیں جس کو اردو میڈیم والے ثنائی نظام کے نام سے جانتے ہیں۔
اس لمبی تمہید سے سے اس عمومی غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے کہ شاید "رباعی" خالص عربی کلمہ نہیں اور اہل فارسی کی ایجاد ہے! نہیں، بلکہ صنف رباعی کی حد تک تو یہ بات درست ہے مگر لفظ کی حد تک نہیں کہ وہ خالص عربی ہے اور دور قدیم سے عربی میں مستمل و معروف چلا آرہا ہے۔
یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ اب کچھ بات رباعی کے اوزان پر تو اس کے مشہور اوزان چوبیس ہیں جو بحر ہزج سے نکالے باتے ہیں۔ آج کل تو بعض نے بحر رجز سے بھی نکالے ہیں مگر وہ ایک الگ بحث ہے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کے بے شمار دوسرے اوزان بھی ہیں یہاں تک بعض نے دس ہزار تک بیان کیے ہیں! (ملاحظہ ہو مقدمہ محیط الدائرہ از مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی رح)
خیر اتنی بڑی تعداد کا سن کر گھبرانا نہیں چاہئے، یہ مضمون لکھا ہی اسی لیے گیا ہے کہ رباعی کے اوزان کی تسہیل پر بات ہو۔ یہاں تسہیل سے شبہ نہ ہو کہ شاید ہم کوئی نئے اور آسان اوزان نکالنے جا رہے ہیں۔ نہیں! بلکہ ہم موجودہ اوزان کو حفظ کے لیے آسان تر بنانے کی کوشش کریں گے اور موجودہ چوبیس اوزان سے ایک "کلیہ" کشید کرکے نذر ناظرین کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
(جاری ہے۔۔۔)
اوزان رباعی کی تسہیل
(پہلی قسط)
"رُباعی" ایک مقبول مگر، عام خیال کی رو سے، ایک مشکل صنف شعر ہے جو فارسی شعراء کی ایجاد ہے۔ اس صنف میں معدودے چند شعراء ہی طبع آزمائی کرکے اپنے فن کا لوہا منواسکے ہیں۔ فارسی میں عمر خیام رح کی رباعیات اپنی فنی باریکیوں اور نازک خیالی کے سبب عالمگیر شہرت حاصل کر چکی ہیں۔ 1859ء میں انگریز شاعر ایڈورڈ فٹس جیرلڈ Edward FitzGerald اس کا آزاد شعری ترجمہ کرکے خود بھی بام شہرت پر پہنچ چکے ہیں اور اس عظیم شاعر (عمر خیام) کی یورپ میں بنیادی (گو غلط!) تعارف کا بھی زینہ بن چکے ہیں۔ فٹس جیرلڈ کے آزاد بلکہ بعض اوقات غلط ترجموں نے عمر خیام جیسے غزالی کے پائے کے عالم و فاضل آدمی کو بھی بطور مُلحِد و دَہری متعارَف کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ تصدیق کے لیے نمونے کی ایک رباعی کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
گویند کساں بھشت با حور خوش ست
(مفعول مفاعلن مفاعیل فعول)
من می گویم کاب انگور خوش ست
(مفعولن مفعولن مفعول فعول)
ایں نقد بگیر و دست ازاں نسیہ بدار
(مفعول مفاعلن مفاعیل فعول)
کاواز دھل شنیدن از دور خوش ست
(مفعول مفاعلن مفاعیل فعول)
Some for the pleasures of this world, and some
Sigh for the Prophet's paradise to come.
Ah! Take the cash and let credit go
Nor heed the rumble of a distant drum.
کہا جاتا ہے کہ اس فن کی باریکی میں کئی ایک نامور اور جہابذۂ اہل فن نا دانستہ طور پر ٹھوکریں کھا چکے ہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سیالکوٹی ثم لاہوری کا نام اس ضمن میں بہت لیا جاتا ہے۔
غالب کی مشہور رباعی کا یہ مصرع:
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب،
معترضین کی جانب سے رباعی کے معروف اوزان سے عاری ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ معتذرین کی طرف سے کئی اعذار پیش کیے جاتے رہے ہیں مگر کوئی بھی عذر ان کے لیے شافی نہیں۔ بعض ایک "رک" کو حذف کرتے ہیں تو بعض "بند" کے ہندی تلفظ کا لطیفہ گھڑتے ہیں۔
اس عاجز کے خیال میں کسی قطع و بُرید کی قطعا کوئی حاجت نہیں، بس اس کا وزن:
مفعولن مفعول مفاعیلن فع
یا
مفعولن مفعولن مفعولن فع
لیا جائے تو کوئی مسئلہ نہیں رہتا اس بنیاد پر کہ "بند" کو "بَن" یعنی بِن دال کے پڑھا جائے جو کہ بند کا بالکل قدرتی، عمومی اور بے تکلف تلفظ ہے جس سے کسی لسانی و عروضی قانون پر زد نہیں پڑتی بلکہ صوتیاتی Phonetic/Phonological تغیر کا عین آئینہ دار ہے۔ بعینہ جس طرح آخوند کا تلفظ آخون بھی ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ (دیکھئے فیروز اللغات)
البتہ چونکہ صورت املائی سے یہ سارا اشتباہ پیدا ہوگیا ہے، اسلئے وزن کی خاطر اسے "بن" لکھنا مناسب ہوگا جس طرح لفظ ایک، میرا وغیرہ کو اک، مرا وغیرہ لکھا جاتا ہے۔ فیض کے ایک شعر میں "ہاتھ" کو بھی "ہات" لکھا ہے: ع
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
بعض لوگوں نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ ہنس، سنوارنا، باندھنا اور کنول وغیرہ کے نون پر قیاس کرکے بند کے نون کو بھی دال کے ساتھ مخلوط التلفظ مان کر گویا "بد" وزن لیا جائے۔ لیکن میرے خیال میں یہ تکلف محض ہے کہ استعمال سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔
رہی علامہ اقبال کی "رباعیات" تو چونکہ وہ میری نظر سے نہیں گزری اس لئے وثوق سے کہنا مشکل ہے البتہ جن محققین نے ان کو جانچا ہے تو ان کے مطابق وہ رباعی کے معروف اوزان سے خارج ہیں۔
اللہ ہی بہتر جانے کہ کیوں مگر فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ کسی بڑے سے بڑے شاعر کے لیے لغزشوں سے معصوم ہونا ضروری نہیں۔ اور تو اور، رباعی خود ایک وسیع و عریض میدان ہے اور اس کے الگ سے چوبیس (یا زیادہ) اوزان ہیں جن میں سے کئی ایک تو درحقیقت الگ بحور کہلانے کے مستحق ہیں اگر چہ روایتی طور پر بحر ہزج سے ہی ان کی تخریج ہوتی ہے اور ان پر زحافات کا چوڑا چکلا شامیانہ کسا جاتا ہے۔
مجھے کچھ عرصہ پہلے تک اپنے ایک قطعے کے متعلق خیال تھا کہ یہ رباعی ہے۔ اس وقت میں وزن و عروض سے آشنا نہیں تھا، اس لئے یہ پوری طرح موزون بھی نہیں:
چل شیخ کیا پوچھتا ہے تو حال ہمارا
ہم تو بے حال ہیں ماضیوں میں رہا کرتے ہیں
اپنا کوئی حال ہو تو بتا پائیں ہم
درد یاروں کے ہی سینوں میں بسا کرتے ہیں
یہ تو بالکل ظاہر ہے کہ رباعی نہیں کیونکہ نہ اس میں رباعی کے طرز پر قافیے ہیں (یعنی پہلا، دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ اور تیسرے میں اختیار) اور نہ وزن۔
یہ خوش فہمی اس وقت حیرت و استعجاب میں بدل گئی جب حال ہی میں عروض کی اس وادئ تِیْهْ میں بٹکنے کا تلخ و شیرین تجربہ ہوا۔ رباعی سے تو اب تک دو دو ہاتھ کرنے کا چانس کم ہی ملا ہے، صرف اس کی بے پناہ قوت کو دیکھ دیکھ کر سہم رہا ہوں۔ ویسے ڈرئیے نہیں، یوں ہی کہہ رہا ہوں!
اس مضمون کے دوران ہی ایک "تجرُباعی" یعنی تجرِباتی + رُباعی کو لکھنے کا اتفاق ہوا:
ہے الّا اللہ و لال لب شام و سحر
(مفعولن فاعلن مفاعیل فعل)
برپا ہے کیا شور و شغَب شام و سحر
(مفعولن مفعول مفاعیل فعل)
وہ نام کیا داغ جگر دیتا ہے
(مفعول مفاعیل مفاعیلن فع)
ہوتا ہوں کیا جان بلب شام و سحر
(مفعولن مفعول مفاعیل فعل)
اگر چہ یہ مضمون رباعی کا تعارف تو نہیں کیونکہ بہت سے فاضلین اس کا کافی و وافی تعارف بارہا کرا چکے ہیں تاہم کچھ مقدمات بیان کرنے کے بعد ہی اپنے مقصود کی طرف بڑھوں گا۔
"رباعی" صفت نسبتی ہے جو عربی لفظ اربعہ (چار) سے ماخوذ ہے اور اس کا مادۂ اشتقاقی یعنی وہ اصل جس سے یہ لفظ مشتق ہے اور جس کے دور یا قریبی معانی اس میں کسی نہ کسی شکل میں پائے جاتے ہیں، (ر۔ب۔ع) ہے جیسے تَرَبُّع چوکڑی مار کر بیٹھنے کو کہتے ہیں تو اس میں چار والا مادہ و معنی پائے جاتے ہیں۔ اس کے قریبی رشتہ داروں میں سے مُرَبَّع اور رابِعہ جیسے مشہور و معروف الفاظ بھی شامل ہیں۔ اس کا وزنِ صرفی قیاسی "فُعالِى" ہے یعنی جس پر قیاس کرکے ہم واحد (ایک) سے لے کر (عشرہ) تک مفرد اعداد کے صفات نسبتی اسی وزن پر نکال سکتے ہیں۔ مثلا واحِد، اِثنان، ثَلاثه، اَرْبَعَه، خَمْسه، سِتّه، سَبْعه، ثَمانِيَه، تِسْعه اور عشَره سے على الترتيب اُحادِی، ثُنائى، ثُلاثى، رُباعى، خُماسى، سُداسى، سُباعى، ثُمانى، تُساعى اور عُشارى۔
عربی صَرْف میں رباعی مجرد و مزید فیہ کی اصطلاحات سے کون عربی دان واقف نہیں ہوگا۔ اسی طرح عربی ریاضی دان اس ہندسی شکل کو جس کے چار پہلو (ضلع) ہوتے ہیں، رباعی کہتے ہیں جس کو ہم اردو میں چوکور اور انگریزی میں Quadrilateral کہتے ہیں۔
درج بالا کلمات میں ایک جانا پہچانا کلمہ ثُنائى بھی ہے جس کو عوام "ث" کے زبر سے پڑھتے ہیں۔ میتھس اور کمپیوٹر کے لوگ ایک اصطلاح "بائنری سسٹم" کا نام بہت کثرت سے لیتے ہیں جس کو اردو میڈیم والے ثنائی نظام کے نام سے جانتے ہیں۔
اس لمبی تمہید سے سے اس عمومی غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے کہ شاید "رباعی" خالص عربی کلمہ نہیں اور اہل فارسی کی ایجاد ہے! نہیں، بلکہ صنف رباعی کی حد تک تو یہ بات درست ہے مگر لفظ کی حد تک نہیں کہ وہ خالص عربی ہے اور دور قدیم سے عربی میں مستمل و معروف چلا آرہا ہے۔
یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ اب کچھ بات رباعی کے اوزان پر تو اس کے مشہور اوزان چوبیس ہیں جو بحر ہزج سے نکالے باتے ہیں۔ آج کل تو بعض نے بحر رجز سے بھی نکالے ہیں مگر وہ ایک الگ بحث ہے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کے بے شمار دوسرے اوزان بھی ہیں یہاں تک بعض نے دس ہزار تک بیان کیے ہیں! (ملاحظہ ہو مقدمہ محیط الدائرہ از مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی رح)
خیر اتنی بڑی تعداد کا سن کر گھبرانا نہیں چاہئے، یہ مضمون لکھا ہی اسی لیے گیا ہے کہ رباعی کے اوزان کی تسہیل پر بات ہو۔ یہاں تسہیل سے شبہ نہ ہو کہ شاید ہم کوئی نئے اور آسان اوزان نکالنے جا رہے ہیں۔ نہیں! بلکہ ہم موجودہ اوزان کو حفظ کے لیے آسان تر بنانے کی کوشش کریں گے اور موجودہ چوبیس اوزان سے ایک "کلیہ" کشید کرکے نذر ناظرین کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
(جاری ہے۔۔۔)
آخری تدوین: