طارق شاہ
محفلین
غزلِ
اوسط جعفری
جِنہیں صُبح تک تھا جلنا، سرِ شام بُجھ گئے ہیں
وہ چراغ کیا بُجھے ہیں، در و بام بُجھ گئے ہیں
ہُوا ظُلم جاتے جاتے، شبِ غم ٹھہر گئی ہے
جو سحر سے آ رہے تھے، وہ پیام بُجھ گئے ہیں
نہ رہا کوئی شناسا، کہ جو حال چال پُوچھے
پسِ پردہ تھے جو روشن، وہ سلام بُجھ گئے ہیں
ذرا آ کے دیکھے میری وہ یہ بہتی بستیوں کو
کہ گھر کی تختیوں کے سبھی نام بُجھ گئے ہیں
جہاں زندگی تھی رقصاں، جہاں موجزن تھیں خُوشیاں
کفِ سَیل آبِ خُوں سے، وہ مقام بُجھ گئے ہیں
نہ رہی کوئی بھی منزل، کہاں جائے اب مُسافر
کہ اُجڑ گئے ہیں رَستے، تو قیام بُجھ گئے ہیں
نہ دِیا کسی نے کاندھا، نہ اُٹھا کہیں جنازہ !
یُوں ہی خامشی سے کیسے، بڑے نام بُجھ گئے ہیں
ابھی آنی ہے یہاں پر، کوئی اور بھی قیامت
جو کئے تھے ہم نے روشن، وہ نظام بُجھ گئے ہیں
وہ نظر، ترے کرم کی، میرے ساقیا کِدھر ہے؟
جو لبوں تک آ چکے تھے، وہی جام بُجھ گئے ہیں
کوئی عشق کیا کرے اب، نہیں مسئلوں سے فُرصت
کہ جنُوں کے اور طلب کے، سبھی کام بُجھ گئے ہیں
نہ رہا غزل میں اوسط، کوئی لطف، نہ مزہ اب !
جو تھے نغمگی کا حاصِل، وہ کلام بُجھ گئے ہیں
اوسط جعفری