اِک ہے اپنے حُسن میں یکتا گُلاب غزل نمبر 120 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
اِک ہے اپنے حُسن میں یکتا گُلاب
باغ مہکا دیتا ہے سارا گُلاب

بِن تُمہارے کوئی گُل بھاتا نہیں
کیا چمیلی، کیا بنفشہ، کیا گُلاب

تُم سے حُسنِ یار کو تشبیہ دُوں؟
اِس قدر بھی تُو نہیں اچھا گُلاب!

خُوش نصیبوں کا مُقدر ہے مہک
سب کے حِصے میں نہیں آتا گُلاب

اے صبا! آ راز کی اِک بات سُن
ہے مرے محبوب کا مُکھڑا گُلاب

پُھول پر اِتنا نہ اِترا عندلیب!
لاکھ بہتر اِس سے ہے میرا گُلاب

لب ہیں ایسے جیسے گُل کی پنکھڑی
اور وہ رُخسار ہیں گویا گُلاب

باغ سے اچھا تو دِکھتا ہے یہاں
میں نے کفِ یار پر رکھا گُلاب

ناز خُود کرتا ہو جِس پر باغباں
کیا کِسی نے دیکھا ہے ایسا گُلاب؟

گُل نہیں ہوتا ہے کانٹوں کا عِوض
خار کا بدلہ نہیں ہوتا گُلاب

زندگانی کی حقیقت ہے یہی
غم خُوشی، ہیں زیست میں ،کانٹا گُلاب

کوئی بُلبل کیوں نہیں عاشق ہوا؟
ہے اِسی ہی فِکر میں سُوکھا گُلاب

یہ تعلق کِس قدر ہے دَلنشیں
عِطر ہے دُلہن تو ہے دُولہا گُلاب

پاس میرے، وصل کی شب، یاد ہے
اِک مرا محبوب تھا پِھر یا گُلاب

ہم نشینی کیسے بُھولوں جانِ جاں!
یاد ہے ہونٹوں پہ ہونٹوں کا گُلاب

کیا کہوں
شارؔق اُسے ،اُلجھن میں ہوں
چودہویں کا چاند یا مہکا گُلاب
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
اِک ہے اپنے حُسن میں یکتا گُلاب
باغ مہکا دیتا ہے سارا گُلاب
"اک ہ" تقطیع اچھی نہیں لگتی
حسن میں اپنے ہے اک یکتا...

بِن تُمہارے کوئی گُل بھاتا نہیں
کیا چمیلی، کیا بنفشہ، کیا گُلاب
درست

تُم سے حُسنِ یار کو تشبیہ دُوں؟
اِس قدر بھی تُو نہیں اچھا گُلاب!
اشرف علی کی بات درست ہے

خُوش نصیبوں کا مُقدر ہے مہک
سب کے حِصے میں نہیں آتا گُلاب
درست

اے صبا! آ راز کی اِک بات سُن
ہے مرے محبوب کا مُکھڑا گُلاب
پہلے مصرع سے ربط جم نہیں رہا، راز کی بات کیوں ہے بھلا؟ گرہ کچھ دوسری لگاؤ

پُھول پر اِتنا نہ اِترا عندلیب!
لاکھ بہتر اِس سے ہے میرا گُلاب
اپنے گل پر یوں نہ اترا عندلیب!
بہتر ہو گا، گلاب بھی پھول ہی تو ہے، عندلیب کا مخصوص پھول کوئی ہے تو اس کی بات کی جائے٠

لب ہیں ایسے جیسے گُل کی پنکھڑی
اور وہ رُخسار ہیں گویا گُلاب
ٹھیک

باغ سے اچھا تو دِکھتا ہے یہاں
میں نے کفِ یار پر رکھا گُلاب
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے

ناز خُود کرتا ہو جِس پر باغباں
کیا کِسی نے دیکھا ہے ایسا گُلاب؟
درست، اگرچہ قافیہ بندی ہی ہے

گُل نہیں ہوتا ہے کانٹوں کا عِوض
خار کا بدلہ نہیں ہوتا گُلاب
یہ بھی قافیہ بندی لگتی ہے

زندگانی کی حقیقت ہے یہی
غم خُوشی، ہیں زیست میں ،کانٹا گُلاب
اسے نکال ہی دو

کوئی بُلبل کیوں نہیں عاشق ہوا؟
ہے اِسی ہی فِکر میں سُوکھا گُلاب
بس انہیں فکروں میں ہے سوکھا...
بہتر ہو گا٠@

یہ تعلق کِس قدر ہے دَلنشیں
عِطر ہے دُلہن تو ہے دُولہا گُلاب
اسے بھی نکال دیا جائے

پاس میرے، وصل کی شب، یاد ہے
اِک مرا محبوب تھا پِھر یا گُلاب
دوسرے مصرعے کا بیانیہ رواں نہیں،" پھر یا" مجہول لگتا ہے

ہم نشینی کیسے بُھولوں جانِ جاں!
یاد ہے ہونٹوں پہ ہونٹوں کا گُلاب

کیا کہوں
شارؔق اُسے ،اُلجھن میں ہوں
چودہویں کا چاند یا مہکا گُلاب
یہ دونوں درست
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت شکریہ اشرف علی صاحب لیکن یہ لفظ "تو" نہیں ٰ"تُو" ہے۔۔
تُم سے حُسنِ یار کو تشبیہ دُوں؟
اِس قدر بھی تُو نہیں اچھا گُلاب!
جی ہاں۔" تُو" کی رعایت کے لیے پہلے مصرع میں "تم" کو "تجھ" کرنا پڑے گا ورنہ شعر میں شتر گربہ کا عیب آ جائے گا
 

اشرف علی

محفلین
بہت شکریہ اشرف علی صاحب لیکن یہ لفظ "تو" نہیں ٰ"تُو" ہے۔۔
تُم سے حُسنِ یار کو تشبیہ دُوں؟
اِس قدر بھی تُو نہیں اچھا گُلاب!
میں نے Tu کے لیے Tujh کہا ہے ، Toh کے لیے نہیں ...

کیا کہوں شارؔق اُسے ،اُلجھن میں ہوں
چودہویں کا چاند یا مہکا گُلاب
بہت خوووووب !
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر بہت نوازش ،اشعار درست کرنے کی سعی کی ہے توجہ چاہتا ہوں۔۔
اصلاح کے بعد۔
حُسن میں اپنے ہے اک یکتا گُلاب
باغ مہکا دیتا ہے سارا گُلاب

اصلاح کے بعد۔
تُجھ سے حُسنِ یار کو تشبیہ دُوں؟
اِس قدر بھی تُو نہیں اچھا گُلاب!

پہلا مصرعہ تبدیل کیا ہے۔
اے چمن! تُو پُھول اپنے پاس رکھ
ہے مرے محبوب کا مُکھڑا گُلاب

پہلا مصرعہ تبدیل کیا ہے۔
بادشاہ پُھولوں کا کہتے ہیں جِسے
لاکھ بہتر اِس سے ہے میرا گُلاب

شعر تبدیل کیا ہے۔
شاخ سے بہتر تو جچتا ہے یہاں
میں نے زُلفِ یار میں دیکھا گُلاب

اصلاح کے بعد۔
کوئی بُلبل کیوں نہیں عاشق ہوا؟
بس انہیں فکروں میں ہے سُوکھا گُلاب

اصلاح کے بعد۔
پاس میرے، وصل کی شب، یاد ہے
ایک میرا یار تھا اور یا گُلاب
 
شارق بھائی ۔۔۔ اشعار کی تعداد پر دھیان دیجیے ۔۔۔ خیالات کی روانی میں بہتے چلے جانا آسان ہوتا ہے، مگر اس کا ایک سائیڈ افیکٹ قافیہ پیمائی کی صورت سامنے آتا ہے ۔۔۔
فی زمانہ غزل میں آٹھ دس اشعار بہت ہوتے ہیں ۔۔۔ اس سے زیادہ ہوں تو قاری کی دلچسپی برقرار نہیں رہتی ۔۔۔ایک ہی زمین میں زیادہ خیالات جمع ہو جائیں تو بہتر ہے کہ اسے دو غزلہ کی صورت دے دیا کریں۔
 

الف عین

لائبریرین
اِس قدر بھی تُو نہیں اچھا گُلاب
اگر یہ Too ہے تو درست ہے،

بادشاہ پُھولوں کا کہتے ہیں جِسے
پہلا مصرع بحر میں نہیں، بادشہ اچھا نہیں لگتا یہ مصرع پھر کہو

ایک میرا یار تھا اور یا گُلاب
روانی میں اچھا نہیں، اُر کی وجہ سے
ایک میرا یار تھا، یا تھا گلاب
بہتر ہے
باقی اشعار درست ہو گئے
 

امین شارق

محفلین
بہت شکریہ سر رہنمائی کے لئے۔۔
جی سر یہ Too ہی ہے غلطی سے تو لکھ دیا۔
تُجھ سے حُسنِ یار کو تشبیہ دُوں؟
اِس قدر بھی تُو نہیں اچھا گُلاب!

کیا یہ اب درست ہے۔
لاکھ بہتر اِس سے ہے میرا گُلاب
شاہ پُھولوں کا جِسے کہتے ہیں لوگ

پاس میرے، وصل کی شب، یاد ہے
ایک میرا یار تھا، یا تھا گلاب
 
Top