ہانیہ
محفلین
’ آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہئے‘‘
جمعہ 2 دسمبر 2016 3:00
خوشامد ایسا تیر ہے جو سیدھا کبھی نہیں جاتا ،ہمیشہ گھوم پھر کر ہدف پر پہنچتا ہے
ڈاکٹر عابد علی ۔ مدینہ منورہ
خوشامد ایک مہلک بیماری اور ایسا نا سور ہے جو باقی تمام صفات کو ختم کردیتا ہے۔ یہ نالائق اور نااہل افراد کے دلوں میں فضول شوق پیدا کرتی ہے ۔ خوشامد کرتے وقت تیسرے درجے کے کنجوس ،مکھی چوس کو بھی آپ حاتم طائی کہہ کر پکارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
جلسے جلوسوں میں نعرے لگانا بھی خوشامد کے زمرے میں آتا ہے ۔ موقع کی سیاست سے فی البدیہہ نعرے گھڑنے کے فن کے ماہرکا لاؤڈ اسپیکر پر گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانا، مصروف چوراہوں پر ،نمایاں عمارتوں پر، دیواروں پر چاکنگ اور بینرلگانا ، افواہ سازی، بے پرکی اڑانا ، رائی کا پہاڑ بنانا ، کرپٹ سیاستدانوں کو پارسا ثابت کرنا، حادثات ، گرفتاریاں ، بدکاریاں اور اموات کی افواہیں پھیلانا بھی اسی کی کڑی ہے۔ بعض اوقات خوشامد بنا بنایا کام بھی بگاڑ دیتی ہے اس لئے سوچ سمجھ کر خوشامد کرنی چاہئے۔ ایک خوشامدی لکھتا ہے کہ یہ ایک ایسا تیر ہے جو سیدھا کبھی نہیں جاتا ،ہمیشہ گھوم پھر کر اپنے ہدف پر پہنچتا ہے ۔ خوشامد ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ بقول شاعر مشکور حسین یاد:
جیسے ہی بندھی سونے کی زنجیر گدھوں سے
ہونے لگا ہر شخص بغلگیر گدھوں سے
مت پوچھئے کیا کیف کا عالم ہوا طاری
وابستہ ہوئی اپنی جوتوقیر گدھوں سے
چاپلوس انسان اپنی زبان سے ایک وقت میں 2کام لیتا ہے یعنی تلوار کا بھی اور ڈھال کا بھی۔جو معرکے بندوق سے نہیں ہوپاتے وہ چاپلوسی سے انجام دے لیتے ہیں۔پرانے وقتوں میں قصیدہ گو اپنے ممدوح کی شاعری کو شجاعت اور بہادری ظاہر کرنے پر بہادر الملک کا خطاب اور نشاط پور کی سپہ سالاری حاصل کرتے تھے۔ خوشامد ایک مہلک میٹھا زہر ہے جس کا احساس نہیں ہوتا لیکن یہ چپکے چپکے اپنا اثر دکھاتی ہے۔ بقولِ شاعر:
خوشامد بڑے کام کی چیز ہے
زمانے میں آرام کی چیز ہے
خوشامد پہ کچھ خرچ آتا نہیں
’’خوشامد کے سودے میں گھاٹا نہیں‘‘
اب آئیے چمچہ گیری پر، ویسے تو چمچے کا لفظی معانی ڈوئی ، کفچہ یا کفگیر کے ہیں اگریہ چھوٹی جسامت کا ہو تو چمچی کہلاتا ہے ۔ چمچہ گیری کسی آرٹ سے کم ہرگزنہیں،بقول شاعر :
زندگی میں اس قدر بے چارگی اچھی نہیں
ہر قدم پر چارۂ تدبیر ہونا چاہئے
صاحب توقیر ہونے سے تو کچھ ملتا نہیں
آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہئے
چمچے کے بارے میں شاعر کے خیالات پیش ہیں:
بہت مجھ کو لگتا ہے پیارا کہ جب جب
مرے سامنے دم ہلاتا ہے چمچہ
اسی کے سبب سے ہے نفرت دلوں میں
کہ آپس میں ہر دم لڑاتا ہے چمچہ
زمانے کی پھٹکار اس میں ہو پھر بھی
سرِ انجمن دندناتا ہے چمچہ
’’ آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہئے‘‘
جمعہ 2 دسمبر 2016 3:00
خوشامد ایسا تیر ہے جو سیدھا کبھی نہیں جاتا ،ہمیشہ گھوم پھر کر ہدف پر پہنچتا ہے
ڈاکٹر عابد علی ۔ مدینہ منورہ
خوشامد ایک مہلک بیماری اور ایسا نا سور ہے جو باقی تمام صفات کو ختم کردیتا ہے۔ یہ نالائق اور نااہل افراد کے دلوں میں فضول شوق پیدا کرتی ہے ۔ خوشامد کرتے وقت تیسرے درجے کے کنجوس ،مکھی چوس کو بھی آپ حاتم طائی کہہ کر پکارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
جلسے جلوسوں میں نعرے لگانا بھی خوشامد کے زمرے میں آتا ہے ۔ موقع کی سیاست سے فی البدیہہ نعرے گھڑنے کے فن کے ماہرکا لاؤڈ اسپیکر پر گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانا، مصروف چوراہوں پر ،نمایاں عمارتوں پر، دیواروں پر چاکنگ اور بینرلگانا ، افواہ سازی، بے پرکی اڑانا ، رائی کا پہاڑ بنانا ، کرپٹ سیاستدانوں کو پارسا ثابت کرنا، حادثات ، گرفتاریاں ، بدکاریاں اور اموات کی افواہیں پھیلانا بھی اسی کی کڑی ہے۔ بعض اوقات خوشامد بنا بنایا کام بھی بگاڑ دیتی ہے اس لئے سوچ سمجھ کر خوشامد کرنی چاہئے۔ ایک خوشامدی لکھتا ہے کہ یہ ایک ایسا تیر ہے جو سیدھا کبھی نہیں جاتا ،ہمیشہ گھوم پھر کر اپنے ہدف پر پہنچتا ہے ۔ خوشامد ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ بقول شاعر مشکور حسین یاد:
جیسے ہی بندھی سونے کی زنجیر گدھوں سے
ہونے لگا ہر شخص بغلگیر گدھوں سے
مت پوچھئے کیا کیف کا عالم ہوا طاری
وابستہ ہوئی اپنی جوتوقیر گدھوں سے
چاپلوس انسان اپنی زبان سے ایک وقت میں 2کام لیتا ہے یعنی تلوار کا بھی اور ڈھال کا بھی۔جو معرکے بندوق سے نہیں ہوپاتے وہ چاپلوسی سے انجام دے لیتے ہیں۔پرانے وقتوں میں قصیدہ گو اپنے ممدوح کی شاعری کو شجاعت اور بہادری ظاہر کرنے پر بہادر الملک کا خطاب اور نشاط پور کی سپہ سالاری حاصل کرتے تھے۔ خوشامد ایک مہلک میٹھا زہر ہے جس کا احساس نہیں ہوتا لیکن یہ چپکے چپکے اپنا اثر دکھاتی ہے۔ بقولِ شاعر:
خوشامد بڑے کام کی چیز ہے
زمانے میں آرام کی چیز ہے
خوشامد پہ کچھ خرچ آتا نہیں
’’خوشامد کے سودے میں گھاٹا نہیں‘‘
اب آئیے چمچہ گیری پر، ویسے تو چمچے کا لفظی معانی ڈوئی ، کفچہ یا کفگیر کے ہیں اگریہ چھوٹی جسامت کا ہو تو چمچی کہلاتا ہے ۔ چمچہ گیری کسی آرٹ سے کم ہرگزنہیں،بقول شاعر :
زندگی میں اس قدر بے چارگی اچھی نہیں
ہر قدم پر چارۂ تدبیر ہونا چاہئے
صاحب توقیر ہونے سے تو کچھ ملتا نہیں
آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہئے
چمچے کے بارے میں شاعر کے خیالات پیش ہیں:
بہت مجھ کو لگتا ہے پیارا کہ جب جب
مرے سامنے دم ہلاتا ہے چمچہ
اسی کے سبب سے ہے نفرت دلوں میں
کہ آپس میں ہر دم لڑاتا ہے چمچہ
زمانے کی پھٹکار اس میں ہو پھر بھی
سرِ انجمن دندناتا ہے چمچہ
’’ آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہئے‘‘