---------------------------------------------
دوسرے ممالک سے پراڈکٹس جب خرید کر اپنے ملک لائی لاجاتی ہیں تو انہیں امپوٹس کہا جاتا ہے، اور ان تمام اشیا کی ادائیگی ڈالرز میں کی جاتی ہے۔ اگر کسی ملک کے پاس ڈالرز ختم ہوجائیں تو وہ کچھ بھی امپورٹ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ پاکستان اس وقت تیل سے لے کر ادویات، ٹیکنالوجی، کنسٹرکشن، پروڈکشن، حتی کہ زرعی پراڈکٹس تک امپورٹ کررہا ہے۔
اسی طرح جب اپنے ملک کی پراڈکٹس بیرون ملک بیچی جائیں تو انہیں ایکسپورٹس کہتے ہیں اور ان کی وصولی بھی ڈالرز میں ہوتی ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل سیکٹر میں اہم ایکسپورٹس رہی ہیں، اس کے علاوہ ہم کسی بھی دوسرے شعبے میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔
امپورٹ کیلئے ادا شدہ ڈالرز اور ایکسپورٹ انکم سے حاصل ہونے والے ڈالرز کے درمیان فرق کو کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ یا آسان الفاظ میں تجارتی خسارہ کہتے ہیں۔
ن لیگ نے جب اپریل 2018 میں اقتدار چھوڑا تو اس وقت پاکستان کا تجارتی خسارہ 15 ارب ڈالرز سے زائد ہوچکا تھاجبکہ زرداری دور جب ختم ہوا تو یہی خسارہ تین ارب ڈالرز ہوا کرتا تھا۔
دوسرے الفاظ میں ن لیگ نے ایک طرف پاکستان کی ایکسپورٹس کم کردیں، دوسری طرف امپورٹس بڑھا دیں تاکہ تجارتی خسارہ خطرناک لائن عبور کرجائے اور ملک معاشی دہشتگردی کا شکار ہوجائے۔
جب عمران خان کو حکومت ملی تو اس وقت تک تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالرز ہوچکا تھا یعنی اگر آپ نے اپنی امپورٹس کی ادائیگی کرنا ہے تو آپ کو بیس ارب ڈالرز درکار ہیں۔ اگر اوورسیز پاکستانیوں کا زرمبادلہ استعمال کریں تو پھر بھی دس ارب ڈالرز چاہئیں تاکہ تیل سے لے کر دوسری صنعتی اشیا کی ادائیگی کی جاسکے، ورنہ ملک کا پہیہ جام ہوجائے گا۔
تو آپ کیلئے یہ جاننا زیادہ مشکل نہیں ہوگا کہ امپورٹ بل کیلئے دس ارب ڈالرز کہاں سے حاصل کئے جائیں؟ یا تو دوست ممالک مدد کریں، یا اوورسیز پاکستانی ہُنڈی کی بجائے قانونی طریقے سے رقوم پاکستان بھیجیں، یا پھر عارضی بنیادوں پر قرضہ حاصل کرکے امپورٹ بل ادا کیا جائے۔
یہ ہے وہ بیک گراؤنڈ کہ جس کی وجہ سے حکومت کو شارٹ ٹرم حل کیلئے قرض لینا پڑ رہا ہے۔
لیگیوں کو یہ سوال اپنی قیادت یا اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہیئے کہ پچھلے پانچ برسوں میں ن لیگی حکومت نے ملک پر چالیس ارب ڈالرز کے قرض اور بیس ارب ڈالرز کا تجارتی خسارہ کیوں مسلط کیا؟
بقلم خود بابا کوڈا
---------------------------------------------------------
حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس کیوں جانا پڑا ہے؟
نون لیگ کے دور حکومت 2013 سے 2018 تک لیئے گئے قرضے، ن لیگ نے پاکستان کو معاشی لحاظ سے تباہ کیا اور پاکستان کو تباہی کے کنارے پر لا کر کھڑا کر دیا لیکن وزیراعظم عمران خان اب پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور حکومت کا ہر قدم اس ہی مقصد کیلئے ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 1971 سے لیکر 2013 یعنی 47 سالوں میں ملک کا قرضہ 16000 ارب روپے تھا۔ جو محض اگلے پانچ سالوں میں دوگنا ہوکر 30000 ارب روپے تک جا پہنچا۔
زرداری دور شروع ہونے سے قبل یہ ملک 6000 ارب روپے کا مقروض تھا۔ لیگی حکومت آنے تک یہ تین گنا بڑھ کر 16000 ارب روپے ہو گیا۔ مشرف کے آمرانہ ظالمانہ دور کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے دور میں تجارتی خسارہ مستحکم رہا۔
جبکہ بڑھتا خسارہ ہماری تجربہ کار جمہوری حکومتیں کے کارنامے ہیں۔ پوری قوم کو جمہوریت مبارک ہو!