شکیل بدایونی :::: اِک عشق ہی کیا شعلہ فشاں میری غزل میں - Shakeel Badayuni

طارق شاہ

محفلین


hsue.jpg

شکیل بدایونی

اِک عشق ہی کیا شعلہ فشاں میری غزل میں
پنہاں ہیں رموزِ دو جہاں میری غزل میں

تعمیر کے پہلوُ ہیں نہاں میری غزل میں
مِلتا نہیں رجعت کا نِشاں میری غزل میں

دیکھے تو کوئی دیدۂ ادراک و یقین سے
ہر منظرِ فطرت ہے جواں میری غزل میں

اُردو کو جس اندازِ بیاں کی ہے ضرورت
مِلتا ہے وہ اندازِ بیاں میری غزل میں

بچ بچ کے نِگاہ و دلِ اربابِ ہوس سے
پائی ہے محبّت نے اماں، میری غزل میں

محدُود نہیں دائرۂ رنگِ تغزّل !
ہر شعبۂ ہستی ہے نہاں میری غزل میں

ہر شعر ہے مجموعۂ احساس و صداقت
ہر لفظ ہے نشتر کی زباں میری غزل میں

منظوم ہے میرے ہی خیالات کی تاریخ
کیا ذکر حدیثِ دِگراں میری غزل میں

محبُوب کی خلوت پہ نظر میرے سُخن کی
مظلوُم کی آہوں کا دُھواں میری غزل میں

مسجد کے مراحل، کہیں میخانے کی باتیں
افسانۂ ہر پیر و جواں میری غزل میں

کچُھ سِلسلۂ چنگ و دف و بربط و مضراب !
کچُھ تذکرۂ تیغ و سِناں میری غزل میں

بھڑکے گی یُوں ہی آتشِ ماحول کہاں تک
جذبات کے دریا ہے رواں میری غزل میں

ہے ظلم شکیل اہلِ سیاست کا یہ ورنہ
گنجائشِ تنقیص کہاں میری غزل میں

شکیل بدایونی



 
Top