عظیم اللہ قریشی
محفلین
دل میں تیری یاد آئی رات بھر
ہم نے رو رو کر بتائی رات بھر
جام کی نوبت نہ آئی رات بھر
اُس نے آنکھوں سے پلائی رات بھر
خود پریشاں تھی خدائی رات بھر
ہم نے تیری دی دہائی رات بھر
بانسری کس نے سنائی رات بھر
جو مجھے آواز آئی رات بھر
زندگی بھی درد ہے اک دائمی
غم نے اس کو دی دوائی رات بھر
اس کی یادوں نے بسائی رات بھر
ہم نہیں سہتے جدائی رات بھر
کیوں دیوانوں کی طرح پھرتا ہے تُو
میرے بابا میرے بھائی رات بھر
ہم نے رو رو کر بتائی رات بھر
جام کی نوبت نہ آئی رات بھر
اُس نے آنکھوں سے پلائی رات بھر
خود پریشاں تھی خدائی رات بھر
ہم نے تیری دی دہائی رات بھر
بانسری کس نے سنائی رات بھر
جو مجھے آواز آئی رات بھر
زندگی بھی درد ہے اک دائمی
غم نے اس کو دی دوائی رات بھر
اس کی یادوں نے بسائی رات بھر
ہم نہیں سہتے جدائی رات بھر
کیوں دیوانوں کی طرح پھرتا ہے تُو
میرے بابا میرے بھائی رات بھر