نور وجدان
لائبریرین
اِمکاں نہ کوئی آس, مِرے یار! کیا کریں
روئیں نہیں تو اور تِرے بیمار کیا کریں
اِسکا بھی ذوق صرف چُنیدہ دِلوں کو ہے
منزل سے بڑھ کے ہو جو رہِ یار, کیا کریں
زنجیر ہے نہ طوق, نہ بیڑی نہ کوئی قُفل
دل ہی نہ چاہے قید سے فرار, کیا کریں
لائے ہیں آپ دفترِ دامانِ تار تار
ہم چاکِ دل و جان کا شُمار کیا کریں
اُن کو کچھ اُنکے عشق سے آگے دِکھے نہیں
اپنا جُنوں نہیں اُنہیں درکار, کیا کریں
یوں ضَبط و اِحتیاط کے سب مرحلے ہیں سہل
کُوئے بُتاں سے اُٹّھے جب پکار, کیا کریں
(سیماب ظفر)
روئیں نہیں تو اور تِرے بیمار کیا کریں
اِسکا بھی ذوق صرف چُنیدہ دِلوں کو ہے
منزل سے بڑھ کے ہو جو رہِ یار, کیا کریں
زنجیر ہے نہ طوق, نہ بیڑی نہ کوئی قُفل
دل ہی نہ چاہے قید سے فرار, کیا کریں
لائے ہیں آپ دفترِ دامانِ تار تار
ہم چاکِ دل و جان کا شُمار کیا کریں
اُن کو کچھ اُنکے عشق سے آگے دِکھے نہیں
اپنا جُنوں نہیں اُنہیں درکار, کیا کریں
یوں ضَبط و اِحتیاط کے سب مرحلے ہیں سہل
کُوئے بُتاں سے اُٹّھے جب پکار, کیا کریں
(سیماب ظفر)