اُستاد جی، شعر لکھنا واقئی مشکل کام ہے، دیکیے تو ذرا

محبّت اِس قدر نہ کر، سہارا تو کرو اک پل
خدا کے واسطے مجھ سے، کنارا تو کرو اک پل

یہ شّدت لے ہی ڈوبے گی، یہ وحشت مار ڈالے گی
جدائی کا کوئی لمحہ گوارا تو کرو اک پل

مجھے اب خوف لاگے ہے، مجھے اب ڈر ہی لاگے ہے
کرو تھوڑا تدبر تم ، خدارا تو کرو اک پل

چلو میں دن نہیں مانگوں، چلو میں شب نہیں چاہوں
ذرا میرے بنا جانم گزارا تو کرو اک پل

ترا احسان ہے اللہ، بڑا ہے کام کا اظہر
مرا تو تھا زمانے سے، تمہارا بھی کرو اک پل
 

فرخ منظور

لائبریرین
محبّت اِس قدر نہ کر، سہارا تو کرو اک پل
اظہر صاحب یہاں سہارا آپ نے کن معنوں میں استعمال کیا ہے؟

مجھے اب خوف لاگے ہے، مجھے اب ڈر ہی لاگے ہے
کرو تھوڑا یقیں میرا، خدارا تو کرو اک پل
اور اس شعر کی بالکل کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ خدارا کن معنوں میں آپ نے استعمال کیا ہے؟
وحشت کی ش پر شد نہیں ہوتی۔ یہ وح شَت ہے۔ وحش شت نہیں۔
 
سخنور جی،
بہت شکریہ املا کی اصلاح کے لیے، انشا اللہ کوشش ہو گی آئندہ نہ ہو
سہارا اس معنیٰ میں استعمال کیا ہے کے، کچھ توقف تو کرو- گویا ایک جنونی کیفیت سے نکالنے کے لیا
والسلام
اظہر
 

فرخ منظور

لائبریرین
سخنور جی،
بہت شکریہ املا کی اصلاح کے لیے، انشا اللہ کوشش ہو گی آئندہ نہ ہو
سہارا اس معنیٰ میں استعمال کیا ہے کے، کچھ توقف تو کرو- گویا ایک جنونی کیفیت سے نکالنے کے لیا
والسلام
اظہر

اظہر صاحب میں سمجھ گیا تھا کہ آپ نے کن معنوں میں سہارا استعمال کیا ہے۔ لیکن یہ معانی پنجابی میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ معانی اردو میں استعمال نہیں ہوتے۔
 

الف عین

لائبریرین
اوہو۔ تو سہارا یہ بھی ہوتا ہے، اس غیر پنجابی ہندوستانی کو کس طرح سمجھ میں آتا؟
دوسری بات۔ پلیز اصل پوسٹ میں تدوین نہ کریں تا کہ معلوم ہو کہ کس لفظ کی اصلاح کی گئی ہے۔ محمود مغل نے ’وحشت‘ کے تلفظ پر اعتراض کیا ہے، لیکن مجھے اس وقت یہ درست لگ رہا ہے، شاید اصلاح کر دی گئی۔

اب ایک ایک کر کے پوسٹ مارٹم
محبّت اِس قدر نہ کر، سہارا تو کرو اک پل
خدا کے واسطے مجھ سے، کنارا تو کرو اک پل
’نہ‘ بر وزن ’نا‘ مجھے پسند نہیں، یہاں ’مت‘ کیا جا سکتا ہے، لیکن سوال دونوں مصرعوں میں صیغے کا ہے، پہلے میں تو کا اور دوسرے میں تم کا۔

یہ شّدت لے ہی ڈوبے گی، یہ وحشت مار ڈالے گی
جدائی کا کوئی لمحہ گوارا تو کرو اک پل
شدت؟ کس بات کی؟ شدت پسندی سے مراد ہے کیا؟

مجھے اب خوف لاگے ہے، مجھے اب ڈر ہی لاگے ہے
کرو تھوڑا تدبر تم ، خدارا تو کرو اک پل
مطلب؟، اس کے علاوہ ہندی گیتوں میں تو "لاگے‘ یا "لاگا" اچھا لگ سکتا ہے، غزل میں نہیں۔

چلو میں دن نہیں مانگوں، چلو میں شب نہیں چاہوں
ذرا میرے بنا جانم گزارا تو کرو اک پل
درست

ترا احسان ہے اللہ، بڑا ہے کام کا اظہر
مرا تو تھا زمانے سے، تمہارا بھی کرو اک پل
مطلب؟
 
محبّت اِس قدر نہ کر، گزارا تو کرو اک پل
خدا کے واسطے مجھ سے، کنارا تو کرو اک پل

یہ شّدت لے ہی ڈوبے گی، یہ وحشت مار ڈالے گی
جدائی کا کوئی لمحہ گوارا تو کرو اک پل

مجھے اب ڈر بھی لگتا ہے، مجھے اب خوف سا بھی ہے
کرو تھوڑا تدبر تم ، خدارا تو کرو اک پل

چلو میں دن نہیں مانگوں، چلو میں شب نہیں چاہوں
ذرا میرے بنا جانم نظارا تو کرو اک پل

وہ جھٹ سے کام کر دے گا، وہ کھٹ سے سامنے ہو گا
بڑا رحمان ہے اللہ، پکارا تو کرو اک پل

ترا احسان ہے یا رب، بڑا ہے کام کا اظہر
مرا تو تھا زمانے سے، تمہارا بھی کرو اک پل

اُستادِ گرامی،
مصرع تانیا میں شدّت سے مراد شدّتِ محبت ہے
مقظع میں اللہ سے گزارش ہے کہ بڑا کام کا بندہ ہوں تیری مہربانی سے لیکن بس اپنے آپ کا ہوں، رحمت سے اپنی تو مجھے اپنا کر لے چاہے اک پل کے لیے
مشکور
اظہر​
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم اظہر، اس غزل کی مکہاں تک اصلاح کی جائے، کسی شعر کا مفہوم بھی درست نہیں نکلتا، اور الفاظ کا انتخاب بھی غلط ہے، اس غزل میں دوبارہ محنت کرو۔
 

مغزل

محفلین
جب کہ میں مخالفت کروں ہوں‌ جناب،
اظہر بھیا پہلے کئی بار خود کوشش کیجے اور خود تلاش کیجے کہ کیا اغلاط ہیں ، اسی طرح سیکھا جاتا ہے ۔
کیا کہتے ہیں ؟؟ ۔۔ ٹھیک کہا ناں ؟؟ ۔۔۔ ہمم۔۔۔ تو ہوجائیں شروع ۔۔ شاباش ۔۔۔
 

مغزل

محفلین
اوہو۔ تو سہارا یہ بھی ہوتا ہے، اس غیر پنجابی ہندوستانی کو کس طرح سمجھ میں آتا؟
دوسری بات۔ پلیز اصل پوسٹ میں تدوین نہ کریں تا کہ معلوم ہو کہ کس لفظ کی اصلاح کی گئی ہے۔ محمود مغل نے ’وحشت‘ کے تلفظ پر اعتراض کیا ہے، لیکن مجھے اس وقت یہ درست لگ رہا ہے، شاید اصلاح کر دی گئی۔

بابا جانی ،۔ میں نہیں تھا ۔۔قسم سے ۔۔ :sad2: :sad2: ۔۔ یہ تو فرخ بھائی تھے۔۔:battingeyelashes: :battingeyelashes:
( باقی میں آپ کی بات سے متفق ہوں ، بابا جانی )
 
Top