اُمید فاضلی ::::: اے دلِ خوُد ناشناس ایسا بھی کیا ::::: Umeed Fazli

طارق شاہ

محفلین
غزل
اُمید فاضلی

اے دلِ خوُد ناشناس ایسا بھی کیا
آئینہ اور اِس قدر تنہا بھی کیا

اُس کو دیکھا بھی، مگر دیکھا بھی کیا
عرصۂ خواہش میں اِک لمحہ بھی کیا

درد کا رشتہ بھی ہے تجھ سے بہت
اور پھر یہ درد کا رشتہ بھی کیا

کھینچتی ہے عقل جب کوئی حصار
دُھوپ کہتی ہے کہ یہ سایہ بھی کیا

پُوچھتا ہے راہرو سے یہ سراب
تشنگی کا نام ہے دریا بھی کیا

اُف یہ لو دیتی ہوئی تنہاہیاں
شہر میں آباد ہے صحرا بھی کیا

گاہے گاہے پیار کی بھی اِک نظر
ہم سے رُوٹھے ہی رہو، ایسا بھی کیا

رقص فرما ہر نئے جھونکے کے ساتھ
برگِ آوارہ ہے یہ دُنیا بھی کیا

بے تب و تابِ شُعاعِ آگاہی !
عِشق کہئے جس کو وہ شُعلہ بھی کیا

خود اُسے درکار تھی میری نظر
خود نُما جلوہ مجھے دیتا بھی کیا

اے مِری تخلیقِ فن ! تیرے بغیر
میں کہ سب کچھ تھا، مگر میں تھا بھی کیا

خندہ زن غم پر، خوشی پر اشک بار !
اِن دنوں یارو، ہے رنگ اپنا بھی کیا

زندگی خود لاکھ زہروں کا تھی زہر
زہرِ غم تجھ سے میرا ہوتا بھی کیا

نغمۂ جاں کو گراں گوشوں کے پاس
نارسائی کے سِوا مِلتا بھی کیا

اُمید فاضلی
 
Top