کاشفی
محفلین
اُمید کی کرن
(مولوی سید وحید الدین سلیم پانی پتی)
خاتمہ تیرا اب اے ظلمتِ ہجراں ہوگا
صُبح اُمید کا پھر جلوہ نمایا ں ہوگا
منتظر شاہدِ مقصود کی رہتی ہے نگاہ
شعلہء برق اسی تار پہ رقصاں ہوگا
طیش میں اشک کا جو قطرہ گرا دامن پر
اسی قطرہ سے بپا عیش کا طوفاں ہوگا
خاک میں تخمِ تمنّا جو دبایا تھا کبھی
اب وہی تخم نمو پا کے گلستاں ہوگا
زیرِ خاکستر پروانہ جو پنہاں تھا شرر
پھر بھڑک کر وہی اب شمع شبستاں ہوگا
جس سے اُٹھتا نظر آتا تھا شب غم کا دُھواں
مطلعِ صبح وہی چاک گریباں ہوگا
پارہء سنگ نے جھیلی ہے شعاع خورشید
اب بدل کر وہی اک لعل بدخشاں ہوگا
خون جس پنجہء مژگاں سے ٹپکتا تھا کبھی
خوشنمائی سے وہ اب پنجہء مرجاں ہوگا
پہلے جس دشت پہ پھیرا تھا اداسی نے قلم
اب وہی تختہء مشق گل و ریحاں ہوگا
سیل جس دامنِ کُہسار پہ رویا برسوں
اب وہی جوش گل و لالہ سے خنداں ہوگا
رہ چُکا زرد جمالِ رُخِ کنعاں جس میں
گلشن مصر وہی گوشہء زنداں ہوگا
قطرہ نیساں کا تھا گرداب میں گرنے والا
سیپ میں جاکے وہ اب گوہر غلطاں ہوگا
آگ جلتی کبھی دیکھی نہیں جس قُلے پر
اب وہی برقِ تجلّی سے درخشاں ہوگا
جس میں پالے نے نہ چھوڑا اثر نشوونما
اب وہی نخلِ ثمر ریزو گل افشاں ہوگا
جس میں تھا اُمت موسیٰ کو ٹھہرنا مشکل
من و سلویٰ کا اُسی دشت میں ساماں ہوگا
کل سکندر تھا اندھیرے میں جہاں سرگرداں
موجِ زن آج وہیں چشمہء حیواں ہوگا
خاک اُڑاتا تھا جہاں غول بیاباں کا گروہ
گرم پرواز وہیں تختِ سُلیماں ہوگا
جس شبستاں پہ نشہ جہل کا چھایا تھا کبھی
اب وُہی خمکدہ ءحکمت ِیوناں ہوگا
پہلے اُٹھتے تھے جہنم کے شرارے جس جا
اب وہیں جلوہ نما گلشنِ رضواں ہوگا
ظلمتِ فصلِ خزاں چھائی تھی جس مسکن پر
اب وہ پھولوں کی تجلی سے چراغاں ہوگا
جلوہء شاہدِ مقصود جو تھا زیرِ نقاب
روبرو چشمِ تماشا کے وہ عُریاں ہوگا
یاس کی نیند سے اُٹھے گا جو آنکھیں مَلتا
صُبحِ اُمید کے جلوہ سے وہ حیراں ہوگا
پرسماں دیکھ کے ہر غمزدہ مانندِ سلیم
وجد میں آکے مسرت سے غزلخواں ہوگا
3 اکتوبر 1926ء
(مولوی سید وحید الدین سلیم پانی پتی)
خاتمہ تیرا اب اے ظلمتِ ہجراں ہوگا
صُبح اُمید کا پھر جلوہ نمایا ں ہوگا
منتظر شاہدِ مقصود کی رہتی ہے نگاہ
شعلہء برق اسی تار پہ رقصاں ہوگا
طیش میں اشک کا جو قطرہ گرا دامن پر
اسی قطرہ سے بپا عیش کا طوفاں ہوگا
خاک میں تخمِ تمنّا جو دبایا تھا کبھی
اب وہی تخم نمو پا کے گلستاں ہوگا
زیرِ خاکستر پروانہ جو پنہاں تھا شرر
پھر بھڑک کر وہی اب شمع شبستاں ہوگا
جس سے اُٹھتا نظر آتا تھا شب غم کا دُھواں
مطلعِ صبح وہی چاک گریباں ہوگا
پارہء سنگ نے جھیلی ہے شعاع خورشید
اب بدل کر وہی اک لعل بدخشاں ہوگا
خون جس پنجہء مژگاں سے ٹپکتا تھا کبھی
خوشنمائی سے وہ اب پنجہء مرجاں ہوگا
پہلے جس دشت پہ پھیرا تھا اداسی نے قلم
اب وہی تختہء مشق گل و ریحاں ہوگا
سیل جس دامنِ کُہسار پہ رویا برسوں
اب وہی جوش گل و لالہ سے خنداں ہوگا
رہ چُکا زرد جمالِ رُخِ کنعاں جس میں
گلشن مصر وہی گوشہء زنداں ہوگا
قطرہ نیساں کا تھا گرداب میں گرنے والا
سیپ میں جاکے وہ اب گوہر غلطاں ہوگا
آگ جلتی کبھی دیکھی نہیں جس قُلے پر
اب وہی برقِ تجلّی سے درخشاں ہوگا
جس میں پالے نے نہ چھوڑا اثر نشوونما
اب وہی نخلِ ثمر ریزو گل افشاں ہوگا
جس میں تھا اُمت موسیٰ کو ٹھہرنا مشکل
من و سلویٰ کا اُسی دشت میں ساماں ہوگا
کل سکندر تھا اندھیرے میں جہاں سرگرداں
موجِ زن آج وہیں چشمہء حیواں ہوگا
خاک اُڑاتا تھا جہاں غول بیاباں کا گروہ
گرم پرواز وہیں تختِ سُلیماں ہوگا
جس شبستاں پہ نشہ جہل کا چھایا تھا کبھی
اب وُہی خمکدہ ءحکمت ِیوناں ہوگا
پہلے اُٹھتے تھے جہنم کے شرارے جس جا
اب وہیں جلوہ نما گلشنِ رضواں ہوگا
ظلمتِ فصلِ خزاں چھائی تھی جس مسکن پر
اب وہ پھولوں کی تجلی سے چراغاں ہوگا
جلوہء شاہدِ مقصود جو تھا زیرِ نقاب
روبرو چشمِ تماشا کے وہ عُریاں ہوگا
یاس کی نیند سے اُٹھے گا جو آنکھیں مَلتا
صُبحِ اُمید کے جلوہ سے وہ حیراں ہوگا
پرسماں دیکھ کے ہر غمزدہ مانندِ سلیم
وجد میں آکے مسرت سے غزلخواں ہوگا
3 اکتوبر 1926ء