آنکھوں کو نہیں سُوجھتا، آزار کہاں ہے
احساس کے تلوے میں چھپا خار کہاں ہے
جو جھاگ سا اُٹھا تھا کبھی اپنے سروں سے
اب دیکھیے وہ طرۂ پندار کہاں ہے
ہلچل سی مچا دیتا تھا جو کاسۂ خوں میں
جو دشمنِ جاں تھا وہ مرا یار کہاں ہے
شعلہ تو کہاں کا کہ دُھواں تک نہیں دیکھا
موجود پسِ لب ہے جو وہ نار کہاں ہے
تہہ دار ہے، اُلجھاؤ نہیں اُس کے سخن میں
ماجد کا لکھا ایسا پُراسرار کہاں ہے
٭٭٭