سید فصیح احمد
لائبریرین
" آواز "
کھلا آسمان، اڑتا عقاب اور ایک آواز
" بھاگ خرگوش بھاگ "
بنجر زمین کے سینے پر ایک خرگوش سہما ہوا تھا۔ بالکل ساکت، خوف سے؟ یا پھر مرتکز اور تیار! اڑتے ہوئے شکاری کا سایہ مختصر وقفوں کے بعد ننھے سفید جسم پر سے گزرتا اور کچھ دور لہراتی فصل میں گم ہو جاتا۔ اپنے شکار پر ٹک ٹکی باندھے شکاری بے چین نظر آتا تھا۔ خاموش فضا کو چیرتی ہوئی پھر وہی آواز بلند ہوئی۔
" بھاگ خرگوش بھاگ "
گویا کہ حملہ آور دھاوا بولنے سے پہلے شکار کے دھڑکتے دِل اور تیز سانسوں سے محظوظ ہونا چاہتا تھا! ہوا کے ایک جھونکے نے جو خرگوش کے بدن سے چپکے بالوں کو مرتعش کیا تو اس نے یک دم جست بھری، رُخ کھڑی فصل کی جانب تھا۔ عقاب پلک جھپکنے میں اس کے اوپر تھا، عین اس لمحے جب سفید جسم نوکیلے پنجوں کے شنکجے میں آنے کو تھا، خرگوش نے پوری قوت سے اپنے وجود کو ایک جانب موڑ دیا۔ ننھی ٹانگوں میں اس قدر طاقت نہ تھی پس وہ زمین پر لڑھکتا چلا گیا۔ نرم کان جسم کے نیچے رگڑے جانے کی وجہ سے لہو لہان ہو چکا تھا۔ بہتے خون نے شکاری کی گرمیء رفتار اور بھی بڑھا دی تھی۔ پھر سے آواز بلند ہوئی۔
" بھاگ خرگوش بھاگ "
اگلے حملے کے لیئے عقاب نے انتظار نہیں کیا اور چیخ کر ایک غوطہ لگایا۔ خرگوش کا جسم کانپ رہا تھا۔ اس میں اب بھاگنے کی سکت نہیں تھی۔ زخمی سر گھما کر اس نے آسمان کی طرف دیکھا جہاں بڑے نوکیلے پنجوں نے منظر روک رکھا تھا۔ اگلے ہی لمحے تیز دھار ناخن اس کے ننھے بدن میں پیوست ہو چکے تھے۔ زمین سے دوُر ہوتے منظر دھندلاتا گیا۔ آنکھیں بند ہوتے ایک بار پھر روح کو گھائل کرتی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
" بھاگ خرگوش بھاگ "
کھلا آسمان، اڑتا عقاب اور ایک آواز
" بھاگ خرگوش بھاگ "
بنجر زمین کے سینے پر ایک خرگوش سہما ہوا تھا۔ بالکل ساکت، خوف سے؟ یا پھر مرتکز اور تیار! اڑتے ہوئے شکاری کا سایہ مختصر وقفوں کے بعد ننھے سفید جسم پر سے گزرتا اور کچھ دور لہراتی فصل میں گم ہو جاتا۔ اپنے شکار پر ٹک ٹکی باندھے شکاری بے چین نظر آتا تھا۔ خاموش فضا کو چیرتی ہوئی پھر وہی آواز بلند ہوئی۔
" بھاگ خرگوش بھاگ "
گویا کہ حملہ آور دھاوا بولنے سے پہلے شکار کے دھڑکتے دِل اور تیز سانسوں سے محظوظ ہونا چاہتا تھا! ہوا کے ایک جھونکے نے جو خرگوش کے بدن سے چپکے بالوں کو مرتعش کیا تو اس نے یک دم جست بھری، رُخ کھڑی فصل کی جانب تھا۔ عقاب پلک جھپکنے میں اس کے اوپر تھا، عین اس لمحے جب سفید جسم نوکیلے پنجوں کے شنکجے میں آنے کو تھا، خرگوش نے پوری قوت سے اپنے وجود کو ایک جانب موڑ دیا۔ ننھی ٹانگوں میں اس قدر طاقت نہ تھی پس وہ زمین پر لڑھکتا چلا گیا۔ نرم کان جسم کے نیچے رگڑے جانے کی وجہ سے لہو لہان ہو چکا تھا۔ بہتے خون نے شکاری کی گرمیء رفتار اور بھی بڑھا دی تھی۔ پھر سے آواز بلند ہوئی۔
" بھاگ خرگوش بھاگ "
اگلے حملے کے لیئے عقاب نے انتظار نہیں کیا اور چیخ کر ایک غوطہ لگایا۔ خرگوش کا جسم کانپ رہا تھا۔ اس میں اب بھاگنے کی سکت نہیں تھی۔ زخمی سر گھما کر اس نے آسمان کی طرف دیکھا جہاں بڑے نوکیلے پنجوں نے منظر روک رکھا تھا۔ اگلے ہی لمحے تیز دھار ناخن اس کے ننھے بدن میں پیوست ہو چکے تھے۔ زمین سے دوُر ہوتے منظر دھندلاتا گیا۔ آنکھیں بند ہوتے ایک بار پھر روح کو گھائل کرتی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
" بھاگ خرگوش بھاگ "