یہ تو زحال بھائی ہی بہتر بتا سکتے ہیںیہ کون سی والی نادرہ کی بات ہو رہی ہے؟
شمشاد بھائی کیا بات ہے آپ اتنی فکر کر رہے ہیں۔مجھے تو کچھ اور ہی دکھائی دے رہا ہےیہ کون سی والی نادرہ کی بات ہو رہی ہے؟
یہاں جرمنی فرینکفرٹ میں تو نمبر سسٹم جاری ہے لیکن مشین ایسی ہے کہ ٹوکن پرنٹ کرکے باہر نہیں نکالتی اندر ہی کہیں پھنس جاتا ہے اور جب پاکستانی طریق پر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو سارے پھنسے ہوئے نمبر باہر نکل آتے ہیں۔ ان نمبروں کو لے کر میں جب کاؤنٹر پر گیا تو اُنھوں نے کہا کہ سارے سنبھال لیں جب آپ کا نمبر پکارا جائے پھر سامنے آئیں ورنہ انتظار کریں۔یہاں کبھی پاکستان کے سفارتخانے جانے کا اتفاق ہو تو ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہہ رہے ہوں "اج ای تھے پھسے او ساڈھے اگے، ہُن کِتھے جاؤ گے"
آج تک یہاں نمبر سسٹم رائج نہیں ہو سکا۔ جس کا جہاں داؤ لگتا ہے لائن میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
میاں محب علوی آپ بھی تو نادرا کے فین ہیں
میاں محب علوی آپ بھی تو نادرا کے فین ہیں
یہ "بھائی" اور "میاں" دونوں اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ یا تو بھائی کہہ لیں یا پھر میاں۔بھائی میاں ۔ آپ کہیں فلم سٹار نادرا کی بات تو نہیں کررہے
ہا ہا ہا۔۔۔یہ "بھائی" اور "میاں" دونوں اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ یا تو بھائی کہہ لیں یا پھر میاں۔
شمشاد بھائی جی آپ ایک مشرقی لڑکے سے کیسے سوال کرتے ہیںیہ کون سی والی نادرہ کی بات ہو رہی ہے؟
شمشاد بھائی جی آپ ایک مشرقی لڑکے سے کیسے سوال کرتے ہیں
میرا تجربہ قدرے مختلف اور بہتر رہا ۔ البتہ میرا نمبر آنے تک میرے خیال میں کوئی پندرہ کے لگ بھگ مامے چاچے پھپھے تائے اور پیسے والوں کو بھگتا چکے تھے۔یہاں کبھی پاکستان کے سفارتخانے جانے کا اتفاق ہو تو ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہہ رہے ہوں "اج ای تھے پھسے او ساڈھے اگے، ہُن کِتھے جاؤ گے"
آج تک یہاں نمبر سسٹم رائج نہیں ہو سکا۔ جس کا جہاں داؤ لگتا ہے لائن میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
آپ کا کہنا بجا کہ پاکستان میں کرپشن عام ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہئیے کہ کرپشن کا ہر الزام درست ہی ہے۔ واللہ اعلم کہ یہ کیس کہاں تک جائے گا لیکن کم از کم میں اس اخبار کی رپورٹ کی بنیاد پرمیڈیا کے ہائے وائے مچانے کو عقلمندی نہیں سمجھتی۔چاہے یہ رپورٹ پلانٹڈ ہی کیوں نہ ہو لیکن آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتیں کہ پاکستان میں اس طرح کی چیزیں(کرپشن) عام ہیں۔آپ کو بس پیسہ لگانے کی ضرورت ہے آپکا کام چٹکی بجانے میں حل ہو جائیگا
اللہ آپ کی خوش گمانی برقرار رکھے۔اس رپورٹ کی وجہ سے اگر کچھ صحیح ہو جائے تو اور کیا چاہئیے۔چاہے رپورٹ جیسی بھی ہو
حسیب ہر جگہ انی پڑی ہوئی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دوسرے ممالک میں حکمران اور ادارے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں اور عوام اپنے اس حق کو استعمال بھی کرتے ہیں اور یوں حالات قابو میں رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ جس قوم میں ابھی تک اپنے عوامی نمائندے چننے کا شعور نہیں آیا وہاں جو بھی ہو کم ہے۔ ہمارے لوگ ٹیکسٹ میسجز میں تو ملک کے حکمرانوں کے لئے بدترین الفاظ استعمال کر کے اپنی فرسٹریشن تو نکال لیتے ہیں لیکن جب ان کو اپنے نمائندے چننے کا حق دیا جاتا ہے تو وہ انہی 'کرپٹ' افراد کو سامنے لے آتے ہیں۔ تازہ مثال ملتان کے بائے الیکشن میں عبدالقادر گیلانی کی جیت ہے۔لیکن پاکستان سے تو کم ہونگی۔پاکستان میں تو انّی پئی ہوئی اے
اس سے ظاہر ہوتا ہے معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ 'ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات'۔ جیسے ہم لوگ ہیں ویسے ہی حکمران ملیں گے۔ اور میڈیا کی ذمہ داری دیکھیں۔کسی کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو ٹی وی پر لا کر بھلائی نہیں بلکہ برائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ آج دو لوگوں نے ایسا کیا ہے کل یہی دو لوگ دو سو مزید لوگوں کے ایسا کہنے کا باعث بن جائیں گے۔ابھی کل ہی میں نے جیو کے پروگرام خبرناک میں ایک افسوسناک بات دیکھی۔۔ دو دوکاندار ٹی وی پر بیٹھ کر کروڑوں لوگوں کے سامنے بڑے اطمینان سے اپنی ملاوٹ اور کرپشن کی داستانیں سنا رہے تھے اور انہیں کوئی پچھتاوا کوئی افسوس نہیں ۔نلکہ الٹا ہنستے اور مسکراتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ۔عذرِ گناہ بدتر از گناہ ۔ میڈیا کی ہمنوائی میں وہ علی الاعلان اپنی حرکتوں کا جواز یہ پیش کررہے تھے کہ حکومت بھی تو ایسا کرتی ہے، ہم نے کرلیا تو کیا ہوا۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ یہ بھی پلانٹڈ بندے ہونگے لیکن پروگرام کے میزبان نے حلفیہ کہا کہ یہ پلانٹڈ نہیں ہیں اور وہ دونوں جس جگہ کاروبار کرتے ہیں، اس جگہ کا نام بھی بتا رہے تھے۔۔۔ یعنی کرلو جو کرنا
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کوئی اس سے سبق بھی سیکھ لے۔اس پروگرام میں ان پر کافی تنقید بھی کی گئی ہے۔اور ان کو پروگرام میں لانے کا اصل مقصد تو حکومت کو جھنجھوڑنا ہے۔ویسے بھی اس وقت پروگرام میں پنجاب کے مشیرِ صحت مہمان تھےاس سے ظاہر ہوتا ہے معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ 'ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات'۔ جیسے ہم لوگ ہیں ویسے ہی حکمران ملیں گے۔ اور میڈیا کی ذمہ داری دیکھیں۔کسی کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو ٹی وی پر لا کر بھلائی نہیں بلکہ برائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ آج دو لوگوں نے ایسا کیا ہے کل یہی دو لوگ دو سو مزید لوگوں کے ایسا کہنے کا باعث بن جائیں گے۔