کاشفی
محفلین
غزل
(اقبال اشہر)
اُس کی خوشبو میری غزلوں میں سمٹ آئی ہے
نام کا نام ہے، رسوائی کی رسوائی ہے
دل ہے اک اور دوعالم کا تمنائی ہے
دوست کا دوست ہے، ہرجائی کا ہرجائی ہے
ہجر کی رات ہے اور اُن کے تصوّر کا چراغ
بزم کی بزم ہے، تنہائی کی تنہائی ہے
کون سے نام سے تعبیر کروں اِس رُت کو
پھول مرجھائے ہیں، زخموں پہ بہار آئی ہے
کیسی ترتیب سے کاغذ پہ گرے ہیں آنسو
ایک بھولی ہوئی تصویر اُبھر آئی ہے
(اقبال اشہر)
اُس کی خوشبو میری غزلوں میں سمٹ آئی ہے
نام کا نام ہے، رسوائی کی رسوائی ہے
دل ہے اک اور دوعالم کا تمنائی ہے
دوست کا دوست ہے، ہرجائی کا ہرجائی ہے
ہجر کی رات ہے اور اُن کے تصوّر کا چراغ
بزم کی بزم ہے، تنہائی کی تنہائی ہے
کون سے نام سے تعبیر کروں اِس رُت کو
پھول مرجھائے ہیں، زخموں پہ بہار آئی ہے
کیسی ترتیب سے کاغذ پہ گرے ہیں آنسو
ایک بھولی ہوئی تصویر اُبھر آئی ہے
آخری تدوین: