محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
غزل
محمد حفیظ الرحمٰن
کیا تُم کو نظر آئے گا اِس شہر کا منظر
ہے دھند میں لِپٹا ہوا یہ قہر کا منظر
ہے پیرِ فلک آپ ہی انگشت بدنداں
دیکھا ہے جو اِس قریہٗ بے مہر کا منظر
اِک سمت ہیں سوکھے ہوئے لب، خشک زبانیں
اور دوسری جانب ہے رواں نہر کا منظر
جو ڈوب رہا ہو وہ بیاں کیسے کرے گا
ساحِل کی طرف جاتی ہوئی لہر کا منظر
تا عمر تری یاد سے وابستہ رہے گا
اِس شہر کی اِس رات کے اِس پہر کا منظر
محمد حفیظ الرحمٰن
کیا تُم کو نظر آئے گا اِس شہر کا منظر
ہے دھند میں لِپٹا ہوا یہ قہر کا منظر
ہے پیرِ فلک آپ ہی انگشت بدنداں
دیکھا ہے جو اِس قریہٗ بے مہر کا منظر
اِک سمت ہیں سوکھے ہوئے لب، خشک زبانیں
اور دوسری جانب ہے رواں نہر کا منظر
جو ڈوب رہا ہو وہ بیاں کیسے کرے گا
ساحِل کی طرف جاتی ہوئی لہر کا منظر
تا عمر تری یاد سے وابستہ رہے گا
اِس شہر کی اِس رات کے اِس پہر کا منظر