اَشک دَر اَشک ، دُہائی کا ثمر دیتے ہیں - شہزاد قیس


اَشک دَر اَشک ، دُہائی کا ثمر دیتے ہیں
اُن کے آثار ، جدائی کی خبر دیتے ہیں

غالباً یہ مرے چپ رہنے کا خمیازہ ہے
تجھ کو آواز مرے شام و سَحَر دیتے ہیں

مسکرا کر مجھے دے دیتے ہیں وہ اِذنِ فرار
پر مری ذات کو اَندر سے جکڑ دیتے ہیں

چند اِحباب ، مسیحائی کا وعدہ کر کے
زَخم کو کھود کے ، بارُود سا بھر دیتے ہیں

ایک بے نام اُداسی نے مجھے گھیر لیا
خشک پلکوں سے وُہ آج اِذنِ سفر دیتے ہیں

لفظ مردہ ہیں ، لغت کوئی اُٹھا کر دیکھو
صرف جذبات ہی لفظوں کو اَثر دیتے ہیں

وادیٔ حُسن کے نقاش ، شریر اِتنے ہیں
چشمِ گمراہ کو بھی راہ گزر دیتے ہیں

آپ کیا دیتے ہیں اِس حُسن کی رَعنائی کو
جس کے ’’دیدار‘‘ کو ہم خونِ جگر دیتے ہیں

ساقیئ مستِ اَلست اَپنی پہ آ جائیں تو
اِک نظر دیکھ کے ’’میخانے‘‘ کو بھر دیتے ہیں

چشمِ مرشد ہی نہیں چشمۂ فیضانِ بشر
قیس کچھ دَستِ حنائی بھی نظر دیتے ہیں

شہزاد قیس
 
Top