فرخ منظور
لائبریرین
غزل
اُمّیدِ دیدِ دوست کی دنیا بسا کے ہم
بیٹھے ہیں مہر و ماہ کی شمعیں جلا کے ہم
وہ راستے خبر نہیں کس سمت کھو گئے
نکلے تھے جن پہ رختِ غمِ دل اُٹھا کے ہم
پلکوں سے جن کو جلتے زمانوں نے چُن لیا
وہ پھول، اس روش پہ، ترے نقشِ پا کے ہم
آئے کبھی تو پھر وہی صبحِ طرب کہ جب
روٹھے ہوئے غموں سے ملیں مسکرا کے ہم
کس کو خبر کہ ڈوبتے لمحوں سے کس طرح
اُبھرے ہیں یادِ یار، تری چوٹ کھا کے ہم
(مجید امجد)
اُمّیدِ دیدِ دوست کی دنیا بسا کے ہم
بیٹھے ہیں مہر و ماہ کی شمعیں جلا کے ہم
وہ راستے خبر نہیں کس سمت کھو گئے
نکلے تھے جن پہ رختِ غمِ دل اُٹھا کے ہم
پلکوں سے جن کو جلتے زمانوں نے چُن لیا
وہ پھول، اس روش پہ، ترے نقشِ پا کے ہم
آئے کبھی تو پھر وہی صبحِ طرب کہ جب
روٹھے ہوئے غموں سے ملیں مسکرا کے ہم
کس کو خبر کہ ڈوبتے لمحوں سے کس طرح
اُبھرے ہیں یادِ یار، تری چوٹ کھا کے ہم
(مجید امجد)