اِک چہرہ کھوگیا ہے : برائے اصلاح

اِک چہرہ کھو گیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا​

اے چودہویں کے چاند! مِرے دل کی کر دوا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

وہ چہرہ دل رُبا جو مِرے آس پاس تھا
نازک بہت ہی پھول کی مانند، اُداس تھا
لگتا تھا اُس کو روگ ہے کوئی لگا ہوا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

میں نے اُسے کہا کہ کہو مجھ سے اپنا غم
کیوں ہو بجھے بجھے سے، نہ رکّھو یوں آنکھ نم
وہ مسکرا کے چل دیا لیکن نہ کچھ کہا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

آنکھوں میں اُس کی، خواب کسی کے سجے ہوئے
تھے اُس کی روح پر کئی نشتر چلے ہوئے
جو اُس کے دل میں تھا وہ لبوں پر نہ آسکا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

عمار! میں نے چاہا، کروں اُس سے کوئی بات
تنہا ہے وہ اگر تو میں لوں تھام اُس کا ہات
پوچھا جو اُس کا حال تو وہ آہ رو پڑا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

25 فروری 2009ء
 
اِک چہرہ کھو گیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا​

اے چودہویں کے چاند! مِرے دل کی کر دوا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

وہ چہرہ دل رُبا جو مِرے آس پاس تھا
نازک بہت ہی پھول کی مانند، اُداس تھا
لگتا تھا اُس کو روگ ہے کوئی لگا ہوا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

ء

بہت اچھا کہا ہے آپ نے۔
 
اِک چہرہ کھو گیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا​

میں نے اُسے کہا کہ کہو مجھ سے اپنا غم
کیوں ہو بجھے بجھے سے، نہ رکّھو یوں آنکھ نم
وہ مسکرا کے چل دیا لیکن نہ کچھ کہا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

ء

میں نے اُسے کہا کہ بتا مجھ کو اپنا غم
ہے کیا سبب کہ آج یہ پلکیں‌ہوئی ہیں نم

یا پھر یوں بھی

کیوں ہو بجھے بجھے سے ،یہ آنکھ ہے ‌پُر نم
وہ مسکرا کے چل دیا ، کچھ بھی نہیں کہا
اک چہرہ کھو گیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

باقی کام تو بھائی اساتذہ کا ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
اساتذہ حاضر ہوں۔۔۔
میں ذرا گھوم پھر کے سونے جا رہا ہوں عمار، بعد میں دیکھتا ہوں، اگر مجھ کو استاذہ میں شمار کیا جائے تو۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
عمار، اب میں دیکھ رہا ہوں اسے..
انیس کی یہ اصلاح پسند آئی، اس سے بہتر ہوئے ہیں یہ مصرعے
میں نے اُسے کہا کہ بتا مجھ کو اپنا غم
ہے کیا سبب کہ آج یہ پلکیں‌ہوئی ہیں نم
آخری بند البتہ مد نظر ہے

عمار! میں نے چاہا، کروں اُس سے کوئی بات
تنہا ہے وہ اگر تو میں لوں تھام اُس کا ہات
پوچھا جو اُس کا حال تو وہ آہ رو پڑا

اس میں ’لوں تھام‘ٕ میں روانی نہیں ہے. اور دوسرے مصرع میں بھی ’آہ‘ محض زائد ہے، ان مصرعوں کو یوں کہو
جو ہو سکے تو تھام لوں میں اس کا نرم ہات/ اس کے دونوں ہات
یا
ممکن جو ہو تو تھام لوں میں اس کے دونوں ہات/ کا نرم ہات
پوچھا جو اس کا حال، تو گھبرا کے رو پڑا
کیسا رہے گا..؟
 
شکریہ استاذ محترم۔۔۔

تبدیلیوں کے بعد


اے چودہویں کے چاند! مِرے دل کی کر دوا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

وہ چہرہ دل رُبا جو مِرے آس پاس تھا
نازک بہت ہی پھول کی مانند، اُداس تھا
لگتا تھا اُس کو روگ ہے کوئی لگا ہوا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

میں نے اُسے کہا کہ بتا مجھ کو اپنا غم
ہے کیا سبب کہ آج یہ پلکیں‌ہوئی ہیں نم
وہ مسکرا کے چل دیا لیکن نہ کچھ کہا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

آنکھوں میں اُس کی، خواب کسی کے سجے ہوئے
تھے اُس کی روح پر کئی نشتر چلے ہوئے
جو اُس کے دل میں تھا وہ لبوں پر نہ آسکا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا

عمار! میں نے چاہا، کروں اُس سے کوئی بات
جو ہو سکے تو تھام لوں میں اس کا نرم ہات
پوچھا جو اس کا حال، تو گھبرا کے رو پڑا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا
 
Top