اُن کی صورت گُلاب جیسی ہے غزل نمبر 107 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
اُن کی صورت گُلاب جیسی ہے
یا رُخِ ماہتاب جیسی ہے

آنکھ کیسے ملے ان آنکھوں سے؟
وہ نظر آفتاب جیسی ہے

اتنی مخمور ہے نگاہِ صنم
کہ نشے میں شراب جیسی ہے

ایسی عزت ہے ان کی دل میں مرے
جو بلندی حباب جیسی ہے

کب ڈرے اہلِ عشق مشکل سے؟
ان کو آتش بھی آب جیسی ہے

حالتِ عِشق آج بھی ہمدم
کِسی خانہ خراب جیسی ہے

تیرے بن کب سکوں ہے جینے میں؟
زندگی اب عذاب جیسی ہے

یوں فدا شمع پر ہیں پروانے
موت ان کو ثواب جیسی ہے

مثلِ پروانہ ہے بے چین بہت
وضعِ دل اضطراب جیسی ہے

حُسنِ دنیا ہے اِک حسیں دھوکا
دلکشی سب سراب جیسی ہے

سب کو ملتی کہاں محبت ہے؟
ہے مجھے دستیاب، جیسی ہے

عُمرِ آخر میں زندگی سب کو
ایسا لگتا ہے خُواب جیسی ہے

شاعری کیا ہے کبھی ہے سوچا؟
یہ سوال و جواب جیسی ہے

جو بھی چاہے وہ کھول کر پڑھ لے
زیست میری کتاب جیسی ہے

غزل اچھی ہے آپ کی شارؔق
میر کے انتخاب جیسی ہے
 

الف عین

لائبریرین
اُن کی صورت گُلاب جیسی ہے
یا رُخِ ماہتاب جیسی ہے
.. ٹھیک

آنکھ کیسے ملے ان آنکھوں سے؟
وہ نظر آفتاب جیسی ہے
.. درست

اتنی مخمور ہے نگاہِ صنم
کہ نشے میں شراب جیسی ہے
... کہ بھی محض ک تقطیع ہونا چاہیے، جب کہ نشّہ درست تلفظ ہے یعنی فعلن کے وزن پر
اس کی مستی شراب...
ہو سکتا ہے

ایسی عزت ہے ان کی دل میں مرے
جو بلندی حباب جیسی ہے
... حباب بلند ہوتا ہے؟ بے معنی شعر ہے

کب ڈرے اہلِ عشق مشکل سے؟
ان کو آتش بھی آب جیسی ہے
... آگ بھی ان کو آب...
بہتر ہو گا

حالتِ عِشق آج بھی ہمدم
کِسی خانہ خراب جیسی ہے
... یہ بے معنی ہے

تیرے بن کب سکوں ہے جینے میں؟
زندگی اب عذاب جیسی ہے
.. درست

یوں فدا شمع پر ہیں پروانے
موت ان کو ثواب جیسی ہے
.. یہ تک بندی لگتی ہے

مثلِ پروانہ ہے بے چین بہت
وضعِ دل اضطراب جیسی ہے
... بحر بدل گئی ہے، پروانہ بیچین ہوتا ہے؟

حُسنِ دنیا ہے اِک حسیں دھوکا
دلکشی سب سراب جیسی ہے
... ٹھیک اگرچہ قافیہ بندی ہی لگتی ہے

سب کو ملتی کہاں محبت ہے؟
ہے مجھے دستیاب، جیسی ہے
... درست

عُمرِ آخر میں زندگی سب کو
ایسا لگتا ہے خُواب جیسی ہے
... درست

شاعری کیا ہے کبھی ہے سوچا؟
یہ سوال و جواب جیسی ہے
... پہلا مصرع دوسری بحر میں ہے، مفہوم بھی عجیب ہے

جو بھی چاہے وہ کھول کر پڑھ لے
زیست میری کتاب جیسی ہے
... درست

غزل اچھی ہے آپ کی شارؔق
میر کے انتخاب جیسی ہے
... ایک غزل کو انتخاب کہہ دینا بھی عجیب ہے، شاید چل سکتا ہے
 

امین شارق

محفلین
سر ان اشعار میں تبدیلی کی ہے رہنمائی کے لئے شکریہ۔۔

اتنی مخمور ہے نگاہِ صنم
اس کی مستی شراب جیسی ہے

کب ڈرے اہلِ عشق مشکل سے؟
آگ بھی ان کو آب جیسی ہے

ایک پل کے لئے سکون نہیں
وضعِ دل اضطراب جیسی ہے
 
Top