اُس کو اُسی کا عکس دِکھاتا رہا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل

ش زاد

محفلین
اُس کو اُسی کا عکس دِکھاتا رہا ہوں میں
خُد آئینے کے واسطے دھوکہ رہا ہوں میں

اُس نے کہا ہے اچھے نظر آرہے ہیں آپ
اِتنی ذرا سی بات پہ اِترا رہا ہوں میں

دریا ہوا ہوں آج میں اپنے ریاض سے
پہلے ھزار سال تو صحرا رہا ہوں میں

پہروں کِسی کی یاد ستاتی رہی مجھے
پہروں کِسی درخت سے لِپٹا رہا ہوں میں

سوچا تھا اُس کو ہاتھ لگانے کا اور اب
محسوس ہو رہا ہے کہ پتھرا رہا ہوں میں​

ش زاد
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے شہزاد صاحب!

ایک بات جس کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک صحرا کبھی بھی صرف اپنے ریاض سے، چاہے وہ ہزاروں سالوں کا ہی کیوں نہ ہو، دریا نہیں ہو سکتا۔ اس شعر میں خیال یا آئیڈیا بہت اچھا ہے لیکن تمثیل کے لیے جو الفاظ آپ نے منتخب کیے (صحرا اور دریا) ان سے تھوڑی گڑ بڑ لگ رہی ہے مجھے، آپ کا کیا خیال ہے!
 

ش زاد

محفلین
اچھی غزل ہے شہزاد صاحب!

ایک بات جس کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک صحرا کبھی بھی صرف اپنے ریاض سے، چاہے وہ ہزاروں سالوں کا ہی کیوں نہ ہو، دریا نہیں ہو سکتا۔ اس شعر میں خیال یا آئیڈیا بہت اچھا ہے لیکن تمثیل کے لیے جو الفاظ آپ نے منتخب کیے (صحرا اور دریا) ان سے تھوڑی گڑ بڑ لگ رہی ہے مجھے، آپ کا کیا خیال ہے!
بہت بہت شکریہ وارث بھائی آپ کا نقطہ جاندار ہے
میں اس شعر کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہوں یا پھر حزف ھی کر دوں گا
ایک بار پھر تہہِ دل سے شکریہ
 
Top