امین شارق
محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
اُن کی صورت گُلاب جیسی ہے
یا رُخِ ماہتاب جیسی ہے
آنکھ کیسے ملے ان آنکھوں سے؟
وہ نظر آفتاب جیسی ہے
اتنی مخمور ہے نگاہِ صنم
کہ نشے میں شراب جیسی ہے
ایسی عزت ہے ان کی دل میں مرے
جو بلندی حباب جیسی ہے
کب ڈرے اہلِ عشق مشکل سے؟
ان کو آتش بھی آب جیسی ہے
حالتِ عِشق آج بھی ہمدم
کِسی خانہ خراب جیسی ہے
تیرے بن کب سکوں ہے جینے میں؟
زندگی اب عذاب جیسی ہے
یوں فدا شمع پر ہیں پروانے
موت ان کو ثواب جیسی ہے
مثلِ پروانہ ہے بے چین بہت
وضعِ دل اضطراب جیسی ہے
حُسنِ دنیا ہے اِک حسیں دھوکا
دلکشی سب سراب جیسی ہے
سب کو ملتی کہاں محبت ہے؟
ہے مجھے دستیاب، جیسی ہے
عُمرِ آخر میں زندگی سب کو
ایسا لگتا ہے خُواب جیسی ہے
شاعری کیا ہے کبھی ہے سوچا؟
یہ سوال و جواب جیسی ہے
جو بھی چاہے وہ کھول کر پڑھ لے
زیست میری کتاب جیسی ہے
غزل اچھی ہے آپ کی شارؔق
میر کے انتخاب جیسی ہے
یا رُخِ ماہتاب جیسی ہے
آنکھ کیسے ملے ان آنکھوں سے؟
وہ نظر آفتاب جیسی ہے
اتنی مخمور ہے نگاہِ صنم
کہ نشے میں شراب جیسی ہے
ایسی عزت ہے ان کی دل میں مرے
جو بلندی حباب جیسی ہے
کب ڈرے اہلِ عشق مشکل سے؟
ان کو آتش بھی آب جیسی ہے
حالتِ عِشق آج بھی ہمدم
کِسی خانہ خراب جیسی ہے
تیرے بن کب سکوں ہے جینے میں؟
زندگی اب عذاب جیسی ہے
یوں فدا شمع پر ہیں پروانے
موت ان کو ثواب جیسی ہے
مثلِ پروانہ ہے بے چین بہت
وضعِ دل اضطراب جیسی ہے
حُسنِ دنیا ہے اِک حسیں دھوکا
دلکشی سب سراب جیسی ہے
سب کو ملتی کہاں محبت ہے؟
ہے مجھے دستیاب، جیسی ہے
عُمرِ آخر میں زندگی سب کو
ایسا لگتا ہے خُواب جیسی ہے
شاعری کیا ہے کبھی ہے سوچا؟
یہ سوال و جواب جیسی ہے
جو بھی چاہے وہ کھول کر پڑھ لے
زیست میری کتاب جیسی ہے
غزل اچھی ہے آپ کی شارؔق
میر کے انتخاب جیسی ہے