اِمتِحان محبت ۔۔۔۔۔۔۔۔ از مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالٰی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وعظ
امتحان محبت

( 19 ذِی الحجہ 1415 ھجری )

یہ وعظ حضرت اقدس رحمہ اللہ تعالٰی کی نظر اصلاح سے نہیں گزارا جاسکا اس لیے اس میں کوئی نقص نظر آئے تو اسے مرتب کی طرف سے سمجھا جائے۔

الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونئومن بہ ونتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیات اعمالنا من یہدہ للہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی الہ و اصحبہ اجمعین ۔
اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ، بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
[arabic]وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِنْ جَاءَ نَصْرٌ مِنْ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ () وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ ( ) وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُمْ بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُمْ مِنْ شَيْءٍ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ( ) وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالا مَعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ [/arabic]( سورہ عنکبوت : 10 تا 13 )
" اور بعضے آدمی ایسے بھی ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے پھر جب ان کو راہ خدا میں کچھ تکلیف پہنچائی جاتی ہے تو لوگوں کی ایذا رسانی کو ایسا سمجھ جاتے ہیں جیسے اللہ کا عذاب اور اگر کوئی مدد آپ کے رب کی طرف سے آ پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمھارے ساتھ تھے کیا اللہ تعالٰی کی دنیا جہان والوں کے دلوں کی باتیں معلوم نہیں ہیں اور اللہ تعالٰی ایمان والوں کو معلوم کرکے رہے گا اور منافقوں کو بھی معلوم کرکے رہے گا اور کفار مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم ہماری راہ چلو اور تمھارے گناہ ہمارے ذمہ حالاں کہ یہ لوگ ان کے گناہوں میں ذرا بھی نہیں لے سکتے یہ بالکل جھوت بک رہے ہیں اور یہ لوگ اپنے گناہ اپنے اوپر لادے ہوں گے اور اپنے گناہوں کے ساتھ کچھ گناہ اور ، اور یہ لوگ جیسی جیسی جھوٹی باتیں بناتے تھے قیامت میں ان سے باز پرس ضرور ہو گی ۔ "
یہ آیات سورہ عنکبوت کی ہیں۔ بیسویں پارے کے آخر سے سورہ عنکبوت شروع ہوتی ہے اس کے پہلے رکوع کے آخر کی یہ آیات ہیں جو میں نے ابھی پڑھی ہیں ۔ حوالے کی تفصیل اس لیے بتا دی کہ شاید کسی کو اپنے طور پر ان آیات پر غور کرنے کی توفیق ہو جائے ۔ جو حضرات قرآن مجید کا ترجمہ جانتے ہیں وہ ان آیات پر خود بھی غور کریں اپنے طور پر اور تراجم و تفاسیر کو دیکھ کر ان پر غور کرکے دلوں میں اتارنے کی کوشش کریں اور جو حضرات قرآن مجید کا ترجمہ تفسیر نہیں جانتے وہ کسی ترجمے والے قرآن میں دیکھیں ،لمبی چوڑی تفسیر دیکھنے کی ضرورت نہیں صرف ترجمہ ہی اگر دیکھ لیں تو اس سے بھی مقصد پورا ہو جائے گا ۔
 
شریعت کا نچوڑ :
جو مضمون بتانا چاہتا ہوں وہ ایک جگہ نہیں کئی جگہ ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پورا قرآن اسی سے بھرا ہوا ہے اور پوری حدیثیں اسی سے بھری ہوئی ہیں، لب لباب مقصد اولین ، پورے دین کا پوری شریعت کا نچوڑ، پورے قرآن و حدیث کی روح یہی ہے تو حقیقت یہی ہے ۔ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کئی جگہوں پر بیان فرمایا ان میں سے ایک جگہ یہ آیات ہیں جو میں نے اس وقت پڑھی ہیں ۔ اس میں ایک اصول بتایا گیا ہے ، ایک قاعدہ بتایا گیا ہے ، ایک معیار بتایا گیا ہے ، ایک کسوٹی بتائی گئی ہے اور آج کل کی اصطلاح کے مطابق ایک تھرمامیٹر بتایا گیا ہے ۔ دل کی دھڑکنیں، دل کی حرکتیں معلوم کرنے کے لیے قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے جو اصول بیان فرمایا وہ اس آیت میں ہے ۔ عقلی لحاظ سے بھی شرعی لحاظ سے بھی، تجارب کے لحاظ سے بھی ، پوری دنیا میں مسلمات کے اعتبار سے بھی اور جیسے میں نے بتایا کہ قرآن و حدیث کے ذخائر کے اعتبار سے بھی قاعدہ یہ ہے کہ انسان کو جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے وہ اسے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتی ہے ۔
دنیا میں کئی چیزوں سے محبت ہو یا کئی لوگوں سے محبت ہو جب تک ان محبتوں میں تصادم نہ ہو اتفاق سے سب چلتی رہیں پھر تو ٹھیک ہے معاملہ چلتا رہتا ہے اس سے بھی محبت ، اس سے بھی محبت ، اس سے بھی محبت ، لیکن جہاں آپس میں تصادم ہو جائے ایک کی محبت کے حقوق ادا کرتا ہے تو دوسرا ناراض ہوتا ہے دوسرے کی محبت کے حقوق ادا کرتا ہے تو تیسرا ناراض ہوتا ہے غرض یہ کہ ایک وقت میں سارے راضی نہیں ہو پاتے تو وہاں سچی محبت اور جھوٹی محبت کے امتحان کا وقت ہوتا ہے ، اس وقت پتا چلتا ہے کہ اسے سچی محبت کس سے ہے اور جھوٹی محبت کس سے ہے ؟
اسی طرح سے معاملہ عظمت اور خوف کا ہے ، جب انسان کسی سے ڈرتاہے تو سوچتا ہے کہ اگر اس کے خلاف کروں گا تو یہ ناراض ہو جائےگا اور مجھے نقصان پہنچائے گا ، اس کا خوف اس کی عظمت اس کے دل میں کتنی ہے اس کا امتحان جب ہوتا ہے کہ جب کسی دوسرے سے بھی ڈر اور خوف ہو ، انسان کا دل پھر مقابلہ کرتا ہے ، سوچتا ہے ۔ خوف تو اللہ تعالٰی سے بھی ہے اگر اس کی مخالفت کی تو ناراض ہو جائے گا نقصان پہنچائے گا ، فلاں سے بھی خوف ہے اگر اس کی مخالفت کرے گا تو وہ ناراض ہوگا نقصان پہنچائے گا دونوں آپس میں توافق بھی نہیں رکھتے ، دونوں کے احکام آپس میں مخالف ہیں ایک کہتا ہے یوں کر و دوسرا اس کا الٹ حکم دیتا ہے تو ایسے موقع پر انسان یہ سوچتا ہے کہ جس کا ڈر دل میں کم ہو جس سے کم نقصان کا خطرہ ہو اس کی ناراضی کو برداشت کر لیا جائے جس کا خوف زیادہ ہوگا جس سے خطرات زیادہ ہوں گے اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے ، بڑی مصیبت سے بچو ، بڑی مصیبت سے بچنے کی خاطر چھوٹی مصیبت کا تحمل کر لو۔ اس معیار کو اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے ۔
 
امتحان محبت ہو گا :
اللہ تعالٰی نے انسان کو دنیا میں بھیجا تو ایسے مہمل نہیں چھوڑ دیا کہ بس جو بھی کہے گا کہ میں مسلمان ہوں تو اس کے اسلام کا دعویٰ قبول کرلیں ، جو بھی کلمہ پڑھ لے گا اس کا دعویٰ قبول کرلیں گے ، ایسے نہیں ہوگا ، ہم کچھ قوانین بتائیں گے ، ہماری حکومت کے قانون ہیں قانون ، ہم حاکم اعلٰی ہیں ، احکم الحاکمین ہیں ، ہماری حکومت کے قوانین ہیں ۔ ہم تو ٹھہرے ایک احکم الحاکمین اور ہمارا قانون ایک ہے جب کہ دنیا میں جتنے انسان بھی تمھیں نظر آئیں گے ہر انسان کے نفس کا ایک تقاضا ہوتا ہے ، انسان غیر متناہی ، غیر محدود ، گننے سے باہر ، بے شمار تو وہ سب آپس میں کچھ تقاضے رکھیں گے کہ یہ میری بات مانے ، میرا بندہ رہے ، مجھ سے محبت کرے ، میرے خلاف نہ کرے، ہر حال میں میری ہی بات مانے ، پکا مکمل طور پر میرا بن کر رہے ، ہر انسان یہ چاہتا ہے ۔ لوگوں کے سامنے اتنے خدا ہیں جتنے انسان ، ان انسانوں کے علاوہ خود اپنے نفس کے تقاضے، نفس میں طرح طرح کے تقاضے پیدا ہوتے ہیں ،شہوت کے تقاضے ، برائی کے تقاضے، حب جاہ کے تقاضے، حب مال کے تقاضے ، مال جمع کرنے کے لیے یہ تقاضا وہ تقاضا ، بے شمار خدا تو سامنے بنے ہوئے ہیں ، بڑا اقتدار بڑا منصب ، لوگوں پر اپنی بڑائی اور عظمت قائم کرنے کے تقاضے ، فلاں کے دل میں بڑا بن جاؤں ، فلاں کے دل میں بڑا بن جاؤں ، بے شمار تقاضے ہوتے ہیں فرمایا :
أَيَحْسَبُ الإنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى ( 75 ۔ 36 )
" کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا ۔ "
کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم نے دنیا میں اسے بھیجا تو ہے لیکن ہم اس کی محبت کا امتحان نہیں لیں گے ؟ کیا یہ سمجھا ہے ؟ بس ایسے پیدا کر دیا ہے جسے چا ہو بڑا بناتے رہو ، جسے چاہو خدا مانتے رہو ، جس کے چاہو تقاضے پورے کرو جس کے چاہو نہ کرو اور جدھر کو چاہو لوٹ جاؤ اور زمانہ سازی کرتے رہو ، اپنی مصلحتوں پر اللہ تعالٰی کے قوانین کو قربان کردو تو کیا انسان یہ سمجھتا ہے ؟ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے نہیں ہونے دیں گے ہم نے پیدا کیا ہے پھر ہمارے سامنے پیش ہونا ہے ، ہمارے بندے بن کر رہو اگر نہیں بنوگے تو دنیا میں بھی عذاب آخرت میں بھی عذاب ہم تمھیں پوری دنیا کے بندے نہیں بننے دیں گے صرف ہمارے بندے بن کر رہو ۔
 
انسان کو مشقت اٹھانا پڑے گی :
اسی طرح سے فرمایا :
لَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ فِي كَبَدٍ ( 90 ۔ 4 )
" کہ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے ۔ "
کبد میں تنوین تعظیم کے لیے ہے ، ہم نے انسان کو بہت بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے، بہت بڑی مشقت ۔ دنیا کمانے کی مشقتیں ، وہ تو سب کو معلوم ہی ہے کہ دنیا کمانے کے لیے کیسی کیسی مشقتیں اٹھانی پڑتی ہیں ۔ اپنی حاجات دنیویہ جن میں معاش کے علاوہ صحت، تندرستی ، مختلف پریشانیوں سے حفاظت جسے زندگی گزارنا کہتے ہیں اس کی مشقتیں سب کو معلوم ہی ہیں ، جیسے اللہ تعالٰی نے انسان پر دنیا کمانے کی مشقتیں رکھیں صحت کو برقرار رکھنے کی مشقتیں، بیماریوں سے بچنے کی مشقتیں ،رات دن مشقتیں ہی مشقتیں اسی طرح اللہ تعالٰی کی رضا حاصل کرنے کے لیے بھی مشقتیں اٹھانا پڑیں گی ، اللہ کی رضا مفت میں نہیں ملےگی ، اس کے لیے مشقت برداشت کرنا پڑے گی ، محنت کرنا پڑے گی تو اللہ کی رضا حاصل ہو گی پھر جنت ملے گی ۔ جب اللہ راضی ہوگا تو دنیا کی مشقتیں ختم ہو جائیں گے ۔ انسان کو دنیا کی مشقتیں برداشت کرنا آسان لگتا ہے ، کمانے کے لیے رات بھر جاگنا پڑے ، بیوی یا بچوں میں سے کوئی بیمار ہو جائے تو رات بھر جاگنا پڑے ، چند ٹکوں کے لیے طویل سفر کی مشقت اٹھانا پڑے ،، اسی عارضی زندگی کو بنانے کے لیے لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر دور دراز کے ملکوں میں کمانے جاتے ہیں ، کمانے میں ایسے لگے رہتے ہیں جیسے خرکار کا گدھا ، آج کے انسان پر اس سے زیادہ رحم آتا ہے ، دنیا کمانے کی اتنی مشقتیں برداشت کر رہے ہیں ، بیماری کی مشقتیں برداشت کر رہے ہیں طرح طرح کی پریشانیوں کی مشقتیں برداشت کر ہے ہیں ، دشمنوں کی مشقتیں برداشت کر رہے ہیں ، آپس میں لڑنے مرنے کی مشقتیں برداشت کر رہے ہیں ، زندگی میں سکون نہیں ، ہر وقت بے سکونی ہی بے سکونی ہے ۔
ایک مشقت کے ذریعہ تمام مشقتوں کا خاتمہ :
اللہ تعالٰی یہ قاعدہ سمجھاتے ہیں کہ اگر مجھے راضی کرنے کی مشقت برداشت کر لو تو دنیا کی ساری مشقتیں ختم ہو جائیں گی ، بس ایک مشقت برداشت کرلو مجھے راضی کر لو تو باقی ساری مشقتیں خود بخود ختم ہو جائیں گی ۔ جب انسان اللہ کو راضی کر لیتا ہے ، ہر قسم کے گناہوں سے توبہ کر لیتا ہے ، اللہ کی سب نافرمانیاں چھوڑ دیتا ہے ، صرف ایک اللہ پر اس کی نظر ہو جاتی ہے تو پھر اس کا ذہن کیا بن جاتا ہے ۔
کار ساز ما بساز کارما
فکرما درکار ما آزاد ما​
میرا کار ساز ہے میرا کار ساز ، وہ اللہ میرا کار ساز ہے ، میں نے اس سے محبت کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی ہے ، اس لیے مجھے اس سے جتنی محبت ہے اس سے کئی گنا زیادہ اسے مجھ سے محبت ہے ۔ اسے مجھ سے بہت محبت بہت محبت ہے اس لیے کہ میں نے اسے راضی کرنے کے لیے اپنے نفس کے تمام تقاضے قربان کر دیے ، دنیا بھر کی محبتیں قربان کر دیں ، دنیا بھر کا خوف ، دنیا بھر کی طمع، دنیا بھر کے تعلقات ایک محبوب حقیقی پر سب کچھ قربان کر دیا تو اسے مجھ سے محبت ہے ، وہ میرے حالات کو خوب جانتا ہے ، خوب جانتا ہے ، اس کا علم علمِ کامل ہے اسے مجھ سے محبت ہے اس کی محبت محبتِ کاملہ ہے ، اسے میرے حالات پر قدرت بھی ہے اس کی قدرت قدرتِ کاملہ ہے ۔ قدرت کیسی کہ ایک لمحے میں وہ جو چاہے کر دے اسے کچھ دیر نہیں لگتی ؎
تو شاہوں کو گدا کر دے گدا کو بادشاہ کردے
اشارہ تیرا کافی ہے گھٹانے اور بڑھانے میں​

ان ساری چیزوں پر جب ان کا ایمان ہوتا ہے ، یقین ہوتا ہے ، اللہ کے ساتھ خاص تعلق ہو جاتا ہے تو اس پر جو کچھ بھی گزرتی ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں تو اسے تکلیف محسوس کرتا ہوں مگر میرے مولٰی کی طرف سے یہ امتحانِ محبت ہے ، یہ محبت کی چٹکی ہے ، محبت کی چٹکی ، وہ چٹکیاں لیتا ہے ، محبت کی وجہ سے وہ انعامات سے نوازنا چاہتا ہے، اکرامات سے نوازنا چاہتا ہے ، میرے درجات بلند کرنا چاہتا ہے ، ذرا سی تکلیف پہنچا کر کتنے بڑے بڑے انعامات بڑے بڑے اکرامات دینا چاہتا ہے ۔ اس کا عقیدہ یہ ہوتا ہے اس لیے وہ پریشان نہیں ہوتا ۔
دنیا میں سب کے سامنے یہ حالات آتے ہیں ، دنیوی مقاصد کے حصول کے لیے لوگ مشکل سے مشکل امتحانات دینے کے لیے کیوں تیار ہو جاتے ہیں ؟ رات رات بھر محنتیں کیوں کرتے ہیں ؟ کیوں جاگتے ہیں ؟ اس لیے کہ امتحان میں کامیابی کے بعد پھر کوئی بڑا مرتبہ ملے گا ، منصب بھی ملے گا ، عزت بھی ملے گی ، مال بھی ملے گا ، یہ خیال تمام مشقتوں کو آسان کر دے گا حالاں کہ دنیوی امتحانات میں محنت کے بعد ثمرات ملنے کا یقین نہیں ، امتحان میں کامیاب ہوگا یا نہیں یہ بھی معلوم نہیں ، امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے رشوتیں دیتے ہیں ، طرح طرح کی خوشامدیں کرتے ہیں ، سفارشیں کرواتے ہیں اس کے باوجو کوئی امتحان میں کامیاب ہوتا کوئی نہیں ہوتا ، پھر جو کامیاب ہوگئے تو ضروری نہیں کہ سب کو ملازمتیں بھی مل جائے دھکے کھاتے پھرتے ہیں ، بڑی بڑی ڈگریاں لی ہوئی ہیں ، بڑی بڑی ڈگریوں پر ڈگریاں لی ہوئی ہیں پھر بھی دھکے کھاتے ہیں ، اتنی مشقتوں کے بعد ملا کچھ بھی نہیں۔
میں خود تو اخبار دیکھتا نہیں ہوں مگر یہاں لوگوں سے کہہ رکھا ہے کہ کوئی اہم خبر ہو تو مجھے بتایا کریں ، انہوں نے کل ایک خبر بتائی کہ امریکہ میں لوگوں کو ملازمت نہیں ملتی دھکے کھاتے پھرتے ہیں ، بڑی بڑی ڈگریاں لے کر بھی نوکری نہیں ملتی اس لیے وہاں کے ماہرین نفسیات نے یہ کہا ہے کہ جہاں کہیں ملازمت کے لیے انٹرویو دینے جائیں تو لباس اچھا پہن کر جائیں خواہ کسی سے مانگ کر پہنیں ، لباس اچھا پہن کر اکڑ کر کھڑے ہوں تو انٹر ویو لینے والے پر رعب پڑے گا وہ سوچے گا کہ یہ کوئی بہت بڑا آدمی ہے ۔
اسی طرح سے مزدورکتنی محنت کرتا ہے نہ گرمی دیکھے نہ سردی دیکھے اور کتنی محنت کتنی محنت ۔ کسان زمین سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے کتنی محنتیں کرتے ہیں ۔ بسوں کے ڈرائیور ، ریل گاڑیوں ، ہوائی جہازوں کے ڈرائیور، کشتیوں اور دوسرے بحری جہاز چلانے والے کیسے مسلسل رات دن محنت کرتے ہیں اور ہلاکت کے خطرات الگ کہ کہیں جہاز گر جائے کہیں بحری جہاز ڈوب جائے ، کشتی تباہ ہوجائے ، بس کا حادثہ ہو جائے ، ریل گاڑی کا تصادم ہو جائے سخت مشقت کے ساتھ خطرات بھی بہت زیادہ ۔ یہ ساری کی ساری مشقتیں دنیا کمانے کے لیے انسان برداشت کرتا ہے ۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ ہم نے تمھیں مشقت میں پیدا کیا ، انسان کو مشقت میں پیدا کیا ، دنیا کمانے میں جیسے مشقت برداشت کرتے ہو تو کچھ اللہ کے لیے بھی مشقت برداشت کر لو ۔
 
محض نام کے مسلمان :
ایک معیار اللہ تعالٰی بیان فرما رہے ہیں :
وَ مِنَ الناسِ مَن یقول امنا باللہِ
بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ،زبان سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے ۔ پیدا ہوئے تو والدین نے نام رکھ دیا مسلمانوں جیسا بلکہ اب تو وہ بھی چھوٹ رہا ہے ۔ نام پوچھنے والے ٹیلی فون پر میرا وقت بہت ضائع کرتے ہیں ، کل کسی نے پوچھا کہ لڑکی کا نام " اقرأ " رکھ دیں اقرأ لڑکی کا نام ! جب میں نے بتایا کہ یہ کچھ بھی نہیں تو پھر کہتے ہیں کہ اچھا اچھا " اقصیٰ " لڑکی کا نام رکھنا کیسا ہے ؟ میں کہتا ہوں مسلمانوں جیسا نام رکھو تو کہتے ہیں کہ قرآن میں دیکھا ہے قرآن میں ۔ معلوم نہیں قرآن کو کیا بنا رکھا ہے ، کہتے ہیں کہ قرآن کو کھولیں پھر سات صفحے پلٹیں پھر اوپر کی سات سطریں گنیں پھر جو پہلا لفظ ہو یا ساتواں لفظ ہو وہ نام رکھ دیں ، عجیب عجیب شیطان کے چکر ہیں ۔ لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ اللہ نے قرآن نام رکھنے کے لیے اتارا ہے یا جن بھوت بھگانے کے لیے یا سفلی اتارنے کے لیے یا وسعت رزق کے وظیفے پڑھنے کے لیے یا معشوق کو رام کرنے کے لیے اللہ نے قرآن اتارا ہے ، ارے واہ مسلمان واہ !
اب تو مسلمانوں کے نام بھی گئے ، اب تو عجیب عجیب نام رکھتے ہیں اقرأ وقرأ ، اقصیٰ وقصیٰ تقصیٰ مقصیٰ پھر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس کے معنی کیا ہے تو اللہ کے بندو! جس نے نام رکھا ہے معنی بھی اسی سے پوچھو۔ سیدھی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے جو نام اوپر سے چلے آتے ہیں وہ رکھتے جائیں یہ شوق کیوں ہوتا ہے کہ کوئی نیا ہی نام ہو ۔ جب مجھ سے کوئی کہتا ہے کہ قرآن سے نکالا ہے تو میں اسے کہا کرتا ہوں کہ قرآن میں تو شیطان بھی ہے تو وہی نام رکھ دو ، شیطان کا ذکر ،ابلیس کا ذکر ، فرعون ، نمرود، شداد اور قارون وغیرہ کے نام بھی تو قرآن میں موجود ہیں ۔
دیکھیے اگر کوئی نام ویسے سمجھ نہیں آتا تو کچھ آسان صورت بتادوں ،کسی بڑے قبرستان میں چلے جائیں، میں نے سنا ہے کہ میوہ شاہ کا قبرستان بہت بڑا ہے کراچی کا سب سے بڑا قبرستان ہے ، جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہونے والا ہو وہ خود چلا جائے ساتھ کچھ لوگوں کو بھی لے جائے پھر ایک ایک قبر پر پڑھتے چلے جائیں ہزاروں نام لکھے ہوئے ہیں ہزاروں نام ، ان میں سے کوئی نام منتخب کر لیجیے شاید ہوسکتا ہے کہ ساتھ ساتھ موت بھی یاد آجائے، قبرستان میں جاکر موت بھی یاد آئے گی نا ۔ آج کل کا مسلمان قبرستان بھی جاتا ہے تو اپنی موت کو یاد نہیں کرتا حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبرستان جایا کرو اس لیے کہ اس سے آخرت یاد آتی ہے ، اپنی موت کو یاد کرنے کے لیے قبرستان جایا کرو ۔
کسی نے نام رکھ دیا مسلمانوں جیسا پھر کان میں اذان دینے کے لیے کسی کو پکڑ کر لے گئے کہ اس کے کان میں اذان دے دو ، آج کل مسلمان بننے کی جو علامات رہ گئی ہیں وہ بتا رہا ہوں ۔ مسلمانوں جیسے نام رکھ دیں ، کان میں اذان دلا دیں اور پھر لڑکا ہے تو ختنہ کر دیں اور ساتویں دن عقیقہ کر دیں تو بس پکا مسلمان ہوگیا ، اسے سند مل گئی مسلمان ہونے کی پھر آگے کہیں کسی موقع پر اپنی شاخت لکھنی ہو تو فارم میں مذہب کے خانے میں لکھتے ہیں " اسلام " اور بس سمجھتے ہیں کہ ہوگئے مسلمان ، اتنا کافی ہے۔
امتحان کی نوعیت :
اللہ تعالٰی قرآن مجید میں بار بار یہ اعلان فرماتے ہیں کہ دیکھ لو سمجھ لو سوچ لو خوب غور کرو تمھارے یہ کہنے سے کہ ہم مسلمان ہیں تو یہ اسلام کا دعویٰ ایسے ہی قبول نہیں کیا جائے گا ہم امتحان لیں گے ، امتحان لینے کے بعد دعوے کی حقیقت سامنے آجائے گی اگر واقعۃً مسلمان ہو تو قبول کریں اور اگر امتحان میں ناکام ہوگئے تو تمھارا دعویٰ جھوٹا ہے ہمارے ہاں قبول نہیں ۔ دنیا کے سارے امتحانوں کے لیے محنت کی جاتی ہے تو دنیا میں اللہ جو امتحان لے گا اس کے لیے کوئی محنت کیوں نہیں کی جاتی ؟ فرمایا :
لَقد خَلَقنا الانسان فی کبد ()
ارے ! سوچ لو ہم نے تو تم لوگوں کو مشقت میں پیدا کیا ہے دنیا کے کاموں کے لیے بھی امتحانوں کی مشقتیں تم پر ہیں اور دین کے کام کے لیے بھی امتحانوں کی مشقت اٹھانا پڑے گی اس کے بغیر نہ دنیا میں کامیابی ہوگی نہ دین میں کامیابی ہوگی مشقت اٹھانا پڑےگی ۔ ان آیات میں ایسی ہی مشقت کا ذکر ہے ، لوگ تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ، یوں کہہ دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، یوں کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا مذہب اسلام ہے مگر جب ہم امتحان لیتے ہیں تو اس میں ناکام ہوجاتے ہیں ، امتحان کی مشقت برداشت نہیں کرتے ۔
لوگوں کے ذریعہ ایذا ء :
فَاِذَا اُوۡ ذِیَ فِی اللہِ جَعَلَ فِتۡنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللہِ
میرے عشق کے دعوے دارو! محبت کے دعوے کرنے والو ! سن لو ! ہم لوگوں سے زیادہ تمھارے اوپر تکلیفیں ڈلوائیں گے ، لوگ ایذاء پہنچائیں گے ، تکلیف پہنچائیں گے ، مخالفت کریں گے ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ اٰمنا باللہ تو کہہ دیتے ہیں ، " ہم مؤمن ہیں " کہہ دیتے ہیں مگرجہاں کسی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچی ، ہم نے تھوڑا سا امتحان لیا تو : جَعَلَ فِتۡنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللہِ
لوگوں کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو اسے اتنی مشقت سمجھتا ہے اتنا گھٹتا ہے تکلیف برداشت کرنے سے کہ اللہ تعالٰی کے عذاب سے بڑھ کر اسے سمجھتا ہے ۔ اللہ کا حکم ایک طرف بیوی کا حکم دوسری طرف ۔ یہ مسئلے تو سامنے آتے رہتے ہیں ۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے تو داڑھی رکھ لی تھی لیکن بیوی نے کہا کہ منڈاؤ ، آخر بیوی نے داڑھی منڈوا کر چھوڑ ی ۔ ایسے لوگوں کے لیے ایک تو بڑا آسان سا جواب ہے کہ ارے اُلّو ! تو بیوی ہے یا شوہر ہے ؟ ارے اُلّو ! تو بیوی ہے یا شوہر ہے ؟ ایسی باتیں تو بہت سامنے آتی رہتی ہیں کہ ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں مگر بیوی کرنے نہیں دیتی ، ہم فلاں کام نہیں کرنا چاہتے مگر بیوی زبردستی کروالیتی ہے تو بجائے اس کے کہ اسے لمبے چوڑے نسخے بتائے جائیں مختصر سا نشتر یہ ہے کہ ارے اُلّو ! تو شوہر ہے یا بیوی ؟ یہ فیصلہ کرلے ، اگر بیوی کو شوہر بنا لیا پھر تو قصہ ہی ختم ہوا اور اگر تو شوہر ہے تو پھر بیوی کو واقعۃً بیوی بنا کر دکھاؤ خود شوہر بن کر دکھاؤ۔ ہے بڑی عجیب بات کہ بیوی کرنے نہیں دیتی ، ناراض ہوتی ہے ، ارے احمق ! اُلّو ! کماتا تو ہے نا ؟ کماتا تو تو ہے ، طاقت اور قوت تیرے اندر زیادہ ہے ، اللہ تعالٰی کے فیصلے کے مطابق عقل تیرے اندر زیادہ ہے ، دل ، کی قوت اور شجاعت عورتوں کی بنسبت تیرے اندر زیادہ ، گھر کا مالک تو ، شوہر تو بیوی وہ ، ساری چیزیں ملایئے ، جسمانی طاقت تیرے اندر زیادہ ہے ، عقل تیرے اندر زیادہ ہے مال سارا کا سارا تیرا تو کماتا ہے اور شیر جیسی صورت اللہ تعالٰی نے تیری بنائی ، بیویاں داڑھی بھی اس لیے منڈواتی ہیں کہ اس کی جو صورت ہے نا شیر جیسی صورت، تو مردوں کو رام کرنے کے لیے تابع کرنے کے لیے سب سے پہلا گُر یہ ہے کہ اس کی صورت کا جو رُعب ہے اسے ختم کرو ، اپنے جیسا بناؤ پھر اگر یہ کچھ کہے گا تو اسے کہیں گے کہ ارے جا ہیجڑا سا ! ہیجڑا ، ہیجڑا سا ! جواب یہی دے گی کہ ارے باتیں کیسے کر رہا ہے ہیجڑا سا باتیں کیسے کر رہا ہے ۔ یہ بیویاں جو سر چڑھ رہی ہیں تو اس لیے کہ مرد خود اللہ تعالٰی کی نافرمانی نہیں چھوڑتے ۔ جو لوگ اللہ کی نافرمانی نہیں چھوڑتے اللہ تعالٰی انہیں پٹواتا ہے مرواتا ہے ان کے ماتحت لوگوں سے ، بیوی ہر لحاظ سے ماتحت ہے ۔ ہر لحاظ سے ماتحت ہے ، جن لوگوں کے سروں میں بیویاں جوتے لگاتی ہیں ، پریشان کرتی ہیں ، پٹائی کرتی رہتی ہیں ، دولتیاں لگاتی رہتی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مرد خود اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں تو اللہ تعالٰی ماتحت لوگوں سے انہیں پٹواتے ہیں ، ٹھیک ہے تیری مرمت یوں ہی ہو سکتی ہے ، ہماری نافرمانی کرنے والے تجھے پٹوائیں گے تیری بیوی سے۔
چند روز کی بات ہے کسی نے بتایا کہ کراچی میں ایک بہت بڑے وکیل ہیں ہم نے خود انہیں روتے ہوئے دیکھا ہے ، ان کی بیوی انہیں مارتی تھی اس لیے رو رہے تھے ۔ کسی نے انہیں میرے پاس بھیجا کہ جاکر کوئی تعویز لو دُعا وغیرہ کرواؤ ۔ یہاں تو تعویز ایک ہی دیا جاتا ہے کہ اللہ کی نافرمانی چھوڑ دو ۔ بیوی کو تو اللہ نے تم پر مسلط کیا ہوا ہے کہ ذرا لگاؤ اس کی ٹھکائی ، نافرمان کو مار مار کر اس کا دماغ درست کرو ، بیوی مارتی ہے :
فَاِذَا اُوۡ ذِیَ فِی اللہِ جَعَلَ فِتۡنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللہِ
یہ قصہ تو بتا دیا ایک طرف کا دوسری طرف کا قصہ بھی ہوتا رہتا ہے کہ بہت سی بیویاں اپنے شوہر کو تنگ کرتی ہیں کہ بیوی بنو اور کہیں اُلٹا معاملہ بھی ہے کہ شوہر بیویوں پر ظلم کرتے ہیں مگر وہ کم ہے ، اسے بھی اس پر قیاس کر لیں کہ بیویاں اللہ کی نافرمانیاں کرتی ہیں تو اللہ تعالٰی شوہروں کو ان پر مسلط کر دیتے ہیں کہ ان کی ٹھکائی لگاؤ ۔
 
مسلمان کی بے شرمی :
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگ یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ اٰمنا باللہ ہم اللہ پر ایمان لائے مگر جب ہم ان کا امتحان لیتے ہیں تو :
فَاِذَا اُوۡ ذِیَ فِی اللہِ جَعَلَ فِتۡنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللہِ
کسی سے ذرا سی مخالفت کروادی ، بیوی سے ، شوہر سے ، بھائی سے ، بہن سے ، والدین سے ، اولاد سے ، دوستوں سے ، رشتے داروں سے ، پڑوسیوں سے اور تجارتوں میں کوئی شریک ہے تو اس سے کہ فلاں کام اگر نہیں کرو گے تو ہم ناراض ہو جائیں گے یا تم نے فلاں کام کیا تو ہم ناراض ہو جائیں گے ، اگر دین دار بن گئے تو ہم ناراض ہو جائیں گے ، اللہ کے بندے بن گئے تو ہم ناراض ہوجائیں گے ، فلاں فلاں کام چھوڑ دیا تو ہم نارا ض ہوجائیں گے ، ایسے مختلف مواقع پر لوگوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہوتا ہے ، کسی نے ذرا سی دھمکی دی ذرا سی تو یہ بھی دیکھتا سوچتا ہے کہ یہ میرا کیا بگاڑ لے گا ، تھوڑے سے لوگ کچھ ایسے بھی ہوں گے جو یہ سوچتے ہوں گے کہ اگر میں نے اس کی بات نہیں مانی اور یہ ناراض ہوگیا تو یہ میرا کیا بگاڑ لے گا ، اکثر تو سوچتے ہی نہیں بس ذراسی کسی نے ناراض ہونے کی دھمکی دی تو ہاں بھائی بندی ہے بھائی بندی، بھائی ناراض ہو جائیں گے ، رشتے دار ناراض ہو جائیں گے ، قبیلے سے کٹ جائیں گے کنبہ کٹ جائے گا ، یا بھتیجے کی شادی ہے یا بھائی کی شادی ہے یا بہن کی شادی ہے اس میں تصویروں کی لعنت ہوگی تو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم جائیں یا نہ جائیں ؟ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ انہیں یہ بات پوچھتے ہوئے شرم نہیں آتی ، جہاں اللہ تعالٰی کی طرف سے لعنت برس رہی ہو وہاں جانے کا پوچھتے ہی کیوں ہیں ؟ آج کا مسلمان ایسا ڈھیٹ ، ایسا بے شرم ، ایسا بے غیرت ، ایسا اللہ کا نافرمان کہ نافرمانی کی بات پوچھتے ہوئے شرم نہیں آتی بے شرمی سے پوچھتے ہیں کہ بھائی کے ہاں شادی ہے وہاں تصویریں بھی ہوں گی کیا ہم اس تقریب میں جاسکتے ہیں ؟ جب جواب ملتا ہے کہ جہاں تصویریں ہوتی ہیں وہاں اللہ کی لعنت برستی ہے لعنت، لعنت والی جگہ پر جائیں گے تو ملعون ٹھہرے دنیا میں بھی طرح طرح کے عذاب میں پسیں گے اور آخرت کا جہنم تو ہے ہی : ولعذاب الاٰخرۃ اکبر
آخرت کا عذاب تو بہت بڑا عذاب ہے تو جواب یہ دیتے ہیں کہ پھر وہ ناراض ہو جائیں گے ۔ کبھی میں یہ بھی پوچھ لیتا ہوں کہ وہ ناراض ہو جائیں گے تو کیا ہو گا ؟ کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ۔ کچھ بھی نہیں ہوگا تو ایسے ہی خواہ مخواہ بھائی کی رضا کو اللہ کی رضا پر مقدم رکھنا حالاں کہ کچھ بھی نہیں ،ایسے ہی بس وہ ناراض نہ ہو ، ناراض نہ ، اللہ ناراض ہوتا ہے تو ہو جائے ۔
اتنی موٹی سی بات عقل میں نہیں آتی کہ اگر وہ تیرا بھائی ہے تو کیا تو اس کا بھائی نہیں ؟ سوچیں ذرا خوب سوچیں وہ بدمعاش جہنم میں جانے اور لے جانے والا تیرا بھائی ہے تجھے اللہ نے اگر ہدایت دیہے تو بھی تو اس کا بھائی ہ ، اس کا اگر تجھ پر حق ہے تو تیرا اس پر حق نہیں ؟ وہ اگر تجھے کھینچ کر لعنت کی جگہ لے جانا چاہتاہے ، جہنم کی طرف کھینچ کر لے جانا چاہتا ہے تو کیا اسے جنت کی طرف لے جانا تیرا حق نہیں ؟ وہ اگر کہتا ہے کہ میں ناراض ہو جاؤں گا تو تیری زبان کدھر چلی گئی ؟ تیری غیرت کدھر چلی گئی ؟ تیرا ایمان کدھر چلا گیا ؟ تیری عقل نے کیوں جواب نہیں دیا ؟ کیا تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تیرا بھائی ہوں تمھیں اگر اللہ کا خوف نہیں تو کم از کم بھائی کا خیال تو کر سکتے ہو ۔ چاہیے تو یہ کہ یہ بھائی سے کہے کہ میں بھی اللہ کا بندہ تو بھی اللہ کا بندہ ، نہ میری مرضی کی بات نہ تیری مرضی کی بات ، مرضی میرے اللہ کی جس کے ہم بندے ہیں ہیں ، جس کے سامنے پیش ہونا ہے ، میری تیری بات چھوڑ دیجئے ۔ دوسرے درجے میں اگر میری تیری باتیں ہیں تو کیا صرف تو ہی میرا بھائی ہے میں تیرا بھائی نہیں ہوں ؟ یک طرف فیصلہ کیوں کیا جائے ؟ تو شریعت پر عمل کرنے کی وجہ سے مجھ سے ناراض ہو رہا ہے تو میں بھی تیری بد اعمالیوں سے بے زار ہوں ۔ اور وہ شیطان کا بندہ یہ نہیں کہتا کہ بھائی تو میرا بھائی ہے میں شیطان کو خوش کرنے کے لیے تجھے ناراض کروں یہ مجھ سے نہیں ہوتا ، تیری خاطر میں شیطان کی پیروی چھوڑ دیتا ہوں ، ویسے تو جہنم میں جانے کا شوق ہے مگر چونکہ تو میرا بھائی ہے اس لیے تیری خاطر چھوڑ دیتا ہوں ۔ وہ چھوڑنے کو تیار نہیں ، شیطان کے بندے اپنے بھائی کی خاطر شیطانی کام چھوڑنے پر تیار نہیں تو جسے اللہ نے ہدایت دے دی وہ بھائی کی خاطر اللہ کو کیوں ناراض کرتا ہے ؟ بات کچھ سمجھ میں آئی ؟ ایک بار استغفار پڑھ لیجیے تو بات جلدی سمجھ میں آجائے گی ، سب لوگ استغفار پڑھ لیں۔ پھر لوٹا دوں ؟ مجھے یہی خطرہ رہتا ہے کہ بات سمجھتے نہیں اگر سمجھتے تو یہ لوگ بار بار کیوں پوچھتے ہیں ؟
 
مسلمانو! ہوش میں آؤ :
مجھ سے پوچھتے ہیں کہ جہاد فرض عین ہے یا نہیں ؟ جواب ملتا ہے کہ فرض عین تو ہے اب کس چیز کا انتظار ہے ؟ ہندوستان کی فوجیں سرحد پر لگی ہوئی ہیں کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں ؟ کیااس کا انتظار ہے کہ گھروں میں گھس کر قتل کریں گے اس کے منتظر بیٹھے ہوئے ہیں ؟ پھر کہتے ہیں کہ وہ ابا کہتا ہے کہ جہاد پر مت جاؤ۔ تو میں کہتا ہوں کہ اچھا ٹھیک ہے انتظار کرتے رہو پھر دیکھیں بنتا کیا ہے ۔ سنیے ! میرا اللہ کیا کہہ رہا ہے ؟ :
[arabic]قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ [/arabic]() ( 9 : 24 )
" آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے پر تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کے راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا حکم بھیج دیں اور اللہ تعالی بے حکمی کرنے والے لوگوں کو ان کے مقصود تک نہیں پہنچاتا ۔"
اعلان ہو رہا ہے اعلان فرما دیجئیے اعلان کیجئے اعلان ، ارے جہاد سے جانے چرانے والو ! مختلف بہانے بنا بنا کر جہاد سے بھاگنے والوں سن لو ! یہ وہ قرآن ہے جسے پڑھ پڑھ کر خوانیاں پڑھواکر لڈو کھاتے ہیں وہ قرآن ہے ۔ فرما دیجئے اگر تمھارے بیٹے ، تمھاری اولاد ، تمھارے ابا ، تمھاری اماں ، تمھاری بیویاں ، تمھارے بھائی ، تمھاری تجارتیں ، تمھارے محلات ، سونے چاندی کے ڈھیر جو کچھ جمع کر رکھا ہے جب اللہ سے زیادہ محبوب ہو جائیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اور جہاد کرنے سے زیادہ ان چیزوں کی فکر ہو تو : فَتَرَبَّصُوا ، فَتَرَبَّصُوا انتظار کرو ، انتظار کرو ، کون کہہ رہا ہے ؟ اللہ کہہ رہا ہے انتظار کرو : [arabic]حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [/arabic]اللہ جب لائے گا عذاب تو پھر کہوگے کہ اگر پہلے سدھر گئے ہوتے تو اچھا ہوتا لیکن عذاب آنے کے بعد پھر مہلت نہیں ملے گی : [arabic]حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [/arabic]انتظار کرو حتیٰ کہ کہ اللہ کا عذاب آجائے ۔کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں ؟ ہندوستان سے کٹ مر کر آگئے اب یہاں آکر بھی آنکھیں نہیں کھل رہیں تو ہندوستان ہی واپس کیوں نہیں چلے جاتے ؟ جن لوگوں کو ابھی تک جہاد کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں تو واپس ہندوستان ہی چلے جائیں ، وہاں سے تو دُم دبا کر بھاگے آدھے مرے اور کتنی عورتیں قربان کرکے آئے ، جائیدادیں بھی ، بیٹیاں بھی ، بیویاں بھی ، سب کچھ قربان کرکے آئے اور یہاں آکر اللہ کی نافرمانی پہلے سے زیادہ کرتے ہو ؟ کچھ ہوش نہیں ! گناہوں میں مست ہو رہے ہیں :
[arabic]فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ[/arabic]
مسلمانی کے دعوے کرنے والے ، ایمان کے دعوے کرنے والے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو دشمن تم پر ٹوٹ پڑا ہے ، اللہ کے لیے ہوش میں آؤ، آنکھیں کھولو، دفاع کرو ، یہ اقدامانہ جہاد نہیں دفاعی ہے دفاع کرو، اپنی جانوں کا دفاع کرو ، اپنی عزت کا دفاع کرو ، اپنے ایمان کا دفاع کرو، اپنی بیوی بیٹیوں بہنوں کا دفاع کرو، جب یہ کہا جاتا ہے تو : [arabic]جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ، [/arabic]ارے نہیں نہیں ! ہم تو مر جائیں گے ۔ ارے ! تو جہاد میں نہیں مرا تو کیا ویسے کبھی بھی نہیں مرے گا ہمیشہ زندہ رہے گا ؟ ویسے معلوم یہ ہوتا ہے کہ آج کے مسلمان کے قبضے کی بات ہوتی تو قرآن سے جہاد کی ساری آیتیں نکال دیتا ۔ اللہ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے پوری دنیا مل کر قرآن سے ایک لفظ نکالنا چاہے تو نہیں نکال سکتی اگر اللہ کی طرف سے یہ ذمہ نہ ہوتا تو آج کا مسلمان قرآن کو بدل ڈالتا ۔ جہاد کے بارے میں قرآن بھرا ہوا ہے قتال والا جہاد قتال والا ، لڑو مارو ، لڑومارو ، جان سے مارو ، اپنی جانیں قربان کرو، دشمنوں کی جانیں مارو، اللہ کے کافروں کی گردنوں پر مارو، اللہ کے دشمنوں کے سروں پر مارو، اللہ کے دشمنوں کے جوڑ تاکو، جوڑ تاکو، پورا قرآن بھرا پڑا ہے تو آج کا مسلمان تو ساری آیتوں کو نکال دیتا باقی تھوڑا سا قرآن بس ایک دو پارے ہی رہ جاتا ساری آیتوں کو ختم کردیتا ۔ یااللہ ! قرآن پر ایمان عطاء فرما، تو اپنے احکام کا اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما ۔
وصل اللھم و بارک وسلم علٰی عبدک ورسولک محمد وعلٰی الہ و صحبۃ اجمعین والحمد للہ رب العٰلمین۔
 
Top