اُلٹی شلوار ۔۔۔

یہ ساری بحث تو آپکے تجویز کردہ عنوان ہی سے شروع ہوئی نا ؟
میں نے تو صرف عنوان تجویز کیا تھا بھائی، کوئی بحث نہیں کی ۔۔۔۔ خیر
معلوم ہوتا ہے آپ کو میری کوئی بات بھلی محسوس نہیں ہوئی، مگر یقین مانیئے اس میں کہیں بھی آپ مراد نہیں تھے بلکہ یہ چونکہ ایک ادیب نے لکھا ہے اس لئے میری گفتگو کی ضمیر ادیب کی طرف تھی
 
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ، وہ تو میں سمجھ ہی گیا تھا کہ میری طرف کائی اشارہ نہیں کیونکہ میں نے صرف شیئر کی ہے لکھی تو نہیں
البتہ
تجویز کردہ عنوان سے اتفاق نہیں تھا بس اور کوئی بات نہیں
 
کیا یہ کہانی حقیقی ہے؟ اگر نہیں تواس طرح کی کہانیوں میں کرداروں کے نام ایسے رکھنے چاہیے جس سے کسی قوم یا خاص شخصیات کی جانب خیال نہ جائے۔

حقیقی ہے کہ نہیں اس بارے میں تو کوئی مستند رائے نہیں دی جاسکتی
لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایسے واقعات معاشرے میں کثرت سے ہورہے ہیں جسکی وجہ سے حقیقت ہی لگتی ہے
باقی آپکی دوسری بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے
 
کیا یہ کہانی حقیقی ہے؟ اگر نہیں تواس طرح کی کہانیوں میں کرداروں کے نام ایسے رکھنے چاہیے جس سے کسی قوم یا خاص شخصیات کی جانب خیال نہ جائے۔
بہنیں بیٹیاں بھی ہیں محفل پر ۔
بہت دعائیں
کیا خیال ہے؟
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
 
ادیب کا اپنا تخیل ہے ورنہ اس تحریر کا بہتر عنوان
"لٹکتا ناڑا" بھی ہو سکتا تھا ......


قطرینہ کے زمانے میں مسرت شاہین کی باتیں ۔۔۔ نئی نسل کو ناڑے کا کدهر پتا ہے ؟ کیا لڑکے اور کیا لڑکیاں سب متاثرین الاسٹک ہیں:p

عنوان ٹهیک ہے
 
منٹو میرا کچھ خاص پسندیدہ نہیں رہا۔ عصمت کی بےباکی بھی مجھے نہیں بھائی۔ مگر ایک بات کی داد تو دینا ہی پڑے گی دونوں کو۔ سماج کو حقیقت کا جو آئینہ انھوں نے اور ان جیسے دوسروں نے دکھایا ہے اسے میں نہایت دیانتداری سے ایک طرح کا جہاد ہی سمجھتا ہوں۔
اگر میری باتوں کو تناظر سے ہٹ کر نقل نہ کیا جائے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو میں کہوں گا کہ جنابِ رسولﷺ نے سماج کی جھوٹی غیرت کا پردہ جس طرح چاک کیا تھا وہ شاید امتِ مرحوم کو یاد نہیں۔ رسولِ اکرمﷺ کے زمانے میں قہر یہ تھا کہ بیٹی بذاتِ خود ایک طعنہ تھی۔ جنابﷺ نے اسے عزت دی اور وہ دی کہ اسے زندہ رکھنا تو ایک طرف رہا، اس کی اچھی تربیت کرنے پر جنت تک کی بشارت دے دی۔ اس سے بڑی آزاد خیالی کیا ہو سکتی ہے؟ تمام عوامل کو سامنے رکھ کر دیکھیے تو معلوم ہو جائے گا کہ زمانۂِ حال کے کسی بھی آزاد خیال شخص کی جرات نہیں کہ آں حضرتﷺ کا سا انقلابی خیال پیش کر دکھائے۔
اور آج کا قہر آپ جانتے ہیں کیا ہے؟
آج کا قہر یہ ہے کہ انسان کے جذبات کو طعنہ سمجھا جا رہا ہے۔ فطری جذبات کو۔ اتنے ہی فطری جتنی فطری بیٹی کا وجود ہوتا ہے۔ آج کے جہلا چاہتے ہیں کہ انھیں بھی قتل کر کے کسی گڑھے میں دفن کر دیا جائے۔ دلائل کا کیا کہیے؟ عرب کے بدوؤں کے پاس بھی تھے اور ان کے پاس بھی ہیں۔ بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ
دنیا کو ہے اس مہدئِ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلۂِ عالمِ افکار ---- !​
 

نایاب

لائبریرین

منٹو میرا کچھ خاص پسندیدہ نہیں رہا۔ عصمت کی بےباکی بھی مجھے نہیں بھائی۔ مگر ایک بات کی داد تو دینا ہی پڑے گی دونوں کو۔ سماج کو حقیقت کا جو آئینہ انھوں نے اور ان جیسے دوسروں نے دکھایا ہے اسے میں نہایت دیانتداری سے ایک طرح کا جہاد ہی سمجھتا ہوں۔
اگر میری باتوں کو تناظر سے ہٹ کر نقل نہ کیا جائے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو میں کہوں گا کہ جنابِ رسولﷺ نے سماج کی جھوٹی غیرت کا پردہ جس طرح چاک کیا تھا وہ شاید امتِ مرحوم کو یاد نہیں۔ رسولِ اکرمﷺ کے زمانے میں قہر یہ تھا کہ بیٹی بذاتِ خود ایک طعنہ تھی۔ جنابﷺ نے اسے عزت دی اور وہ دی کہ اسے زندہ رکھنا تو ایک طرف رہا، اس کی اچھی تربیت کرنے پر جنت تک کی بشارت دے دی۔ اس سے بڑی آزاد خیالی کیا ہو سکتی ہے؟ تمام عوامل کو سامنے رکھ کر دیکھیے تو معلوم ہو جائے گا کہ زمانۂِ حال کے کسی بھی آزاد خیال شخص کی جرات نہیں کہ آں حضرتﷺ کا سا انقلابی خیال پیش کر دکھائے۔
اور آج کا قہر آپ جانتے ہیں کیا ہے؟
آج کا قہر یہ ہے کہ انسان کے جذبات کو طعنہ سمجھا جا رہا ہے۔ فطری جذبات کو۔ اتنے ہی فطری جتنی فطری بیٹی کا وجود ہوتا ہے۔ آج کے جہلا چاہتے ہیں کہ انھیں بھی قتل کر کے کسی گڑھے میں دفن کر دیا جائے۔ دلائل کا کیا کہیے؟ عرب کے بدوؤں کے پاس بھی تھے اور ان کے پاس بھی ہیں۔ بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ
دنیا کو ہے اس مہدئِ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلۂِ عالمِ افکار ---- !​
سبحان اللہ
واہ میرے محترم بھائی
آپ کی علمیت کو سلام
کہاں " بہن بیٹیوں " کا مجبوری کے عالم میں کانٹوں بھری راہ پر چلنا ۔ مرد کا اس کا فائدہ اٹھانا ۔
اور مصنفہ کی جانب سے اس فسانے کی صورت معاشرے کو دکھا معاشرے کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کرنا ۔
اور کہاں آپ جیسی ہستی کی جانب سے شریک کردہ " رقص "
یہ فسانہ بہن بیٹیوں کی عظمت و قربانی کا عکاس
اور آپ کی شریک کردہ " ویڈیو " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
خود ہی فیصلہ کر لیں ۔ ہم کہیں گے تو شکایت ہو گی ۔
بہت دعائیں
 
سبحان اللہ
واہ میرے محترم بھائی
آپ کی علمیت کو سلام
کہاں " بہن بیٹیوں " کا مجبوری کے عالم میں کانٹوں بھری راہ پر چلنا ۔ مرد کا اس کا فائدہ اٹھانا ۔
اور مصنفہ کی جانب سے اس فسانے کی صورت معاشرے کو دکھا معاشرے کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کرنا ۔
اور کہاں آپ جیسی ہستی کی جانب سے شریک کردہ " رقص "
یہ فسانہ بہن بیٹیوں کی عظمت و قربانی کا عکاس
اور آپ کی شریک کردہ " ویڈیو " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
خود ہی فیصلہ کر لیں ۔ ہم کہیں گے تو شکایت ہو گی ۔
بہت دعائیں
نایاب صاحب آپ لائبریرین ہیں یا اردو محفل پر حولدار کے فرائض انجام دے رہے ہیں ؟
پتا نہیں آپ کے دماغ میں کیا باتیں گھومتی رہتی ہیں ، اس پوسٹ میں بھی آپ نے میرے دو مراسلوں کو مضحکہ خیز قرار دے دیا ہے ۔ آپ اچھے آدمی ہیں اس لئے میں آپ سے پوچھنا چاہتاہوں کہ میری غلطی کیا ہے، اگر آپ کے علاوہ کوئی ہوتا تو میں کبھی نہیں پوچھتا کہ بات کیا ہے بلکہ ترکی بہ ترکی جواب دیا جاتا۔ بہرحال آپ فرمائیں کے میرے مراسلے میں آپ کو کیا بات مضحکہ خیز لگی؟
 

اکمل زیدی

محفلین
بھلے وقتوں میں صدر کے علاقے میں کھڑے کتابوں کے ٹھیلے والے نے اس قسم کے ناول ٹھیلے کے نیچے خفیہ بورے میں رکھے ہوتے تھے جن کے عنوان عموماً ایسے ہوتے تھے
چوکیدار کا کمرہ..
میں مجبور تھی وہ بےغیرت تھا...
چار دوست ایک سہیلی...
کبھی ٹیوشن نہ پڑھنا ...
اعتبار کسی کا نہیں ...
نیا محلہ نیا پڑوس ..
وغیرہ وغیرہ .... بہت ہی پُر درد کہانیاں ہوتی تھیں .... معاشرے کے ایسے ایسے مسائل زیرِغور آتے تھے کے نہ پوچھیں .....

آپ تو بڑے چھپے رستم نکلے ....:LOL::LOL:
 

فاخر رضا

محفلین
بھلے وقتوں میں صدر کے علاقے میں کھڑے کتابوں کے ٹھیلے والے نے اس قسم کے ناول ٹھیلے کے نیچے خفیہ بورے میں رکھے ہوتے تھے جن کے عنوان عموماً ایسے ہوتے تھے
چوکیدار کا کمرہ..
میں مجبور تھی وہ بےغیرت تھا...
چار دوست ایک سہیلی...
کبھی ٹیوشن نہ پڑھنا ...
اعتبار کسی کا نہیں ...
نیا محلہ نیا پڑوس ..
وغیرہ وغیرہ .... بہت ہی پُر درد کہانیاں ہوتی تھیں .... معاشرے کے ایسے ایسے مسائل زیرِغور آتے تھے کے نہ پوچھیں .....
آپ نے جن کتابوں کا ذکر کیا وہ بلا شبہ مسائل کی نشاندہی کرتی تھیں مگر اس افسانے کا طرح ان تمام لکھنے والوں کا کام، منٹو کی طرح، کالی سلیٹ پر سفید چاک سے لکھنا ہی رہا ہے. کوئی بھی مسائل کے حل کی بات نہیں کرتا.
دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ اسے پڑھتے تھے وہ کس طبقے سے تعلق رکھتے تھے، یہ بھی دیکھیں.
تیسری بات یہ ہے جو طبقہ مسائل حل کرسکتا ہے وہ تو خود ہی مجرم ہے. وہ کیا منصفی کریں گے.
چوتھی اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس طرح کی تحاریر سے انسان میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور یہ بعض اوقات گناہ کی طرف بھی لے جاتی ہے
پانچویں اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اگر کسی تحریر سے ایک آدمی بھی بھٹک گیا تو اس کا حساب قیامت میں اسی کو دینا ہوگا.
معاشرہ سازی بہت مشکل اور نازک کام ہے. اس کی ذمے داری ہم سب پر ہے اور اس راہ میں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑے گا.
مجھے کسی کے بھی مضحکہ خیز والی بٹن سے کوئی مسئلہ نہیں ہے. یہ میرے اعمال کا حساب نہیں ہے حسن محمود جماعتی اور دیگر
 

الف عین

لائبریرین
آج ہی یہ کہانی دلیل ویب سائٹ پر پڑھی، اور پسند کی۔ سوچا تھا کہ ’سمت‘ کے لیے لے لوں، لیکن پہلے ہی کئی افسانے ہو گئے ہیں۔ اس لیے چھوڑ دی۔ لیکن وقار علی ذگر کو دلیل کا حوالہ ضرور دینا چاہیے تھا۔
 
آج ہی یہ کہانی دلیل ویب سائٹ پر پڑھی، اور پسند کی۔ سوچا تھا کہ ’سمت‘ کے لیے لے لوں، لیکن پہلے ہی کئی افسانے ہو گئے ہیں۔ اس لیے چھوڑ دی۔ لیکن وقار علی ذگر کو دلیل کا حوالہ ضرور دینا چاہیے تھا۔

السلام علیکم
محترم الف عین صاحب

یہ کہانی میں نے پہلی بار لگ بھگ سال پہلے پڑھی تھی فیس بک جسے " سیاست " صفحہ پر شیئر کیا گیا تھا جہاں سے نقل کرکے میں نے اپنی فیس بک پروفائل پر شیئر کیا، کل ویسے ہی پرانے شیئرنگ دیکھ رہا تھا جس میں یہ کہانی بھی نظر سے گزری سوچا یہاں بھی شیئر کردوں۔
مصنف کا حوالہ میں دے چکا تھا اسی لئے مزید کچھ نہیں لکھا ۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مکافاتِ عمل کے حوالے سے اچھی روایتی تحریر ہے۔

یقیناً ہر اچھے اور برے فعل کے ثمرات ہم سب کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ یہ البتہ ضرور ہے کہ ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ جو ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے۔

عنوان کے حوالے سے ادب دوست بھائی (میری دانست میں) صرف یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آج کل اس طرح کے چونکا دینے والے عنوان بہت کثرت سے استعمال کئے جا رہے ہیں جو قاری کو کھینچ کر لے آتے ہیں۔ اور جن کی وجہ سے اکثر مصنف یا ویب سائٹ کے لئے منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ عموماً اصل تحریروں کا ایسے چونکا دینے والے عنوانات سے کوئی خاص واسطہ بھی نہیں ہوتا تاہم مذکورہ افسانہ اپنے عنوان سے غیر متعلق ہرگز نہیں معلوم ہوتا۔
 

نایاب

لائبریرین
نایاب صاحب آپ لائبریرین ہیں یا اردو محفل پر حولدار کے فرائض انجام دے رہے ہیں ؟
پتا نہیں آپ کے دماغ میں کیا باتیں گھومتی رہتی ہیں ، اس پوسٹ میں بھی آپ نے میرے دو مراسلوں کو مضحکہ خیز قرار دے دیا ہے ۔ آپ اچھے آدمی ہیں اس لئے میں آپ سے پوچھنا چاہتاہوں کہ میری غلطی کیا ہے، اگر آپ کے علاوہ کوئی ہوتا تو میں کبھی نہیں پوچھتا کہ بات کیا ہے بلکہ ترکی بہ ترکی جواب دیا جاتا۔ بہرحال آپ فرمائیں کے میرے مراسلے میں آپ کو کیا بات مضحکہ خیز لگی؟
میرے محترم ادب دوست بھائی
میں اک عام سا رکن ہوں ۔میرے ہی نہیں بلکہ ہر زندہ انسان کے دماغ میں جانے کیا کیا باتیں گھومتی رہتی ہیں ۔
میں بھی بے وقوف سا ایسا ہی انسان ہوں ۔
آپ کے مراسلے مضحکہ خیز اس لیئے ٹھہرے کہ وہ " عنوان سے لیکر تحریر " کے اختتام سے بالکل غیر متعلق اور مضحکہ اڑانے والے محسوس ہوئے ۔
ترکی بہ ترکی جواب دینے سے کسی کو روکنا مشکل امر ہوتا ہے ۔ اس کے لیئے صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے ۔
ڈھیروں دعائیں
 
ادب دوست بھائی (میری دانست میں) صرف یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ
کہ تحریر کی ابتدا جس بھونڈے انداز سے کی گئی ہے اس پر مجھے تنقید کرنا مقصود تھا جو میرا بحثیت قاری حق ہے ، اس طرح کی تحاریر کسی زمانے میں "معاشرتی مسائل" کی طرف کم اور قارئین کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے ۔ جنہیں "اردو ادب میں تخریبی حربے" کا عنوان دیا جاسکتاہے۔ اثرات سے قطع نظر نہایت بے باک بات اس لئے کی جاتی ہے کہ قارئین کو متوجہ کیا جاسکے۔ یہ وہی ذہنیت ہے جو صحافت میں در آئے تو اپنی خبر ہر صورت پڑھوا دینے یا سنوا دینے کیلئے گھٹیا اور بازاری انداز اختیار کر لیتی ہے ۔ ( جس کی مثال میرے مراسلوں میں موجود ہے) ۔کچھ ادیب (کالم نگار) "ادب کے قندیل بلوچ" بننے کی پوری کوشش میں ہیں ۔ مجھے اس روش سے اختلاف ہے اس لئے اس تحریر پر ایک تنقیدی جملہ کہا تھا۔ بجلی آنے کے بعد کچھ مزید کہنے کی کوشش کروں گا
 

نوشاب

محفلین
بھلے وقتوں میں صدر کے علاقے میں کھڑے کتابوں کے ٹھیلے والے نے اس قسم کے ناول ٹھیلے کے نیچے خفیہ بورے میں رکھے ہوتے تھے جن کے عنوان عموماً ایسے ہوتے تھے
چوکیدار کا کمرہ..
میں مجبور تھی وہ بےغیرت تھا...
چار دوست ایک سہیلی...
کبھی ٹیوشن نہ پڑھنا ...
اعتبار کسی کا نہیں ...
نیا محلہ نیا پڑوس ..
وغیرہ وغیرہ .... بہت ہی پُر درد کہانیاں ہوتی تھیں .... معاشرے کے ایسے ایسے مسائل زیرِغور آتے تھے کے نہ پوچھیں .....
کیا ان کا شمار ادب میں کرنا بے ادبی نہیں ہے؟؟؟؟
 
Top