منٹو میرا کچھ خاص پسندیدہ نہیں رہا۔ عصمت کی بےباکی بھی مجھے نہیں بھائی۔ مگر ایک بات کی داد تو دینا ہی پڑے گی دونوں کو۔ سماج کو حقیقت کا جو آئینہ انھوں نے اور ان جیسے دوسروں نے دکھایا ہے اسے میں نہایت دیانتداری سے ایک طرح کا جہاد ہی سمجھتا ہوں۔
اگر میری باتوں کو تناظر سے ہٹ کر نقل نہ کیا جائے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو میں کہوں گا کہ جنابِ رسولﷺ نے سماج کی جھوٹی غیرت کا پردہ جس طرح چاک کیا تھا وہ شاید امتِ مرحوم کو یاد نہیں۔ رسولِ اکرمﷺ کے زمانے میں قہر یہ تھا کہ بیٹی بذاتِ خود ایک طعنہ تھی۔ جنابﷺ نے اسے عزت دی اور وہ دی کہ اسے زندہ رکھنا تو ایک طرف رہا، اس کی اچھی تربیت کرنے پر جنت تک کی بشارت دے دی۔ اس سے بڑی آزاد خیالی کیا ہو سکتی ہے؟ تمام عوامل کو سامنے رکھ کر دیکھیے تو معلوم ہو جائے گا کہ زمانۂِ حال کے کسی بھی آزاد خیال شخص کی جرات نہیں کہ آں حضرتﷺ کا سا انقلابی خیال پیش کر دکھائے۔
اور آج کا قہر آپ جانتے ہیں کیا ہے؟
آج کا قہر یہ ہے کہ انسان کے جذبات کو طعنہ سمجھا جا رہا ہے۔ فطری جذبات کو۔ اتنے ہی فطری جتنی فطری بیٹی کا وجود ہوتا ہے۔ آج کے جہلا چاہتے ہیں کہ انھیں بھی قتل کر کے کسی گڑھے میں دفن کر دیا جائے۔ دلائل کا کیا کہیے؟ عرب کے بدوؤں کے پاس بھی تھے اور ان کے پاس بھی ہیں۔ بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ
دنیا کو ہے اس مہدئِ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلۂِ عالمِ افکار ---- !