عمار ابن ضیا
محفلین
اِک چہرہ کھو گیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا
اے چودہویں کے چاند! مِرے دل کی کر دوا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا
وہ چہرہ دل رُبا جو مِرے آس پاس تھا
نازک بہت ہی پھول کی مانند، اُداس تھا
لگتا تھا اُس کو روگ ہے کوئی لگا ہوا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا
میں نے اُسے کہا کہ کہو مجھ سے اپنا غم
کیوں ہو بجھے بجھے سے، نہ رکّھو یوں آنکھ نم
وہ مسکرا کے چل دیا لیکن نہ کچھ کہا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا
آنکھوں میں اُس کی، خواب کسی کے سجے ہوئے
تھے اُس کی روح پر کئی نشتر چلے ہوئے
جو اُس کے دل میں تھا وہ لبوں پر نہ آسکا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا
عمار! میں نے چاہا، کروں اُس سے کوئی بات
تنہا ہے وہ اگر تو میں لوں تھام اُس کا ہات
پوچھا جو اُس کا حال تو وہ آہ رو پڑا
اِک چہرہ کھوگیا ہے اُسے ڈھونڈ تو ذرا
25 فروری 2009ء