اَدائیں حشر جگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے-شہزاد قیس

اَدائیں حشر جگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
خیال حرف نہ پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

بہشتی غنچوں میں گوندھا گیا صراحی بدن
گلاب خوشبو چرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

قدم ، اِرم میں دَھرے ، خوش قدم تو حور و غلام
چراغ گھی کے جلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

دِہکتا جسم ہے آتش پرستی کی دعوت
بدن سے شمع جلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

غزال قسمیں ستاروں کی دے کے عرض کریں
حُضور! چل کے دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

چمن کو جائے تو دَس لاکھ نرگسی غنچے
زَمیں پہ پلکیں بچھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

کڑکتی بجلیاں جب جسم بن کے رَقص کریں
تو مور سر کو ہلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

حسین پریاں چلیں ساتھ کر کے ’’سترہ‘‘ سنگھار
اُسے نظر سے بچائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

یہ شوخ تتلیاں ، بارِش میں اُس کو دیکھیں تو
اُکھاڑ پھینکیں قبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ پنکھڑی پہ اَگر چلتے چلتے تھک جائے
تو پریاں پیر دَبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ چاند عید کا اُترے جو دِل کے آنگن میں
ہم عید روز منائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

زَمیں پہ خِرمنِ جاں رَکھ کے ہوشمند کہیں
بس آپ بجلی گرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جنہوں نے سائے کا سایہ بھی خواب میں دیکھا
وُہ گھر کبھی نہ بسائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

اُداس غنچوں نے جاں کی اَمان پا کے کہا
یہ لب سے تتلی اُڑائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

کمر کو کس کے دوپٹے سے جب چڑھائے پینگ
دِلوں میں زَلزلے آئیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ آبشار میں بندِ قبا کو کھولے اَگر
تو جھرنے پیاس بجھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

شریر مچھلیاں کافِر کی نقل میں دِن بھر
مچل مچل کے نہائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

حلال ہوتی ہے ’’پہلی نظر‘‘ تو حشر تلک
حرام ہو جو ہٹائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جو کام سوچ رہے ہیں جناب دِل میں اَبھی
وُہ کام بھول ہی جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

نہا کے جھیل سے نکلے تو رِند پانی میں
مہک شراب سی پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

چرا کے عکس ، حنا رَنگ ہاتھ کا قارُون
خزانے ڈُھونڈنے جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

کُنواری دِیویاں شمعیں جلا کے ہاتھوں پر
حیا کا رَقص دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

چنے گلاب تو لگتا ہے پھول مل جل کر
مہکتی فوج بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

غزال نقشِ قدم چوم چوم کر پوچھیں
کہاں سے سیکھی اَدائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

سرہانے میر کے ٹُک فاتحہ کو گر وُہ جھکے
تو میر جاگ ہی جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

حسین تتلیاں پھولوں کو طعنے دینے لگیں
کہا تھا ایسی قبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

اَگر لفافے پہ لکھ دیں ، ’’ملے یہ ملکہ کو‘‘
تو خط اُسی کو تھمائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

عقیق ، لولو و مرجان ، ہیرے ، لعلِ یمن
اُسی میں سب نظر آئیں ، وُہ اتنا دلکش ہے

گلاب ، موتیا ، چنبیلی ، یاسمین ، کنول
اُسے اَدا سے لُبھائیں ، وُہ اتنا دلکش ہے

مگن تھے مینہ کی دُعا میں سبھی کہ وُہ گزرا
بدل دیں سب کی دُعائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

شراب اور ایسی کہ جو ’’دیکھے‘‘ حشر تک مدہوش
نگاہ رِند جھکائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

نُجومی دیر تلک بے بسی سے دیکھیں ہاتھ
پھر اُس کو ہاتھ دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

بدل کے ننھے فرشتے کا بھیس جن بولا
مجھے بھی گود اُٹھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

ہمیں تو اُس کی جھلک مست مور کرتی ہے
شراب اُسی کو پلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

بہانے جھاڑُو کے پلکوں سے چار سو پریاں
قدم کی خاک چرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ چُومے خشک لبوں سے جو شبنمِ گُل کو
تو پھول پیاس بجھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے بھیگے لب اُس کے
ہَوا میں شہد ملائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

مکین چاند کے بیعت کو جب بلاتے ہیں
دَھنک کی پالکی لائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جفا پہ اُس کی فدا کر دُوں سوچے سمجھے بغیر
ہزاروں ، لاکھوں وَفائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

سفید جسم جو لرزے ذِرا سا بارِش میں
تو اَبر کانپ سے جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جو اُس کو چومنا چاہیں ، اَگر وُہ چومنے دے
تو چوم پھر بھی نہ پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

ستارے توڑ کے لانے کی کیا ضرورت ہے
ستارے دوڑ کے آئیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

چمن میں اُس نے جہاں دونوں بازُو کھولے تھے
وَہاں کلیسا بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

ہم اُس کے چہرے سے نظریں ہٹا نہیں سکتے
گلے سے کیسے لگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ جتنا جسم تھا ، اُتنا غزل میں ڈھال لیا
طلسم کیسے دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

غلام بھیجتا ، سر آنکھوں پر بٹھا لیتے
اُسے کہاں پہ بٹھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

تمام آئینے حیرت میں غرق سوچتے ہیں
اُسے یہ کیسے بتائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

زَبان وَصف سے عاجز ، حُروف مفلس تر
قلم گھسیٹ نہ پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

طلسمِ حُسن ہے موجود لفظوں سے اَفضل
لغت جدید بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

قسم ہے قیس تجھے توڑ دے یہیں پہ قلم
رَفیق مر ہی نہ جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
شہزاد قیس کی کتاب "لیلٰی" سے انتخاب
 
حسین پریاں چلیں ساتھ کر کے ’’سترہ‘‘ سنگھار
اُسے نظر سے بچائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
بہت خوبصورت ترکیب ہے مزہ آگیا سولہ سنگارکا توسناتھا سترہ سنگار کیا بات ہے لگتا ہے مشاطہ(بیوٹیشن) دیار مغرب سے خصوصی تربیت لیکر آئی ہے بقول فراز
مؤقلم حلقہ ابر سے بنا دے خنجر
لفظ نوحوں میں رقم مدحِ رخِ یار کریں
 
Top