درد اُن نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں ۔ میر درد

فرخ منظور

لائبریرین
اُن نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں
پاتا نہیں ہوں تب سے میں اپنی خبر کہیں

آجائے ایسے جینے سے اپنا تو جی بتنگ
جیتا رہے گا کب تئیں اے خضر مر کہیں

پھرتی رہی تڑپتی ہے عالم میں جا بجا
دیکھا نہ میری آہ نے روئے اثر کہیں

مدت تلک جہان میں ہنستے پھرا کیے
جی میں ہے خوب روئیے اب بیٹھ کر کہیں

یوں تو نظر پڑے ہیں تن افگار سینکڑوں
دل ریش کوئی آپ سا دیکھا نہ پر کہیں

ظالم جفا جو چاہے سو کر مجھ پر تو ولے
پچھتاوے پھر تو آپ ہی، ایسا نہ کر کہیں

پھرتے ہو سج بنائے تو اپنی جدھر تدھر
لگ جاوے دیکھیو نہ کسو کی نظر کہیں

(ق)
پوچھا میں درد سے کہ بتا تو سہی مجھے
اے خانماں خراب ہے تیرا بھی گھر کہیں

کہنے لگا مکانِ معین فقیر کو
لازم ہے کیا کہ ایک ہی جاگہ ہو ہر کہیں

"درویش ہر کجا کہ شب آمد سراے اوست"
تُو نے سنا نہیں ہے یہ مصرع مگر کہیں

(خواجہ میر دردؔ)
 
Top