کاشفی
محفلین
غزل
(میر مہدی مجروح)
اُن آنکھوں نے ایسا جھکایا مجھے
کہ کچھ ہوش اپنا نہ آیا مجھے
ہزار آفتوں میں پھنسایا مجھے
بھلا آدمی کیوں بنایا مجھے
نمود صور ہے بھی اور پھر نہیں
یہ کیا خواب ہے جو دکھایا مجھے
کوئی مجھ سی بھی جنسِ کاسد نہ ہو
کہ جس نے لیا پھیر لایا مجھے
نہیں بخل کچھ مبدع فیض میں
توجہ کے قابل نہ پایا مجھے
وہ اور مجھ سے اعدا کا شکوہ سُنیں
خیال اس کا پہلے نہ آیا مجھے
نہ آنے کو شب محفلِ عیش میں
کہا اور سے، پر، سُنایا مجھے
کیا رشکِ اعدا نے یہ بدمزہ
کہ آنا بھی اُن کا نہ بھایا مجھے
میں ہوں ہیزم خشک نخلِ اُمید
جلاتا ہے اپنا پرایا مجھے
نہ تھا دانہء آرزو وائے فلک
عبث خاک میں کیوں ملایا مجھے
دبی آگ کو شعلہ ور کر دیا
فسانہ ترا کیوں سنایا مجھے
وہ گو جان کنی ہے مگر چرخ نے
بھلا کام میں تو لگایا مجھے
کسی نے کہا تیرا مفتوں ہے کون
اشارہ سے اُس نے بتایا مجھے
مرے بال و پر نے نکلتے ہی بس
اسیری کا مژدہ سنایا مجھے
وہ اس حالتِ بد میں تھا مبتلا
کہ مجروح پر رحم آیا مجھے