کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
اُٹھ رہا ہوں میں تیری محفل سے
ہو کے مجبور جذبہء دل سے

گمرہی سے ہوں کس قدر مانوس
بھاگتا ہوں میں دُور منزل سے

کوئی مجھ تک نہ ناخدا پہنچے
کر رہا ہوں خطاب ساحل سے

واقعی آج ہم تو بھر پائے
ان کی محفل سے رنگِ محفل سے

رعبِ جلوہ ہے دابِ جلوہ ہے
گفتگو کررہا ہوں مشکل سے

لذتیں کس قدر ہوئیں حاصل
درد سے، درد و غم کے حاصل سے

آرزو سے ہی عشق ہے بہزاد
کاش نکلے نہ آرزو دل سے
 
Top