فلک شیر
محفلین
اِس سلسلے میں صرف دو واقعات سنا کر مدعا بیان کرنے کی کوشش کروں گا
اول..... شیخوپورہ حرا کالج آف کریئر مینجمنٹ جناب جاوید اقبال سندھو صاحب کا برین چائلڈ تھا... سندھو صاحب جماعت اسلامی کے انتہائی متحرک کارکنان میں سے ایک تھے، لیاقت بلوچ صاحب کے سیکرٹری بھی رہ چکے تھے، جماعت کے حلقوں میں ان کی شخصیت، تنظیمی صلاحیت اور علمی لیاقت کا شہرہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد میں جب جماعت کے بینر تلے ہی قبلہ محمد علی درانی صاحب کی قیادت میں میں ایک سسٹر آرگنائزیشن شباب ملی علی بنی تو جاوید اقبال سندھو صاحب اس کے سیکریٹری جنرل تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال قصہ مختصر قریبی خاندانی تعلقات کی وجہ سے مجھے ایف ایس سی میں اس کالج میں داخل کروا دیا گیا... اس زمانے کے لحاظ سے اسے ایک جدید ادارہ سمجھا جاتا تھا جس میں کلاسز بہترین فرنیچر سے اور اساتذہ اعلیٰ تعلیم اور صلاحیت سے لیس ہوا کرتے تھے...
پہلے ہی دن جب انگریزی کی کلاس میں پروفیسر بھنگو صاحب نے انگریزی پڑھانا شروع کی تو ان کے پوچھے گئے کچھ سوالات کے جواب میں نے فوراً دیے... اگلی کلاس میں بھی ایسا ہی ہوا، یہ جوابات غالباً نصاب کے علاوہ پڑھی گئی لائبریریوں کی کتابوں، عمران سیریز، اخبارات اور دیگر ادھر ادھر کے مواد کے مطالعہ کا نتیجہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ استاد محترم نے اسی کلاس میں کہا کہ یہ لڑکا اوور کانفیڈنس کا شکار نہ ہوا تو بہت ترقی کرے گا ورنہ راوی کا پل بھی پار نہیں کرے گا.... اس فقیر نے استاد محترم کی پیشگوئی کے دوسرے حصے کو زیادہ لائق توجہ گردانا اور راوی کا پل پار کرنے کی بجائے چناب کنارے کا رخ کر لیا، یعنی ایف ایس سی کے بعد واپس آبائی علاقے کی طرف ہجرت کی... اور وہیں سے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان دیا.... اور کافی سالوں کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم اے انگلش کا امتحان پاس کیا غالباً استاد محترم کی وہ بات بالکل بجا تھی کہ اوور کانفیڈنس یعنی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے.....
دوسرا واقعہ اسی کالج میں ہمارے ایک ہم جماعت سے متعلق ہے... بھائی مضبوط مسلز کے مالک تھے کیونکہ باڈی بلڈنگ کا شوق بھی تھا... بال بھی اٹھا اٹھا گھما گھما کر چلتے اور ہر دو منٹ کے بعد انکو ایسے ہوا میں چھوڑتے جیسے کوچوان گھوڑے کو مارنے کے لیے سانٹا اٹھاتا ہے.. کلاس شروع ہوئے کچھ مہینے ہوئے تھے تھے انہیں کالج انتظامیہ کی ڈسپلن نافذ کرنے اور پڑھائی کے معاملے میں سختی کرنے کی پالیسی پسند نہ آئی... انہوں نے کلاس میں موجود پلاسٹک کی کرسیوں کی بیک سیٹ کے پیچھے نصب بڑے بڑے پلاسٹک کے پیج نکال کر غائب کرنے شروع کر دیے..... ہم میں سے ایک دو دوستوں نے دیکھا تو ان سے درخواست کی کہ:
جنابِ سندھو سے اتنی دشمنی اچھی نہیں فراز
فرسٹ ایئر کا سٹوڈنٹ ہے تو، کچھ تو خیال کر
لیکن بھائی کی خود اعتمادی اتنی بڑی ہوئی تھی تھی کہ انہوں نے ان درخواست نما نصیحتوں کو قابل اعتنا نہ سمجھا... ایک دن تو موصوف اس حد تک پہنچے کہ ایک پوری کلاس کے فرنیچر کے پیچھے سے وہ تمام پلاسٹک کے پیچ اتار دیئے اور یوں تمام کرسیاں لنڈوری ہوگئیں... انتظامیہ کو بھی خبر ہو گئی... کسی سویپر نے "دلی لٹنے" کی اطلاع سندھو صاحب کے دست راست سرفراز صاحب تک پہنچادی.... اسٹیبلشمنٹ کے کان کھڑے ہو گئے، کیونکہ پہلے تو ایک آدھ کرسی کا ہی معاملہ ہوتا تھا، مگر آج تو پوری کلاس کی کرسیوں کا یہ حشر ہوگیا تھا... تفتیش شروع ہوئی، گمان ہے کہ اندر ہی اندر سے کسی بندے نے" مخبری" کی اور اگلی صبح.....
اگلی صبح جب کالج لگا تو جاوید سندھو صاحب جو انتہائی دبنگ طبیعت واقع ہوئے تھے، کالج کے داخلی دروازے کے پاس ہی کھڑے تھے انہوں نے کالج میں داخل ہوتے ہی اس بھائی کو پکڑا اور انہیں کمرے میں لے جا کر کر تفتیشی مراحل مکمل کیے.... جن کے دوران باڈی بلڈر بھائی نے اعتراف جرم بھی کیا اور مال مسروقہ کی نشاندہی بھی کی....
پتہ چلا کہ بھائی وہ پلاسٹک کے پیچ اتار کر کالج کے بالکل سامنے ایک بڑی سی نالی میں پھینکا کرتے تھے... جاوید صاحب نے ان سے اسی وقت اس نالی کے اندر سے وہ تمام پیچ برآمد کروائے اور پورے کالج کے طلباء و طالبات کو آئندہ کے لئے کان ہو گئے کہ ایک تو پیچ نہیں اتارنے ن اور دوسرا اوور کانفیڈنس کا شکار نہیں ہونا....کم از کم کالج انتظامیہ کے ساتھ معاملات میں تو بالکل نہیں
فلک شیر
اول..... شیخوپورہ حرا کالج آف کریئر مینجمنٹ جناب جاوید اقبال سندھو صاحب کا برین چائلڈ تھا... سندھو صاحب جماعت اسلامی کے انتہائی متحرک کارکنان میں سے ایک تھے، لیاقت بلوچ صاحب کے سیکرٹری بھی رہ چکے تھے، جماعت کے حلقوں میں ان کی شخصیت، تنظیمی صلاحیت اور علمی لیاقت کا شہرہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد میں جب جماعت کے بینر تلے ہی قبلہ محمد علی درانی صاحب کی قیادت میں میں ایک سسٹر آرگنائزیشن شباب ملی علی بنی تو جاوید اقبال سندھو صاحب اس کے سیکریٹری جنرل تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال قصہ مختصر قریبی خاندانی تعلقات کی وجہ سے مجھے ایف ایس سی میں اس کالج میں داخل کروا دیا گیا... اس زمانے کے لحاظ سے اسے ایک جدید ادارہ سمجھا جاتا تھا جس میں کلاسز بہترین فرنیچر سے اور اساتذہ اعلیٰ تعلیم اور صلاحیت سے لیس ہوا کرتے تھے...
پہلے ہی دن جب انگریزی کی کلاس میں پروفیسر بھنگو صاحب نے انگریزی پڑھانا شروع کی تو ان کے پوچھے گئے کچھ سوالات کے جواب میں نے فوراً دیے... اگلی کلاس میں بھی ایسا ہی ہوا، یہ جوابات غالباً نصاب کے علاوہ پڑھی گئی لائبریریوں کی کتابوں، عمران سیریز، اخبارات اور دیگر ادھر ادھر کے مواد کے مطالعہ کا نتیجہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ استاد محترم نے اسی کلاس میں کہا کہ یہ لڑکا اوور کانفیڈنس کا شکار نہ ہوا تو بہت ترقی کرے گا ورنہ راوی کا پل بھی پار نہیں کرے گا.... اس فقیر نے استاد محترم کی پیشگوئی کے دوسرے حصے کو زیادہ لائق توجہ گردانا اور راوی کا پل پار کرنے کی بجائے چناب کنارے کا رخ کر لیا، یعنی ایف ایس سی کے بعد واپس آبائی علاقے کی طرف ہجرت کی... اور وہیں سے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان دیا.... اور کافی سالوں کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم اے انگلش کا امتحان پاس کیا غالباً استاد محترم کی وہ بات بالکل بجا تھی کہ اوور کانفیڈنس یعنی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے.....
دوسرا واقعہ اسی کالج میں ہمارے ایک ہم جماعت سے متعلق ہے... بھائی مضبوط مسلز کے مالک تھے کیونکہ باڈی بلڈنگ کا شوق بھی تھا... بال بھی اٹھا اٹھا گھما گھما کر چلتے اور ہر دو منٹ کے بعد انکو ایسے ہوا میں چھوڑتے جیسے کوچوان گھوڑے کو مارنے کے لیے سانٹا اٹھاتا ہے.. کلاس شروع ہوئے کچھ مہینے ہوئے تھے تھے انہیں کالج انتظامیہ کی ڈسپلن نافذ کرنے اور پڑھائی کے معاملے میں سختی کرنے کی پالیسی پسند نہ آئی... انہوں نے کلاس میں موجود پلاسٹک کی کرسیوں کی بیک سیٹ کے پیچھے نصب بڑے بڑے پلاسٹک کے پیج نکال کر غائب کرنے شروع کر دیے..... ہم میں سے ایک دو دوستوں نے دیکھا تو ان سے درخواست کی کہ:
جنابِ سندھو سے اتنی دشمنی اچھی نہیں فراز
فرسٹ ایئر کا سٹوڈنٹ ہے تو، کچھ تو خیال کر
لیکن بھائی کی خود اعتمادی اتنی بڑی ہوئی تھی تھی کہ انہوں نے ان درخواست نما نصیحتوں کو قابل اعتنا نہ سمجھا... ایک دن تو موصوف اس حد تک پہنچے کہ ایک پوری کلاس کے فرنیچر کے پیچھے سے وہ تمام پلاسٹک کے پیچ اتار دیئے اور یوں تمام کرسیاں لنڈوری ہوگئیں... انتظامیہ کو بھی خبر ہو گئی... کسی سویپر نے "دلی لٹنے" کی اطلاع سندھو صاحب کے دست راست سرفراز صاحب تک پہنچادی.... اسٹیبلشمنٹ کے کان کھڑے ہو گئے، کیونکہ پہلے تو ایک آدھ کرسی کا ہی معاملہ ہوتا تھا، مگر آج تو پوری کلاس کی کرسیوں کا یہ حشر ہوگیا تھا... تفتیش شروع ہوئی، گمان ہے کہ اندر ہی اندر سے کسی بندے نے" مخبری" کی اور اگلی صبح.....
اگلی صبح جب کالج لگا تو جاوید سندھو صاحب جو انتہائی دبنگ طبیعت واقع ہوئے تھے، کالج کے داخلی دروازے کے پاس ہی کھڑے تھے انہوں نے کالج میں داخل ہوتے ہی اس بھائی کو پکڑا اور انہیں کمرے میں لے جا کر کر تفتیشی مراحل مکمل کیے.... جن کے دوران باڈی بلڈر بھائی نے اعتراف جرم بھی کیا اور مال مسروقہ کی نشاندہی بھی کی....
پتہ چلا کہ بھائی وہ پلاسٹک کے پیچ اتار کر کالج کے بالکل سامنے ایک بڑی سی نالی میں پھینکا کرتے تھے... جاوید صاحب نے ان سے اسی وقت اس نالی کے اندر سے وہ تمام پیچ برآمد کروائے اور پورے کالج کے طلباء و طالبات کو آئندہ کے لئے کان ہو گئے کہ ایک تو پیچ نہیں اتارنے ن اور دوسرا اوور کانفیڈنس کا شکار نہیں ہونا....کم از کم کالج انتظامیہ کے ساتھ معاملات میں تو بالکل نہیں
فلک شیر