اشرف نقوی
محفلین
اُلجھے ہوئے لفظوں کے معانی کی طرح ہوں
میں شہرِ محبت میں کہانی کی طرح ہوں
اُتری ہے کوئی شام مضافاتِ بدن میں
دوچار گھڑی لمحہء فانی کی طرح ہوں
دریا میں بہاؤ ہے مِرا آب کی صورت
صحرا میں سرابوں کی روانی کی طرح ہوں
تجھ کو بھی کوئی کام نہیں حُسنِ عمل سے
اور میں بھی تِری شعلہ بیانی کی طرح ہوں
سہما ہوا رہتا ہوں سدا ذات میں اپنی
خوشبو میں مگر رات کی رانی کی طرح ہوں
دُھندلا دیے ہیں وقت نے میرے بھی خدو خال
تصویرِ شکستہ وپرانی کی طرح ہوں
اشرف ہو کسی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو
نمکین کسی بحر کے پانی کی طرح ہوں
اشرف نقوی
میں شہرِ محبت میں کہانی کی طرح ہوں
اُتری ہے کوئی شام مضافاتِ بدن میں
دوچار گھڑی لمحہء فانی کی طرح ہوں
دریا میں بہاؤ ہے مِرا آب کی صورت
صحرا میں سرابوں کی روانی کی طرح ہوں
تجھ کو بھی کوئی کام نہیں حُسنِ عمل سے
اور میں بھی تِری شعلہ بیانی کی طرح ہوں
سہما ہوا رہتا ہوں سدا ذات میں اپنی
خوشبو میں مگر رات کی رانی کی طرح ہوں
دُھندلا دیے ہیں وقت نے میرے بھی خدو خال
تصویرِ شکستہ وپرانی کی طرح ہوں
اشرف ہو کسی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو
نمکین کسی بحر کے پانی کی طرح ہوں
اشرف نقوی
مدیر کی آخری تدوین: