اُداس زِیست میں کچھ لوگ با کمال ملے غزل نمبر 186 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
اُداس زِیست میں کچھ لوگ با کمال ملے
کہ جِن سے مِل کے ہمیں نِت نئے خیال ملے

اُنہی سے سیکھا ہے ہم نے غموں میں خُوش رہنا
اُنہی کے دم سے ہمیں زِندگی نِہال ملے

جہاں میں لوگ بھی کچھ مکڑیوں سے کم تو نہیں
جہاں جہاں بھی گئے سازشوں کے جال ملے

اگر جو عاشقِ صادق کے گوشوارے بنیں
تلاشنے سے بھی دنیا میں خال خال ملے

خُدا سے شِکوہ نہ کرنا کبھی بھی غُربت کا
خُدا کا شُکر ہے لازم اگرچہ دال ملے

تُمہاری دِید سے ہیں شاد اس قدر جاناں!
کہ جیسے آسماں پر عِید کا ہلِال ملے

ہمیشہ عِشق میں لوگوں نے دُکھ اُٹھائے ہیں
ہر ایک دور میں عاشق خراب حال ملے

سلام دُور سے کرتا ہوں عِشق کو
شارؔق
ارے خُدا نہ کرے یہ مجھے وبال ملے
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر یاسر شاہ
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
اُداس زِیست میں کچھ لوگ با کمال ملے
کہ جِن سے مِل کے ہمیں نِت نئے خیال ملے
پہلا مصرع تو ایسا لگتا ہے جیسے پولس نے اداسِ زیست نامی مقام پر چھاپہ مارا تو کچھ لوگ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے؟ کیا کہنا چاہ رہے ہو میاں، سمجھ میں نہیں آتا

اُنہی سے سیکھا ہے ہم نے غموں میں خُوش رہنا
اُنہی کے دم سے ہمیں زِندگی نِہال ملے
یہ کن لوگوں کی بات ہو رہی ہے، وہی جو مطلع میں با کمال ملے تھے؟ "نہال ملے" اگر تمنائی ہے تو بیانیہ عجیب لگتا ہے
جہاں میں لوگ بھی کچھ مکڑیوں سے کم تو نہیں
جہاں جہاں بھی گئے سازشوں کے جال ملے
ٹھیک
اگر جو عاشقِ صادق کے گوشوارے بنیں
تلاشنے سے بھی دنیا میں خال خال ملے
ردیف یہاں بھی گڑبڑ ہے، فاعل عاشق ہے یا گوشوارے؟
خُدا سے شِکوہ نہ کرنا کبھی بھی غُربت کا
خُدا کا شُکر ہے لازم اگرچہ دال ملے
کبھی کے ساتھ بھی کا اضافہ مجھے غیر ضروری لگتا ہے، ویسے درست ہے
تُمہاری دِید سے ہیں شاد اس قدر جاناں!
کہ جیسے آسماں پر عِید کا ہلِال ملے
"آسماں پر" آسَمَپَر" تقطیع ہونا درست نہیں، الفاظ یا ترتیب بدلو
ہمیشہ عِشق میں لوگوں نے دُکھ اُٹھائے ہیں
ہر ایک دور میں عاشق خراب حال ملے
ٹھیک، عشاق لا َسکو تو بہتر ہے

سلام دُور سے کرتا ہوں عِشق کو شارؔق
ارے خُدا نہ کرے یہ مجھے وبال ملے
وبال ملنا محاورہ نہیں
 
Top