محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
آسٹریا میں رواں سال پیدا ہونے والی پہلی بچی مسلمان ہونے کی وجہ سے لوگوں کی تنقید کے نشانے پر ہے۔ آسٹریا کے صدر نے اپنی خاموشی توڑ دی اور اس کے حق میں بول پڑے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق مسلم خاتون ’نیمی تمگا ‘ نے یکم جنوری کی رات 12 بج کر 47 منٹ پر بچی کو جنم دیا اور تب ہی یہ بچی سال 2018 کی پہلی بچی قرار پائی۔ لیکن مسلمان ہونے کے باعث اسے اور اس کے گھر والوں کو کافی تنازعات کا سامنا کرنا پڑا۔
نئے سال کے آغاز میں سب سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کو ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے اسی لیے اس بچی پر اختلافات جاری ہیں کہ کسی مسلم بچے کو ’نیو ائیر بےبی‘ کا ٹائٹل نہیں ملنا چاہیے۔ ’اسیل تمگا‘ کی پیدائش پر وہاں کےمقامی میڈیا نے گھروں والوں کےساتھ مل کر خوشی منائی اورساتھ ہی ان کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔
تصویروں کو دیکھتے ہی مختلف مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے سوشل میڈیا پر تنقید شروع کردی ۔تصویر میں اسیل کی والدہ حجاب پہنے ہوئے تھیں تو ایک صارف نے لکھا کہ ’اس نے اسکارف کیوں پہنا ہے، کیا اس کو کینسر ہے؟ ‘ کسی نے لکھا کہ ’ایک اور دہشت گرد پیدا ہوگیا‘ اور اس جیسے کئی تبصرے لوگوں کی جانب سے کیے گئے ۔
اس بڑھتے ہوئے تنازع کو دیکھتے ہوئے آسٹریا کے صدرنے اسیل کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا ویب سائٹ پر ایک پوسٹ شیئر کی جس میں انہوں نے بےبی اسیل کو پہلے دنیا میں آنے کی مبارک باد دی اور پھر کہا کہ ان کے لیے تمام بچے برابر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں پورا حق حاصل ہے کہ وہ دنیا میں پوری آزادی کے ساتھ آئیں اور ان کو تمام حقوق بھی ملنے چائیں۔
اس معاملے پر آسٹریا کی ایک این جی او نے بھی تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصرے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر نسل پرستی اور مذہب پرستی کس حد تک ہے۔
کسی کی خوشی لوگوں سے برداشت نہیں ہوتی جیسے اس خاندان کی ہنستی مسکراتی تصویر نفرت کی نظر ہو گئی۔